مشرق وسطیٰ

یہاں کوئی فلسطینی ریاست نہیں ہوگی اور ہم کبھی اوسلو واپس نہیں جائیں گے: اسرائیلی وزیر

نیتن یاہو کی لیکود پارٹی کے ایک وزیر کہا کہ’’یہاں کوئی فلسطینی ریاست نہیں ہوگی اور ہم کبھی اوسلو واپس نہیں جائیں گے۔ کسی بھی فلسطینی ریاست کا وجود یہودیوں کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دے گا۔

واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن اور اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی انتظامیہ کے درمیان گزشتہ روز پہلی بار واضح اور باضابطہ طور پر اختلافات سامنے آنے کے بعد اسرائیل کی جانب سے مزید تند و تیز رد عمل آنے کا سلسلہ جاری ہے۔

متعلقہ خبریں
غزہ کو 3 حصوں میں تقسیم کرکے شمالی حصہ اسرائیل میں شامل کرنے کا منصوبہ
نیتن یاہو نے 150 بیمار اور زخمی بچوں کے غزّہ سے اخراج پر پابندی لگا دی
پارٹی رہنماؤں کی بڑھتی مخالفت: جو بائیڈن کی بطور دوبارہ صدارتی امیدوار نامزدگی ملتوی
مودی نے بائیڈن کے ساتھ دو طرفہ ملاقات کی
امریکی صدر جوبائیڈن کا قوم کو اتحاد کا پیغام، زبان پھر پھسل گئی

العربیہ کے مطابق نیتن یاہو کی لیکود پارٹی کے ایک وزیر کہا کہ’’یہاں کوئی فلسطینی ریاست نہیں ہوگی اور ہم کبھی اوسلو واپس نہیں جائیں گے۔ کسی بھی فلسطینی ریاست کا وجود یہودیوں کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دے گا۔

اسرائیلی وزیر مواصلات شلومو کارئی نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر اسرائیل کی حمایت میں بائیڈن کے مؤقف کی تعریف بھی کی اور کہا کہ ہم ریاستہائے متحدہ امریکہ کے صدر کا احترام کرتے ہیں اور ان کی قدر کرتے ہیں جنہوں نے انتہائی تاریک اور مشکل ترین حالات میں اسرائیل کی حمایت کی، یہ ایک سچی دوستی ہے۔

انہوں نے بائیڈن کا ایک اقتباس یاد کیا جس میں انہوں نے زور دیا کہ یہودی لوگوں کی سلامتی خطرے میں ہے ۔ فلسطینی ریاست اس سلامتی کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔

دوسری طرف اسرائیلی جنگی کونسل کے ایک رکن وزیر گیڈون سائر نے امریکی صدر اور اسرائیلی حکومت پر ان کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ جنگ کے دوران موجودہ ہنگامی حکومت کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔

بائیڈن نے نیتن یاہو سے اپنی حکومت کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے نیتن یاہو کی حکومت کو اسرائیل کی تاریخ میں سب سے زیادہ انتہا پسند قرار دیا۔ ان کا خیال تھا کہ اس حکومت نے غزہ کی پٹی پر کی جانے والی پرتشدد بمباری اور فلسطینی شہریوں کی بڑی تعداد میں ہلاکتوں کو دیکھتے ہوئے بین الاقوامی حمایت کھونا شروع کر دی ہے۔

بائیڈن نے واشنگٹن میں ایک انتخابی ریلی میں اپنی تقریر کے دوران یہ بھی کہا کہ اسرائیلی حکومت فلسطینیوں کے ساتھ دو ریاستی حل کی مخالفت کرتی ہے۔ لیکن یہی وہ راستہ ہے جس پر چلنے کا واشنگٹن نے حماس کے ساتھ جنگ شروع ہونے کے بعد کہا تھا۔

اسرائیلی وزیر اعظم نے اپنے اور واشنگٹن کے درمیان اختلافات کی موجودگی کو تسلیم کیا۔ لیکن وہ وہ بڑی حد تک 1993 میں ہونے والے اوسلو معاہدے میں واپسی سے انکار کرنے کے اپنی حکومت کے موقف پر قائم رہے۔ بائیڈن انتظامیہ یہ بھی سمجھتی ہے کہ دو ریاستی حل لاگو ہونے کے قریب ہے۔ دوسری طرف نیتن یاہو کا خیال ہے کہ یہ حل دفن ہو چکا ہے اور ناقابل عمل ثابت ہوا ہے۔