مضامین

’رہنماؤں کی اداؤں پر فدا ہے دنیا‘

شہر میں جو برساتی پانی کے بہاؤکے لیےپائپ لائن کی تنصیب عمل میں لائی گئی ہے وہ فی گھنٹہ 2 ملی میٹر بارش کے پانی کی نکاسی کے لیے کافی ہے جبکہ فی زمانہ جو بارشیں ہورہی ہیں ان میں شہر میں فی گھنٹہ 9 تا 11 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی جارہی ہے، اس لئے سڑکوں پر پانی جمع ہونے کے مسائل دیکھے جانے لگے ہیں ...

محمد اسمٰعیل واجد
9866702650

ٹریفک جام اور پانی جمع ہونے پر عہدیدار سڑک پر آئیں، میں خود بھی سڑک پر آنے تیار ہوں:وزیراعلیٰ

چند دن قبل ریاستی حکومت کا بجٹ اجلاس کا انعقاد عمل میں آیا تھا بجٹ کی جہاں عام لوگوں نے تعریفیں کیں وہیں حکومت کو اس بجٹ پر اپوزیشن کی تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ وزیراعلیٰ نے اسمبلی میں اقلیتوں سے حکومت کے کئے گئے وعدوں کو اسمبلی میں دہرایا اس میں تیقنات بھی تھے ، پرانے شہر کی ترقی کیلئے بھی انہوں نے ایک علیحدہ بجٹ بھی دیا پرانے شہر میں میٹرو ریل کیلئے بھی وزیراعلیٰ نے 500 کروڑ روپئے بجٹ میں مختص کئے/ اقلیتی بجٹ کے تعلق سے اقتدار میں آنے سے قبل کانگریس نے 400 کروڑ روپئے دینے کا وعدہ کیا تھا/ اس وعدے سے انحراف کرتے ہوئے حکومت محکمہ اقلیتی بہبود کیلئے 303 کروڑ بجٹ میں مختص کئے /جسے شائد ایک مستحسن اقدام ہی قرار دیا جانا چاہیے بقول مشہور شاعر راحت اندروی ؎

ان دنوں آپ مالک ہیں بازار کے
جو بھی چاہے وہ قیمت ہماری رکھیں

اس کے علاوہ وزیراعلیٰ نے حیدرآباد، سائبرآباد ، رچہ کنڈہ میں دکانات اور ہوٹلوں کو رات ایک بجے تک کھلا رکھنے کا اعلان کرکے شہریوں کو ایک اذیت سے چھٹکارا دلایا/ ورنہ رات ساڑھے دس بجے سے پولیس ڈنڈے بجاکر دکانات کو بند کرنے کی مہم شروع کردیتی اور رات گیارہ بجے کے بعد ایسا ماحول پیدا ہوجاتا کہ جیسے شہر کی سڑکیں پولیس کے حوالے ہوں… بسا اوقات ایسے بھی واقعات دیکھنے کو ملے، پولیس کی سختی کا شکار عام آدمی بلکہ شریف النفس شہری بھی اس کی زد میں آگئے اور پولیس ہراسانی کا شکار ہوئے ۔
وزیراعلیٰ نے اسمبلی میں دونوں شہروں میں سڑکوں پر پانی جمع ہونے کا مسئلہ اور ٹریفک جام کے مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے تینوں کمشنران پولیس اور اعلیٰ عہدیداروں کو سڑکوں پر نکل کر کام کرنے کی ہدایت دی اور کہا کہ اس مسئلہ کے حل کیلئے وہ خود( وزیراعلیٰ ) بھی سڑک پر نکل کر کام کرنے کو تیار ہیں… شہر میں جو برساتی پانی کے بہاؤ کیلئے پائپ لائن کی تنصیب عمل میں لائی گئی ہے وہ فی گھنٹہ 2 ملی میٹر بارش کے پانی کی نکاسی کیلئے کافی ہے جبکہ فی زمانہ جو بارشیں ہورہی ہیں ان میں شہر میں فی گھنٹہ 9 تا 11 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی جارہی ہے، اس لئے سڑکوں پر پانی جمع ہونے کے مسائل دیکھے جانے لگے ہیں ۔ان مسائل کو دورکرنے اب وہ خود سڑک پر نکل کر خدمات انجام دیں گے پھر دیکھتے ہیں کہ عہدیدارکس طرح سے ایرکنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر مسائل کو حل کرنے اور عوام کو راحت پہنچانے کے اقدامات کرتے ہیں ۔

