مضامین

خریدے جب کوئی گڑیا‘ دوپٹا ساتھ لیتی ہے

سچائی یہ ہے کہ آج ہر گھر کا مزاج ہی بدلا ہوا ہے۔ اولاد کی نظروں میں ماں باپ کی حیثیت خوراکی دینے‘ ور لباس فراہم کرنے والوں کی حد تک ہی محدود ہوکر رہ گئی ہے۔

کسی بھی ملک اور قوم کی ترقی اور ڈسپلن کو پرکھنا ہوتو ہمیں گھر کی اکائیوں کو جانچنا ہوگا اور یہ دیکھنا ہوگا کہ ان گھروںکا نظم و ضبط کس حد تک ٹھیک ہے۔ کیا ہمارے بچے اپنے والدین کی جانب سے مقرر کردہ اخلاقی ضوابط پر چل رہے ہیں یا وہ ماں باپ کے حکم کو بے دردی سے ٹال رہے ہیں؟۔

متعلقہ خبریں
کشمیر اسمبلی میں 5 ارکان کی نامزدگی سپریم کورٹ کا سماعت سے انکار
برج بہاری قتل کیس، بہار کے سابق ایم ایل اے کو عمر قید
بھگوان کو تو سیاست سے دور رکھیں: سپریم کورٹ
تروپتی لڈو تنازعہ، سپریم کورٹ میں کل عرضیوں پر سماعت
سپریم کورٹ میں کل آر جی کار میڈیکل کالج کیس کی سماعت

سچائی یہ ہے کہ آج ہر گھر کا مزاج ہی بدلا ہوا ہے۔ اولاد کی نظروں میں ماں باپ کی حیثیت خوراکی دینے‘ ور لباس فراہم کرنے والوں کی حد تک ہی محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ وہ اپنے ماں باپ کی عظمت کو سمجھنے سے محروم ہیں اور اپنے مکان کو اپنا چمن سمجھنے سے بھی کترا رہے ہیں۔ رات کو جواں بیٹوں کا دیر سے گھر لوٹنا ‘ گھنٹوں یا تو سل فون پر یا پھر کمپیوٹر پر مصروف ہوجانا ان کی زندگی کا وطیرہ بن گیا ہے۔

وہ گھر کی ذمہ داریوں کو بانٹنا معیوب سمجھتے ہیں ماں باپ کی خدمت تو دور کی با ت ہے ‘ چھوٹے بھائی بہنوں سے بھی پیار کرنے کے لئے ان کے پاس وقت نہیں ہے۔ جب ہمارے گھروں کا یہ حال ہے تو کیا اس کا Reflection یا عکس ہماری قوم پر نہیں پڑے گا؟ کیونکہ قوم اکائیوں ہی سے بنتی ہے۔

ہم سیاسی جماعتوں کے علاوہ مرکز اور ریاستی حکومتوں کے کام پر تنقید کرتے ہیں اور موجودہ سیاسی نظام کو بدلنے کی بات کرتے ہیں لیکن اپنے گھروں کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو سنوارنے کی طرف توجہ نہیں دیتے ہیں تو پھر یہ ملک اور یہ قوم کیسے سدھریں گے؟ ہماری عبادتیں ‘ ہمارے پوجا پاٹھ سب کچھ ایک ڈھونگ لگے ہیں کیونکہ ہم انسانیت کی وراثت سے کوسوں دور چلے جاچکے ہیں۔ اس تباہی اور بربادی سے بچنے کا واحد حل یہی ہے کہ ہم جلد سے جلد سرکاری سطح پر نہ سہی کم از کم خانگی سطح پر ہی اخلاقی تعلیم کے حسین ورثہ کو فی الفور اپنے گلے سے لگائیں ورنہ تہذیب اور تمدن کی باتیں صرف ماضی کی داستان بن کر رہ جائیں گی۔

