مظہر قادری
ہمارے یہاں قوانین کا بڑا عجیب وغریب استعمال ہے۔یہاں لٹنے والے کو بیوقوف اورلوٹنے والے کو عقلمند کہاجاتاہے۔ یہاں قانون کا اکثر استعمال لا قانونیت کے لیے کیاجاتاہے۔سگنل پر اچانک لال لائٹ آجانے پر آپ اسٹاپ لائن کے آگے بڑھ جانے پر فوری قانون کی پاسداری کرتے ہوئے اگررُک گئے توفوری پولیس والا آکر آپ کو لائن کراس کرنے پر چالان کردیتایاپھرکوئی پیچھے سے آنے والی تیز رفتار گاڑی آپ کو اچانک گاڑی روکنے پر کُچل دیتی۔وہیں آپ کے پیچھے والا سگنل بند ہونے کے باوجود اپنی گاڑی بھگاکر نکل گیاتوپولیس اس کا کچھ نہیں بگاڑسکتی اوروہ خوشی خوشی اپنی جان اورمال دونوں بچاکر نکل جاتااورقانون کی پاسداری کرکے آپ یاتومال سے ہاتھ دھوبیٹھتے یا پھر جان سے …… ایک شریف شہری پولیس میں شکایت کرتاکہ اُس کو فلاں شخص سے جان کو خطرہ ہے۔پولیس کچھ نہیں کرتی اور وہ شخص قتل کردیاجاتا۔پولیس مقتول کے گھروالوں سے سوالات جوابات کرکے پریشان کرتی رہتی اور اگر قاتل گرفتار بھی ہوجائے تودوسرے دن ضمانت پررہاہوجاتااورنہ صرف زندہ رہتابلکہ مقتول کے لواحقین کو دھمکاتے رہتاکہ مقدمہ واپس لے لوورنہ۔۔۔چوں کہ وہ تجربے کا رقاتل ہوجاتااس لیے اس سے ڈرکے اپنی جان بچانے کے لیے نہ صرف مقدمہ واپس لے لیتے بلکہ جس مدعے پر پہلاقتل ہواتووہ ڈیمانڈ بھی پوری کردیتے جوعموماً مال وجائیدادکامعاملہ رہتا۔
شراب پی کرگاڑی بھگاتے ہوئے دولت مندکسی راہ گیرکو کچل کر جان سے ماردیتے۔چنددن کی جیل یاپھرفوری Bail،متوفی کا گھربربادہوجاتا،لیکن اس بربادگھرکو بازآباد کرنے کاکوئی حل نہیں۔ چاہے اس نوجوان کے بوڑھے ماں باپ روروکے اندھے ہوجائیں،چاہے اس کے بچوں کااسکول چھوٹ جائے،چاہے وہ بھیک مانگنے پر مجبورہوجائیں،چاہے اس کی بیوی لوگوں کے گھرمیں برتن مانجنے پر مجبورہوجائے قانون کو اس سے کوئی مطلب نہیں۔قانون نے بس خاطی کو گرفتارکیا،ضمانت پر رہاکیا،عدالت کے چند دن چکر کٹوائے، بس معاملہ ختم!
