بنگلورو میں وی ایچ پی کا احتجاج۔ سینکڑوں حامیوں کی شرکت
وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے آج کرناٹک کی کانگریس حکومت کے خلاف احتجاج کیا اور سابق بی جے پی حکومت کی جانب سے متعارف کردہ انسدادِ تبدیلی مذہب قانون واپس لینے کے کابینہ کے حالیہ فیصلہ پر اس کی مذمت کی۔
بنگلورو: وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے آج کرناٹک کی کانگریس حکومت کے خلاف احتجاج کیا اور سابق بی جے پی حکومت کی جانب سے متعارف کردہ انسدادِ تبدیلی مذہب قانون واپس لینے کے کابینہ کے حالیہ فیصلہ پر اس کی مذمت کی۔
یہ احتجاج بنگلورو کے فریڈم پارک میں کیا گیا، جس میں وی ایچ پی کے سینکڑوں حامیوں نے کانگریس حکومت اور چیف منسٹر سدا رامیا کے خلاف نعرے بازی کی۔ وی ایچ پی نے ہندوؤں سے اپیل کی تھی کہ وہ اس احتجاج میں حصہ لیں۔ ریاست کے تمام ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرس پر بھی پُرامن احتجاج کیا گیا۔
وی ایچ پی کے ضلع سکریٹری جئے رام نے کہا کہ کانگریس کو نظم و نسق سنبھالے ہوئے ایک مہینہ بھی نہیں ہوا ہے، لیکن وہ انسدادِ تبدیلی مذہب قانون کو تبدیل کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مذہبی تبدیلی اور لو جہاد کے کئی کیسس کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔ ریاست میں اگر انہیں نہیں روکا گیا تو یہ نہ صرف ریاست کے لیے بلکہ سارے ملک کے لیے ایک بڑا بحران بن جائے گا۔
وی ایچ پی کے کارگزار صدر ایم بی پرانک نے کہا کہ ہندوستان ایک ہندو ملک ہے اور دستور نے مختلف مذاہب کے لیے پُرامن بقائے باہم کی اجازت دی ہے۔ دیگر مذاہب کے لوگ بھی اپنے مذہب اور رسوم و رواج پر عمل کرسکتے ہیں اور ہم اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ ہم صرف جبری تبدیلی ئ مذہب کی مذمت کرتے ہیں۔
ہندوستان ایک ہندو ملک ہے اور کرناٹک اس کا ایک حصہ ہے۔ ہر ہندو کو جبری تبدیلی ئ مذہب سے روکنا ہندو مذہب کے ہر رکن کی ذمہ داری ہے۔ انھوں نے کہا کہ کانگریس حکومت دیگر مذاہب کے افراد کے ساتھ ساتھ زیادہ تر ہندوؤں کے ووٹوں سے برسراقتدار آئی ہے۔ وہ صرف اقلیتی ووٹوں کی وجہ سے برسراقتدار نہیں آئی۔
کانگریس کا یہ اقدام تمام ہندوؤں کے ساتھ ایک بڑی دھوکہ دہی ہے۔ کرناٹک کے ہندوؤں کا مطالبہ ہے کہ اس تجویز کو واپس لیا جائے۔
پرانک نے یہ بھی کہا کہ کانگریس حکومت قومی سطح کے قائدین جیسے ویر ساورکر سے متعلق اسباق حذف کرتے ہوئے انتہائی نیچے گرگئی ہے، جس کا واحد مقصد کرناٹک کے ہندو یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اس تجویز کو واپس لیا جائے۔ ہمیں امید ہے کہ حکومت مخالف عوام فیصلے لینا بند کرے گی، جن کی وجہ سے سماج میں امن متاثر ہوسکتا ہے۔