ادبیمضامین

خراج عقیدت: نحیف آواز کا قوی طنز ومزاح نگار۔ڈاکٹر ممتاز مہدیؔ

ڈاکٹر ممتاز مہدی سے ہماری ملاقات کب ہوئی اور کیوں ہوئی ہمیں بالکل یاد نہیں۔ اس پہلی ملاقات پر کسی گہرے راز کی طرح دبیز پردے پڑے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ہم اس راز سے پردہ اُٹھانے کے لئے پچھلے تقریباً دس پندرہ برسوں سے پابندی کے ساتھ نہ صرف ان سے ملاقات کرتے رہے ہیں بلکہ تمام حربے بھی آزما چکے۔

ڈاکٹر جاویدکمال

ڈاکٹر ممتاز مہدی سے ہماری ملاقات کب ہوئی اور کیوں ہوئی ہمیں بالکل یاد نہیں۔ اس پہلی ملاقات پر کسی گہرے راز کی طرح دبیز پردے پڑے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ہم اس راز سے پردہ اُٹھانے کے لئے پچھلے تقریباً دس پندرہ برسوں سے پابندی کے ساتھ نہ صرف ان سے ملاقات کرتے رہے ہیں بلکہ تمام حربے بھی آزما چکے۔

راز سے پردہ تو نہیں اٹھا لیکن ان ملاقاتوں کی وجہ سے جاری دوستی اور گہری ہوتی چلی گئی۔ پہلی ملاقات کی وجہ چاہے کچھ بھی رہی ہو لیکن موجودہ ملاقاتوں کی وجہ ان کا خلوص انکساری، ادب نوازی اور پُر مزاح شخصیت تھی۔

ہم جب بھی ملتے تھے یہ بھول جاتے تھے کہ ہم نے اپنی اپنی عمر کی ساٹھ سے زیادہ بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ ممتاز مہدی کو تو مجھ سے زیادہ ہی بہاریں دیکھنے کا موقع ملا ہوگا۔ مگر پھر بھی ہماری گفتگو، ہمارا انداز اور ہمارے ارادے کسی پچیس تیس سالہ کھلنڈرے نوجوان جیسا ہی ہوتا تھا۔

(طویل عمر پانے کا یہ ایک حربہ ہے) Understanding انگریزی کا یہ لفظ ہماری دوستی کی بنیاد تھی حالانکہ عمر میں وہ ہم سے بڑے تھے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ (اگر شبہ ہوتا تو ہم ایک دوسرے کے برتھ سرٹیفکیٹس دیکھ لیتے)ساتھ ہی اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ بحیثیت مزاح نگار، ادیب، ڈراما نگار (ڈراما بازی میں تو وہ یقینا ہم سے بازی نہیں لے جاسکتے) تبصرہ نگار اور سب سے بڑھ کر خلوص میں بھی وہ ہم سے بہت اونچے قد کے حامل تھے ہی لیکن فٹ اور انچ والے قد میں وہ ہم سے کسی قدر چھوٹے نظر آتے تھے۔

ہو سکتا ہے کہ کسی زمانے میں یعنی نو جوانی کے زمانے میں قد آور رہے ہوں کیا پتہ؟ لگتا ہے ادب کی خدمت کرتے کرتے بجائے چپلیں گھس جانے کے قد ہی گھس گیا ہو۔ فخر سے بجائے سینہ پھولنے کے پیٹ پھول گیا ہو۔ خیر ہمیں ان کے قد اور پیٹ سے کیا لینا دینا تھا لیکن کبھی کبھی خوشی کے موقعوں پر ہم ان کے سینے سے لگ جانا چاہتے تھے لیکن اُن کا فخر سے پھولا ہوا پیٹ کسی چٹان کی طرح ہماری خوشی اور جوش کے درمیان حائل ہو جاتا تھا۔

ایسے وقت ہم اپنا معصوم سا سپاٹ پیٹ پیچھے کو اور سینہ آ گے کو کر کے ان کے دل تک پہنچنے کی بھی ناکام کوشش کرتے لیکن وہاں بھی ان کی گردن آڑے آجاتی تھی۔ لگتا تھا جیسے الگ الگ اصنافِ ادب میں طبع آزمائی کرتے کرتے اور اس کی واہ واہ اصول کرتے کرتے ان کی گردان اکڑ گئی ہو۔ اور اس اکڑن کا یہ فائدہ ہے کہ ممتاز مہدی لوگوں کا خیر مقدم گردن جھکا کر نہیں ٹیڑھی گردن سے کرتے تھے۔

