حیدرآباد: بات ملک کی تقسیم کی نہیں تھی بلکہ ایک خاندان کی تقسیم کی تھی۔ جو کہ ایک ناقابل تصور المیہ ہے۔
ایک ہی خاندان میں آدھے کہہ رہے تھے ملک چھوڑ کر جانا چاہیے تو آدھے لوگوں کا ماننا تھا کہ آباءو اجداد کی زمین چھوڑ کر کیسے جائیں’ بڑی کشمکش کا دور تھا اور جب اکثر لوگ گئے تو اچھی خبریں نہیں آئیں۔ملک کی تقسیم یقینی طور پر ہولناک تھی۔ اس کے بیان کرنے والے یا تو گزر گئے جو ہیں اب وہ بہتر طور پر نہیں بتا سکتے۔
ان خیالات کا اظہار آج پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے ایک روزہ قومی سمینار بعنوان ”اردو ادب میں تقسیم کی عکاسی“ کے افتتاحی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔
شعبہ سماجیات، مانو اور اندرا گاندھی نیشنل سنٹر فار آرٹس (جنپد ڈویژن – وزارتِ ثقافت، حکومت ہند) کے اشتراک سے ”تقسیم کی ہولناکیوں کا یادگار دن“ اور ہندوستان کی آزادی کے 75 سال کی تکمیل پر جاری آزادی کا امرت مہوتسو کے تحت اس سمینار کا انعقاد کیا گیا۔
مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر عین الحسن نے کہا کہ اردو ادب میں تقسیم ہند کی بیشتر عکاسی مختصر کہانیوں اور ناولوں میں کی گئی ہیں۔ ملک کی تقسیم کے حالات شعر و نظم میں بھی بیان کیے گئے۔ تقسیم کا درد، اردو ادب کا اٹوٹ حصہ بن گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان بہت بڑا ملک ہے۔ الگ الگ علاقوں میں الگ الگ طرح کی ثقافت و تہذیب ہے۔
قبل ازیں پروفیسر پی ایچ محمد، صدر شعبہ و کنوینر نے سمینار کا مختصر تعارف پیش کیا اور ڈاکٹر محمد احتشام اختر، شریک کنوینر سیمینار نے مہمانوں کا استقبال کیا۔پروفیسر محمد نسیم الدین فریس، سابق ڈین، اسکول آف السنہ، لسانیات و ہندوستانیات نے کرشن چندر کے حوالے سے تقسیم ہند پر روشنی ڈالی۔
پروفیسر شگفتہ شاہین، صدر‘شعبہ انگریزی نے ”قرة العین حیدر کی تخلیقات میں تقسیم کی عکاسی“ پر مقالہ پیش کیا ۔ سمینار کے دوسرے سیشن میں ڈاکٹر محمد احتشام اختر نے ”تقسیم پر مولانا ابوالکلام آزاد کی رائے: اُردو تحریروں کے حوالے سے“ کے موضوع پر اظہار خیال کیا۔ڈاکٹر کے ایم ضیاءالدین ، اسسٹنٹ پروفیسر سماجیات نے ”سماجی اور ثقافتی علیحدگی کے طور پر تقسیم کے تجربات“ کے موضوع پر گفتگو کی۔
پروفیسر صدیقی محمد محمود، ڈین، اسکول برائے تعلیم و تربیت اور ڈاکٹر دانش معین،صدر، شعبہ تاریخ نے سیشن کی صدارت کی۔اسسٹنٹ پروفیسرز ڈاکٹر سعید میو نے سمینار کی رپورٹ پیش کی اور ڈاکٹر کے ایم ضیاءالدین نے شکریہ ادا کیا۔