ہر بار یہ بحث چھڑتی رہتی ہے کہ ہمارا ملک ترقی نہیں کررہا ہے جسے ایک سیاسی بکواس کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ہندوستان نے ہر شعبہ حیات میں غیر معمولی چھلانگ لگائی ہے۔ سائنس کی دنیا ہو یا ٹکنالوجی کا میدان ‘ تعلیم کا سیکٹر ہو یا صنعتی اکائیوں کی بات ہو‘ تجارت ہو کہ زراعت ہو ۔ شائد ہی ایسا کوئی صیغہ ہوگا جس میں ہم پچھڑے ہوئے ہیں۔ حیدرآباد کے کئی خاندان جو صفر کے مہینہ میں اناج اور کچھ سکے خیرات کرتے ہیں یہ دیکھ کر حیران ہوگئے کہ اس دن اجناس لینے کے لئے ان کے گھروں تک فقراء نہیں آئے۔

ریاست کے کئی بڑے کاشتکاروں کو یہ شکایت ہے کہ مہاتما گاندھی رورل ایمپلائمنٹ گیارنٹی اسکیم کے شروع ہونے کے بعد ان کے کھیتوں میں کام کرنے کے لئے مزدور نہیں مل رہے ہیں۔ گھریلو مامائیں جو کسی زمانے میں 500 روپئے ماہانہ پر کام کرنے کے لئے تیار ہوجاتی تھیں اب ماہانہ 15ہزار روپئے دینے کی پیشکش کے باجوود دستیاب نہیں ہورہی ہیں۔ گھروں کی آہک پاشی اور چھوٹی موٹی داغ دوزی کرنے کے لئے جو مزدور پہلے 200 روپئے میں مل جاتے تھے آج 1200 روپئے میں اپنی خدمات پیش کررہے ہیں۔

یہ مزدور موٹر سیکلوں کے مالک ہیں وہ کام کی جگہ پر سل فون اور ایک چمکتے ہوئے اسٹیل کے ٹفن کے ساتھ پہنچتے ہیں یہ ساری باتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ملک نے ترقی کی ہے۔ یہ دیکھ کر مسرت ہوتی ہے کہ ان مامائوں اور ان مزدوروں کے بچے انگریزی میڈیم کے اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔ اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ انگریزی میڈیم مدرسوں کی تعداد میں اضافہ کے سبب فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں مضبوطی آئی ہے۔

بہرحال ہم مادی ترقیوں کی بلندیوں کو چھورہے ہیں مگر اخلاقی اور سماجی اقدار کے معاملہ میں ہمارا گراف دن بہ دن گرتا جارہا ہے۔ ماضی میں یہ دیکھا جاتا تھا ہندو خاندان کے نونہال تلگو مدرسوں میں پڑھتے تھے‘ اور مسلمانوں کی نو خیز نسل اردو میڈیم کا راستہ لیتی تھی لیکن انگریزی زبان کے چلن کے سبب ہندو اور مسلمان دونوں ہی کے راستے انگلش میڈیم اسکول پر ختم ہورہے ہیں اور ان اسکولوں میں عیسائی مشنریوں کو چھوڑ کر کسی بھی مخصوص مذہب کی تعلیم نہیں دی جاتی۔

اس حقیقت کے سبب سماجی اعتبار سے ہمارے بچے سیکولر فکر کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان کا یہ سفر مستقبل کے ہندوستان کو ایک ایسا ملک بناکر چھوڑے گا جہاں ہمیں ہندو ‘ مسلم ‘ سکھ یا عیسائی نظریہ کے پس منظر میں سوچنے کا بھی موقع نہیں ملے گا۔ مسابقتی امتحانوں کے Computerization کی وجہ سے کسی کو بھی کوئی گھپلا کرنے کا موقع نہیں مل رہا ہے اور ہر وقت میرٹ ہی کام آرہا ہے۔ حالیہ عرصہ میں یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ کئی مسلمان نوجوان میرٹ ہی کی بنیاد پر ان امتحانوں میں ممتاز مقام تک پہنچے ہیں۔