ہوٹل والے کی لاپرواہی سے گاہک سمیت غذاکھاکے مرگئے۔ دودن ہوٹل بند، دودن مالک پولیس کسٹڈی میں، پھر مالک کار میں اور ہوٹل کاروبار میں۔ کسی کی جان چلی جاتی ہے اوردوسرے دن وہ قصہ فراموش ہوجاتا ہے۔۔۔
پیسہ کمانے کے لیے سستی زہریلی شراب بناکرغریبوں کوپلاتے،موت کی نیندسلاتے، گرفتار ہوتے، ہرجانہ بھرتے،پھرمالک آزاد ہوکر قیمتی امپورٹیڈ شراب پیتے ہوئے ہنستے بولتے رہتے۔کوئی قانون نہیں کہ ان کا مکمل کاروباربند کردیاجائے یاان کو تاحیات بند کردیاجائے۔۔۔
پُل بنانے میں ناقص میٹریل استعمال کرتے،خوددولت کماتے،آفیسروں کو رشوت کھلاتے،پُل ٹوٹ جاتا سینکڑوں بے گناہ جان سے ہاتھ دھوبیٹھتے،پھرآفیسروں کو پیسے کھلاتے،پولیس کو پیستے کھلاتے، معاملہ رفع دفع،پُل گراسومرنے والوں کوہمیشہ کی نیند سلاکر خودہوشیارنیندسوتے رہتے۔ قانون آنکھ بند کرکے پیش کردہ دلائل کی بنیادپر اورعموماً جھوٹی شہادتوں پر بھروسہ کرکے مجرموں کو بری کرتا رہتا۔۔۔
اب وکیل مقدمے حق کے لیے نہیں بلکہ صرف اورصرف مؤکل کو بچانے کے لیے لڑرہے ہیں۔ ان کو حق اورناحق سے کوئی مطلب نہیں، ان کوصرف اپنی فیس سے مطلب ہے۔ان کو بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ بے گناہ لاچاراورگناہ گاربڑا مکارہوتا ہے۔لاچارکچھ نہیں دے سکتا،جبکہ مکاران کو مالامال کرسکتا ہے، اس لیے وہ بس اس مکارکو بچانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں رشتے دار،دوست اور اپنوں کے لیے قانون میں نرمی اورغیروں کے لیے قانون کا سختی سے استعمال۔مردپر قانون کا سختی سے اطلاق اورعورت پر قانون میں سات خون معاف۔لڑکا لڑکی دونوں ایک دوسرے کو ٹوٹ کرچاہتے، لیکن حالات سے مجبورہوکر لڑکی اپنا گھربسالیتی، کوئی جرم نہیں۔ اگرلڑکا اسے چھوڑکر اپنا گھر بسالیاتواس پر لڑکی کودھوکہ دینے کے سخت سے سخت الزامات اورسزا۔ لڑکیاں کسی بھی قسم کا دھوکہ دینے پر ان پر کوئی فرد جرم نہیں اوراگرلڑکا لڑکی کودھوکہ دیا توسیدھاجیل۔ لڑکی اگرغلطی سے کسی لڑکے سے ٹکراگئی توکوئی جرم نہیں بلکہ لڑکے کی خوش قسمتی وہیں اگرکوئی لڑکا لڑکی سے غلطی سے ٹکراگیاتولفنگا اورسزاجیل۔بیوی شادی سے موت تک شوہر پر ظلم کرتی ہے تو کوئی گناہ نہیں کوئی سزانہیں۔شوہر اگربیوی پر ایک باربھی غصہ کرتا ہے توDomestic Violence اورسزا۔ شوہر، اس کے ماں باپ، بہن بھائی سب ملزم۔۔۔۔۔
وکیل جھوٹامقدمہ جیت گیا تواس کوتگڑی فیس اورشریف آدمی سچ کو سچ نہیں ثابت کرسکاتواس کو عمر قیدکی سزا۔یعنی جھوٹا جھوٹ بولاتوسچاسرپکڑرویا۔ماں کا بچے کو مارنا اس کو سدھارنا باپ کا بچے کو مارنا اس کو باغی بنانا۔لڑکا لڑکی اگرعاشقی کرکے دونوں گھرسے بھاگے گئے توپولیس ان کو ڈھونڈکر لاکر لڑکی کوعزت سے گھرپر چھوڑدیتی اورلڑکے کوورغلانے کے الزام میں جیل میں ٹھوس دیتی حالانکہ عموماً ورغلاتی لڑکی ہے۔۔۔۔۔
بڑے آدمی کا اگرکتابھی گم ہوگیاتوساری سرکاری مشنری اسے ڈھونڈنے نکل جاتی وہیں اگرکسی غریب کا بچہ بھی گم ہوگیاتوکسی قانونی مشنری کے کان پرجوں تک نہیں رینکتی۔بڑے آدمی کی شکایت پولیس گھرپرآکر احترام سے لیتی ہے اوروہیں غریب آدمی شکایت لے کر گیاتوبے عزتی کرکے گھربھیج دیتی۔۔۔۔۔
حالانکہ قانون اندھا،بہرا،گونگا اورسب کے لیے یکساں ہے،لیکن عمل کرنے والوں نے قانون کو اپنے حسب منشالاقانونیت میں بدل دیاہے،جوچاہے دکھاسکتے،جوچاہے سنا سکتے اورجوچاہے کہلواسکتے۔۔۔۔۔