ٹیڑھی انگلی تو سنا تھا کہ یہ گھی نکالنے کے کام آتی ہے لیکن ٹیڑھی گردن کا راز اور فائدہ ابھی تک سمجھ میں نہیں آیا۔ ویسے ہم نے کبھی بھی ان کی گردن پر سوار ہونے کی کوشش نہیں کی حالانکہ عام طور پر لوگ سر پر سوار ہو کر ہر جائز و ناجائز باتیں منوا لیتے ہیں۔ خیر ہم تو دل کے شیدائی ہیں ہمیں جسم کے دوسرے اعضاء سے کیا لینا دینا۔ ممتاز مہدی صاحب نیک اور صاف دل کے مالک تھے اور کسی اوپن پلاٹ کی طرح ہر شخص ان کے دل پر کسی لینڈ گرابر کی طرح قبضہ کر لینا چاہتا تھا اور آسانی سے وہ جگہ چھوڑنے تیار نہیں ہوتا۔ جو شخص بھی ایک بار ممتاز مہدی سے شرف ملاقات کر لیتا وہ دوبارہ نہیں بلکہ زندگی بھر ملاقاتوں کا متمنی رہتا۔

یہی ہمارے ساتھ بھی ہو رہا تھا۔ ہم نے برسوں پہلے ایک لطیفہ سناتھا کہ کسی عالمی سطح کی ایک ملاقات کے موقع پر ہندوستان کے آنجہانی وزیراعظم نرسمہا راؤ نے پاکستان کی مرحوم وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی طرف مصافحہ کرنے کے لئے آگے بڑھ رہے تھے تو بے نظیر بھٹو گبھرا کر پیچھے ہٹ گئیں۔ تب بے نظیر بھٹو کے ایک صلاح کار نے ان سے کہا کہ گبھرائیے مت میڈم، وہ آپ کو بوسہ لینے کے لئے آگے نہیں بڑھ رہے بلکہ ان کے ہونٹ ہی ایسے ہیں۔ وہ صرف آپ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر ممتاز مہدی کے ہونٹوں کو دیکھ کر ہمیں بے ساختہ نرسمہا راؤ یاد آجاتے تھے۔

ہمیں ممتاز مہدی کی شرافت پر پورا یقین ہے اگر یقین نہ ہوتا تو ہمیں ضرور شک ہوتا کہ بوسوں کی کثرت کی وجہ سے ان کے ہونٹ مستقل بوسہ لینے کے اینگل میں رہتے تھے۔ یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی ہر اچھی (بُری تو ہم نہیں کہہ سکتے) تخلیق چاہے وہ خا کہ ہو، انشائیہ ڈراما ہو یا تبصرہ کو پہلے خود ہی چومتے ہونگے پھر دوسروں تک پہنچاتے ہوں گے۔ان کی بیٹھک بھی دوسروں سے بالکل مختلف ہوتی تھی وہ کبھی نیچا نہیں بیٹھتے۔ ہمارا مطلب ہے کہ کرسی پر بلکہ اسکوٹر پر بھی وہ ایسے بیٹھتے لگتا تھا جیسے کسی وقت بھی کرسی خالی کر دیں گے یا چلتی اسکوٹر سے اتر جائیں گے۔ کسی کے پیچھے تو بیٹھتے ہی نہیں، ہمیشہ آگے والی سیٹ (نشست) کو ہی فوقیت دیتے۔

ان کی یہ عادت پتہ نہیں خاندان کے کسی بزرگ کی نصیحت کہ ”بیٹا ہمیشہ دوسروں سے آگے رہنے کی کوشش کرنا“یا پھر کسی ڈاکٹر کے مشورہ پر وہ ایسا کرتے تھے۔ خیر ہمیں اسکوٹر پر ان کے ساتھ کیا کسی کے ساتھ بھی پچھلی سیٹ پر بیٹھنے پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا کیونکہ ٹینشن فری بیٹھ کر شہر کی خستہ حال سڑکوں کا، ناکارہ اسٹریٹ لائٹس کا، فٹ پاتھوں پر ناجائز قبضوں کا اور بلدیہ کی اجازت کے بغیر تعمیر ہونے والی بے ہنگم عمارتوں کا اور بے لگام ٹریفک کا جائزہ لینے کا بھر پور موقع فراہم ہوتا ہے۔ یہی سوچ کر ہم بلا چوں و چرا، ایک مرتبہ ہم ممتاز مہدی کی ایکٹیوا پر بیٹھ گئے اور جب سفر کے اختتام پر صحیح سلامت گھر پہنچے تو ہماری نظریں اور ہاتھ دونوں شکرانے کے لئے آسمان کی طرف اُٹھ گئے۔