وزیراعلیٰ اپنے اس بیان پر کہاں تک عمل پیرا ہوتے ہیں، کہاں تک ان کا بیان حقیقت میں تبدیل ہوتا ہے اور کہاں تک ان کے اعلیٰ عہدیدار وزیراعلیٰ کے ا س بیان سے کہاں تک سبق حاصل کرتے ہیں اور اس قسم کے بیان سے شہر کے عوام کو کیا فوائد حاصل ہوتے ہیں ؟یہ تو آنے والا وقت بہت کچھ بتادے گا لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ ریاست کو ایک ایسا وزیراعلیٰ ملا جو خود عملی طور پر میدان میں اُتر کر کام کرنے کی بات کرتا ہے …اس کو یہ احساس ہے کہ اعلیٰ عہدیدار ایرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر کس طرح کام کرتے ہیں اور کس طرح کے احکامات جاری کرتے ہیں اور کس طرح کا عمل کیا جاتا ہے اور اس طرح عوامی مسائل حل ہونے میں کتنا وقت ضائع ہوتا ہے… اس طرح کا احساس ہمارے موجودہ وزیراعلیٰ میں پایاجاتا ہے ماضی کے وزیراعلیٰ کے تعلق سے یہ بات مشہور تھی کہ وہ اپنی حکومت صرف فارم ہاوس سے چلاتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔

دیکھا جائے تو موجودہ بارش کے موسم میں عوام کیلئے سب سے بڑا مسئلہ سڑکوں پر بارش کا پانی جمع ہوجانا اور شہر کی بیشتر سڑکیں ذرا سی بارش پر جھیل کا منظر پیش کرتی ہیں اور پرانے شہر کی تقریباً بستیوں میں بارش کا پانی ندی میں تبدیل ہوکر گھروں میں گھس جاتا ہے جس سے مکینوں کی زندگی کا چین و سکون اُڑ جاتا ہے۔ گھرو ںکے سامان استعمال کے قابل نہیں رہتے، مالی نقصان الگ، ذہنی پریشانی الگ، مختلف مسائل کا شکار پرانے شہر کے عوام ہوجاتے ہیں … اس کی وجوہات کو اگر ہم جاننا چاہیں تو پتا چلتا ہے کہ اس علاقے کے متعلقہ عہدیداروں نے مانسون سے پہلے کوئی تیاریاں نہیں کی، بستیوں سے گذرنے والے نالوں کی صاف صفائی نہیں کی، ڈرینج پائپ لائن بھری پڑی ہیں جس کی وجہ سے بارش کے پانی کی نکاسی کا کوئی راستہ ہی نہیں ملتا اور پانی غریبوں اور درمیانی افراد کے گھروں میں گھس کر تباہی کی نئی داستان لکھ رہا ہے اور بڑی بڑی سڑکیں جھیل کی شکل اختیار کرنے کی وجہ سے لوگ حادثات کا شکار ہورہے ہیں اور بلدی عملہ سکون کی نیند سورہا ہے یہ ہے قدیم شہر کے حالات اس جانب وزیراعلیٰ کو توجہ دینی چاہیے ۔