شیڈول کاسٹ نوجوانوں نے بھی تحفظات کے باوجود اپنی غیر معمولی ذہنی صلاحیتوں کے سبب فارورڈ کلاس طبقوں سے زیادہ نشانات حاصل کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ میرٹ فطرت ہے‘ میرٹ ہوا ہے ‘ میرٹ پانی ہے جس کا کوئی بدل نہیں ہے۔ پچھلے 66 سالوں میں جتنے بھی فرقہ وارانہ فسادات ہوئے وہ فرقوں کی بنیاد پر تعصب کی وجہ سے نہیں ہوئے بلکہ سیاسی مفادات کے حصول کے لئے کروائے گئے۔ بابائے قوم مہاتما گاندھی کو بھی یہ احساس ہوچلا تھا کہ ہندوستانی عوام کو سیاست کے سوداگر مذہب کی بنیاد پر بانٹنے کی کوشش کریں گے اور یہی وجہ تھی کہ انہوں نے قوم کو سمجھانے کے لئے اپنے مشہور بھجن میں یہ کہا تھا کہ
ایشور ‘ اللہ تیرے نام
سب کو سنمتی دے بھگوان
ہندوستان کی آزادی کے سب سے بڑے متوالے مولانا ابوالکلام آزاد نے ملک کی تقسیم کی یہ کہہ کر مخالفت کی تھی کہ اگر ’’پاکستان بنے گا تو میری لاش پر بنے گا‘‘۔ اپنے آخری ایام میں آنجہانی وزیراعظم اندرا گاندھی نے ملک کے اتحاد اور سالمیت کے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ بہادینے کی نہ صرف بات کہی تھی بلکہ سرزمین ہند کو اپنے لہو سے لال بھی کردیا۔ ایسے عظیم قائدین کا یہ ملک ترقی کررہا تھا کررہا ہے اور کرتا رہے گا۔

لیکن ہمیں ابراہم لنکن کی اس بات کو یاد رکھنا چاہئے کہ ’’آپ یہ نہ پوچھئے کہ وطن نے آپ کو کیا دیا ہے‘ آپ یہ سوچئے کہ وطن کے لئے آپ نے کیا کیا ہے‘‘ ۔
اس اثناء میں سپریم کورٹ کے تاریخ ساز فیصلہ کی اطلاع ملی جس میں شہریت قانون 1955 کے دفعہ نمبر 6A کی آئینی حیثیت کو برقرار رکھا جس کا مطلب یہ ہوا جو شخص بھی آسام معاہدہ کے تحت 25؍مارچ 1971 سے پہلے اس ریاست میں مقیم تھا وہ اور اس کی اولاد بھی ہندوستانی شہری شمار کی جائے گی۔

اترکھنڈ سے ایک اور اچھی خبر یہ ملی ہے کہ ہوٹلوں میں اور دھابوں پر فراہم کئے جانے والے کھانوں سے متعلق یہ جلی حروفوں میں لکھا جائے کہ یہاں حلال یا جھٹکہ مٹن ملتا ہے۔ کہاں تو یہ لوگ اس بات کی مخالفت کررہے تھے کہ غذاؤں پر حلال نہ لکھا جائے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سچائی کو کبھی دبایا نہیں جاسکتا۔


بہرحال ہم ترقی کررہے ہیں ، ترقی کرتے رہیں گے لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہم مشرق کے تارے ہیں اور مشرق میں تہذیب ہمیشہ عروج پر رہی ہے۔ شرم و حیا اور لجّا ہماری میراث ہے اور ہم کبھی بھی اپنی تہذیب سے غداری نہیں کرسکتے ۔ ہمارے کھلونوں میں بھی حیا کی جھلکیاں نمایاں دکھائی دیتی ہے اور ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
تعلق ہے میرا جس قوم سے‘ اُس قوم کی بیٹی
خریدے جب کوئی گڑیا‘ دوپٹا ساتھ لیتی ہے