سفر کے دوران زیادہ تر ہماری آنکھیں بند ہی رہیں اور ہمیں لگا کہ اب ہماری آنکھیں دوا خانے میں ہی کھلیں گی۔ ٹریفک سگنل، رانگ سائیڈ، اور ٹیک، بنا ہلمیٹ کی پرواہ کئے بغیر وہ ایسے اسکوٹر چلا رہے تھے جیسے موت کے کنویں میں کوئی کرتب باز چلاتا ہے۔ ہم کیسے صحیح سلامت گھر پہنچ گئے ہیں یقین نہیں آیا۔ شاید اللہ کی طرف سے مقرر کردہ فرشتے ہماری حفاظت پوری تندہی سے کر رہے تھے کیونکہ فرشتوں کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ دوسرے فرشتوں کی حفاظت کرے۔ مہمان نوازی، ذرہ نوازی اور دریا نوازی میں بھی ممتاز مہدی دوسروں سے ممتاز رہنے کی کامیاب کوشش کرتے تھے۔ ہم اس کے گواہ بھی ہیں اور استفادہ کنندگان میں بھی شامل ہیں۔

دوستوں کا حلقہ نہایت محدود تھا باوجود اس کے کہ دوستی نبھانے والی تمام خصوصیات اُن میں موجود تھیں۔ جومل گیا اُسی کو دوست سمجھ لیا والی فطرت کے حامل تھے۔ کسی پر ناراض بھی ہوتے تو چہرے پر مسکراہٹ برقرار رہتی۔ قہقہے بھی حدو ادب کے دائرے میں لگاتے اس لئے دور بیٹھے ہوئے شخص تک ان کے قہقہوں کی آواز نہیں پہنچتی۔ ان کے ڈیل ڈول سے ان کی آواز قطعی مناسبت نہیں رکھتی تھی۔ اسی لئے محفلوں میں اپنے مضامین بھی وہ مصلحتاً دبی زبان میں ہی سناتے تھے تا کہ داد نہ ملے تو سامعین کو سنائی نہ دینے کا جواز پیش کر سکیں۔

حیدر آباد کے ایک باوقار ادارہ ”زندہ دلان حیدر آباد“ سے برسوں وابستہ رہے اور اس کے سالانہ ادبی محفلوں میں پابندی سے اپنے طنز و مزاح سے بھر پور مضامین بھی سناتے تھے لیکن ہمارے کان یہ سنے اور ہماری آنکھیں یہ دیکھنے کو ترس گئی تھیں کہ ممتاز مہدی نے ”محفل لوٹ لی“۔ حالانکہ بیرون ملک و بیرون ریاست سے آئے بعض ان سے کم تر درجہ کے کم تجربہ کار مزاح نگار ان کی موجودگی میں محفل لوٹ کر یہ جا وہ جا ہو جاتے لیکن واہ رے ممتاز مہدی ان کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کے سر میں جوں رنگیتی۔

کان پر جوں رینگتی تو شاید وہ آنے والے سال محفل لوٹنے کی تیاری کرتے۔ سچ تو یہ ہے کہ ممتاز مہدی لوٹنے والی شخصیت کا نام نہیں تھا بلکہ دوسروں کو محفلیں لوٹتے ہوئے دیکھ کر خوش ہونے والی شخصیت کا نام تھا اور جو آدمی اس فن سے واقف ہو جاتا ہے وہی سچا اور بڑا ادیب، ڈراما نگار اور مزاح نگار کہلاتا ہے۔

ان معنوں میں ممتاز مہدی میری نظر میں ریا کاری سے دور نام و نمود سے بے نیاز، محفلیں لوٹنے پر یقین نہ رکھنے والا ایک ہمہ دان شخصیت کا نام تھا۔ اپنی”شامت اعمال“لئے”غزل کی آبرو“ کی حفاظت کرتے ہوئے ”الٹی گنگا“بہاتے ر ہے۔ اور اپنی ادبی بہاریں دکھاتے رہے لیکن اچانک ہی یہ بہاریں خزاں میں بدل گئیں اور نحیف آواز کے قوی مزاح نگار کی آواز ہمیشہ کے لئے معدوم ہوگئی۔ اللہ غریق رحمت کرے۔(آمین) بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں۔
٭٭٭

a3w
a3w