ہمارے شہر کادوسرا سب سے بڑا مسئلہ ٹریفک جام کا مسئلہ ہے، بہت سے لوگوں کایہ ماننا تھا کہ شہر میں میٹرو ٹرین دوڑنے کے بعد ٹریفک جام کے مسئلہ میںکمی آئے گی یا یہ مسئلہ ہی ختم ہوجائے گا… پرانے شہر کو چھوڑ کر شہر کے باقی حصوں میں میٹرو لائن دوڑ رہی ہے لوگ میٹرو ٹرین کا استعمال کثرت سے کررہے ہیں لیکن ٹریفک جام کا مسئلہ کہیں سے حل ہوتا دکھائی نہیں دیتا… دونوں شہر ہی اس مسئلہ سے پریشان ہیں، گھنٹوں ٹریفک جام سے لوگ عاجز آچکے ہیں، خاص طور پر پرانا شہر جہاں کی شاہراہیں تنگ دامنی کا شکوہ کرتی ہیں، صورتحال یہ ہے کہ ایمرجنسی میں چلنے والی ایمبولنس کو بھی لمبی ٹرافک جام میں اٹک جانا پڑتا ہے … اب مریض رہے یا نہ رہے یہ تقدیر کے حوالے کی بات بن جاتی ہے ۔

پرانے شہر کے دو چار حلقوں میں ماسٹر پلان ہو رہا ہے اور جہاں ماسٹر پلان کی اشد ضرورت ہے تنگ شاہراہ اور اس تنگ شاہراہ سے کورٹ کا راستہ نکلتا ہے، دیگر سرکاری دفاتر ہیں، دواخانے بار بار ٹرافک جام سے یہ رہ گذر بے انتہامشکل ہوگئی ہے۔ یہاں ماسٹر پلان کی نوٹسیں اجراء ہوگئیں، اخبارات میں نوٹسیں شائع ہوگئیں، اس علاقہ میں ماسٹر پلان کب ہوگا ؟کوئی ذکر نہیں دوچار ماہ میں عہدیدار آتے ہیں اور مسئلہ گرم کرکے پھر راہِ فرار اختیار کرجاتے ہیں ایسی شاہراہ کا بھی وزیراعلیٰ کو نوٹ لینا چاہیے اور یہاں ماسٹر پلان کرواکر اس ایریا کو تو ٹریفک جام کے مسئلہ سے پاک کیا جاسکتا ہے اور ایسی شاہراہیں نہ جانے پرانے شہر میں کتنی ہوں گی جہاں ماسٹر پلان ہونے کے بعد ٹریفک جام مسئلہ پر قابو پایا جاسکتا ہے …

وزیراعلیٰ نے اسمبلی کے بجٹ سیشن میں اور بھی بہت سے وعدے کئے ہیں جو ہمارے حساب سے ’’دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے‘‘ کے مصداق سمجھا جاسکتا ہے ۔مثال کے طور پر گوشہ محل اسٹیڈیم اور پولیس کوارٹرس کی اراضی پر عثمانیہ دواخانے کی نئی عمارت کا اندرون 20 یوم سنگ بنیاد رکھنے کا منصوبہ ۔ میر عالم تالاب پر ہینگنگ برج کی تعمیر کا فیصلہ حکومت کے پلان کے مطابق یہ برج لندن برج کے طرز پر تعمیر ہوگا ، وزیراعلیٰ کی تقریر میں کہیں بھی تاریخی عمارت شفا خانہ چارمینار کا کوئی ذکر نہیں ملتا جبکہ حکومت تاریخی عمارتوں کے تحفظ کی باتیں کرتی ہے اور شفا خانہ چارمینار برسوں سے اپنی بوسیدگی کا شکوہ کررہا ہے، یہاں کے طلباء اس عمارت کی بوسیدگی کولیکر ہڑتالیں کرچکے ہیں، وزیر اعلیٰ کو اس جانب بھی توجہ دینی چاہیے ۔ ہمیں تو وزیرر اعلیٰ کی مقبولیت یا ان کے کئے گئے اسمبلی میں اعلانات پر مشہورر شاعر دشینت کمار کا یہ شعر یادآتا ہے ۔ ؎

رہنماؤں کی اداؤں پہ فدا ہے دنیا
اس بہکتی ہوئی دنیا کو سنبھالو یارو
٭٭٭

a3w
a3w