سپریم کورٹ میں وقف قانون پر سماعت، فی الحال کوئی تقرری یا پراپرٹی کا اسٹیٹس تبدیل نہیں ہوگا، مرکز کا وعدہ
عدالت کو بتایا گیا کہ موجودہ اوقاف، بشمول وہ جائیدادیں جو 'وقف بذریعہ استعمال' (waqf by user) کے تحت دعویٰ کی گئی ہیں، ان کی حیثیت برقرار رہے گی۔

نئی دہلی: مرکزی حکومت نے جمعرات کے روز سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وقف قوانین میں حالیہ ترامیم کے خلاف دائر درخواستوں کی اگلی سماعت تک نہ تو کسی نئی تقرری کی جائے گی اور نہ ہی وقف پراپرٹیز کی حیثیت میں کوئی تبدیلی کی جائے گی۔
عدالت کو بتایا گیا کہ موجودہ اوقاف، بشمول وہ جائیدادیں جو ‘وقف بذریعہ استعمال’ (waqf by user) کے تحت دعویٰ کی گئی ہیں، ان کی حیثیت برقرار رہے گی۔
‘وقف بذریعہ استعمال’ کی شق کے تحت وقف بورڈز ایسی جائیدادوں پر دعویٰ کر سکتے ہیں جنہیں بغیر کسی دستاویزی ثبوت کے مذہبی یا فلاحی مقاصد کے لیے مسلمان استعمال کرتے رہے ہوں۔ گزشتہ سماعت میں عدالت نے اس شق پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ عدالت نے کہا، "ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ تمام ‘وقف بذریعہ استعمال’ غلط ہیں، لیکن اس پر تشویش ضرور ہے۔”
"کوئی تقرری نہیں ہوگی” کا مطلب ہے کہ وقف بورڈز کی نئی تشکیل، جیسا کہ حالیہ ترامیم میں کہا گیا ہے، فی الحال نہیں کی جائے گی۔
پارلیمنٹ کی جانب سے منظور شدہ ترامیم کے تحت اب وقف بورڈز میں غیر مسلم ارکان کی شمولیت لازمی قرار دی گئی ہے، جس پر مسلمانوں اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے شدید اعتراض کیا گیا ہے۔
ان ترامیم کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔ مغربی بنگال میں اس معاملے پر تین افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جس کے بعد ترنمول کانگریس اور بی جے پی کے درمیان سیاسی کشمکش نے شدت اختیار کر لی ہے۔
ترنمول حکومت نے ان قوانین کو ریاست میں لاگو نہ کرنے کا اعلان کیا ہے، جبکہ بی جے پی نے چیف منسٹر ممتا بینرجی پر اقلیتوں کی خوشنودی کی سیاست کا الزام لگایا ہے۔
آج کی سماعت کے دوران سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت سے ایک ہفتے کی مہلت مانگی تاکہ وہ ان ترامیم پر اپنا جواب داخل کر سکیں۔ عدالت نے یہ مہلت دے دی، اور تب تک حکومت نے سیکشن 9 اور 14 کے تحت کوئی تقرری نہ کرنے کا وعدہ کیا۔
ان دفعات کے مطابق، سنٹرل وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈز میں مسلمانوں کی تعداد کو محدود کر دیا گیا ہے — بالترتیب 22 میں سے صرف 8 اور 11 میں سے صرف 4 مسلمان ارکان ہوں گے۔
اس پر چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے حکومت سے سوال کیا کہ کیا وہ ہندو مذہبی اداروں کے بورڈز میں مسلمانوں کو بھی شامل کرنے کی اجازت دیں گے؟
عدالت نے یہ بھی کہا کہ وہ صرف پانچ اہم رِٹ پٹیشنز پر سماعت کرے گی، کیونکہ 100 سے زائد درخواستوں کی سماعت ممکن نہیں۔ باقی درخواستوں کو ‘خارج شدہ’ تصور کیا جائے گا۔
چہارشنبہ کے روز کی سماعت میں عدالت نے نئے وقف قوانین پر عبوری حکم (stay order) دینے کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن مرکز اور ریاستی حکومتوں کی جانب سے وقت مانگنے پر اسے موخر کر دیا گیا۔
عدالت نے واضح کیا کہ عبوری حکم تین نکات کی بنیاد پر دیا جا سکتا ہے عدالت کے فیصلے سے پہلے جو جائیدادیں ‘وقف بذریعہ استعمال’ کے تحت قرار دی گئی تھیں، وہ اب باطل قرار دی جا سکتی ہیں۔
سپریم کورٹ نے ابتدا میں واضح کیا تھا کہ وہ قانون سازی کے عمل میں مداخلت نہیں کرے گی، کیونکہ آئین میں اختیارات کی علیحدگی کی وضاحت کی گئی ہے۔
تاہم، آئینی معاملات کے حتمی فیصلہ ساز کی حیثیت سے عدالت نے ان درخواستوں کی سماعت پر آمادگی ظاہر کی ہے جن میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ نئی ترامیم بنیادی حقوق — مثلاً مساوات اور مذہبی آزادی — کی خلاف ورزی ہیں۔
قانون کو چیلنج کرنے والوں میں اپوزیشن جماعتوں کے رہنما، جیسے کانگریس، عام آدمی پارٹی، ڈی ایم کے، اور سی پی آئی شامل ہیں۔ ساتھ ہی، بی جے پی کی اتحادی جنتا دل یونائیٹڈ (جے ڈی یو) نے بھی عدالت سے رجوع کیا ہے، جو کہ بہار میں مسلمانوں کی بڑی آبادی کی نمائندہ جماعت ہے۔
اسی طرح جماعتِ علماء ہند اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ سمیت کئی مذہبی تنظیمیں اور این جی اوز بھی اس قانون کے خلاف درخواستیں دائر کر چکی ہیں۔ کچھ درخواست گزاروں نے قانون کی منسوخی کا مطالبہ کیا ہے، جبکہ کچھ نے اسے معطل کرنے کی درخواست کی ہے۔