مذہب

ناپسندیدہ اور بے مقصد سوالات

خواہ مخواہ ضرورت سے زیادہ اور نظری قسم کے سوالات کو اسلام میں پسند نہیں کیا گیا ہے ، بخاری شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قیل و قال اور کثرت سوال کو ناپسند فرمایا ہے

خواہ مخواہ ضرورت سے زیادہ اور نظری قسم کے سوالات کو اسلام میں پسند نہیں کیا گیا ہے ، بخاری شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قیل و قال اور کثرت سوال کو ناپسند فرمایا ہے ، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ ایسی چیزیں جو پیش نہیں آئیں ، کے بارے میں سوال نہ کیا کرو ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایسے لوگوں کو برابھلا کہتے تھے، امام اوزاعیؒ نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کو علم کی برکت سے محروم رکھنا چاہتا ہے تو اس کی زبان پر لایعنی سوالات (اغالیط) ڈالدیتا ہے ۔(امام ابو اسحاق شاطبی : الموافقات : ۴/۳۱۸ – ۳۱۷)

ابو اسحاق شاطبی نے مختلف روایات کو سامنے رکھ کر بتایا ہے کہ جس نوعیت کے سوال ناپسندیدہ ہیں ، ان میں حسب ذیل دس صورتیں بھی ہیں :

(۱) ایسی چیزوں کے بارے میں سوال کرنا جن کا کوئی فائدہ نہیں ، چنانچہ لوگوں نے آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی حکمت دریافت کی کہ چاند کے باریک اور پھر رفتہ رفتہ موٹے ہونے میں کیا حکمت ہے؟ تو اس بے مقصد سوال کا جواب دینے سے اعراض کیا گیا ، اور قرآن میں کہا گیا کہ وہ لوگوں کے لیے اوقات بتانے کا ذریعہ ہے، اور در حقیقت چاند کے سلسلہ میں یہی مقصدی بات قابلِ ذکر ہے ۔(اکثر مفسرین کی یہی رائے ہے کہ یہاں قرآن نے اصل سوال سے احتراز کر کے ایک با مقصد بات بتادی ہے ، اور اس حقیقت کی طرف بھی ایک لطیف اشارہ کردیا ہے کہ ایسے سوالات نہیں کرنے چاہئیں ، دوسرے گروہ کی رائے ہے کہ یہاں ان کے سوال ہی کا جواب دیا گیا ہے کہ چاند کے موٹے اور باریک ہونے میں یہ حکمت ہے کہ اس کے ذریعہ وقت یعنی تاریخ معلوم ہوتی ہے کہ اگر چاند شروع ہی سے موٹا ہوتا یا آخیر تک باریک رہتا تو تاریخ کا اندازہ نہ سکتا جیسا کہ سورج کی وجہ سے تاریخ کا تعین مشکل ہے)

یا اسی طرح ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کچھ پوچھنا ہو پوچھو ،حضرت عبد اللہ بن حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دریافت کیا: مَنْ أبي ؟ (میرے باپ کون ہیں ؟ ) اس سوال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ پر ناپسندیدگی کے آثار دیکھے گئے ۔

(۲) دوسرے یہ کہ ضروری آگاہی حاصل ہوجانے کے بعد پھر خواہ مخواہ سوال کیا جائے ، جیسا کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس فقرہ پر برہمی ہوئی ، جب ایک شخص نے حج کے بارے میں دریافت کیا : ’’ أکلّ عام ؟‘‘ ( کیا یہ حج ہر سوال واجب ہے )

(۳)فی الوقت جس بات کی ضرورت نہ ہو اس کے بارے میں سوال کرنا ، – چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ ذرونی ماترکتکم ‘‘ میں نے جس معاملہ میں تم کو چھوڑ دیا ہے اور کسی بات کا پابند نہیں بنایا ہے اس میں تم بھی مجھے چھوڑ دو ، اور سوالات نہ کرو ۔ ( یہ حکم نزول وحی کے زمانہ کے لئے تھا ۔)

(۴)پیچیدہ بے مقصد سوالات کرنا ، – حدیث میں آیاہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’اغلوطات‘‘ سے منع فرمایا ہے ، اور ’’ اغلوطات ‘‘ایسے ہی سوالات کو کہتے ہیں ۔

(۵)کسی ایسے حکم کی حکمت دریافت کرنا جس کا تعلق عقل و قیاس سے نہیں ہے ، بلکہ بے سمجھے ایمان لانے ، عمل کرنے اور اس پر یقین کرنے سے ہو ، یا یہ کہ اس قسم کا سوال ایسا آدمی کرے جو ایسی دقیق باتوں کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا ۔

(۶)ضرورت سے زیادہ تکلف اور بے جا غلو پر مبنی سوال ، – چنانچہ مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک قافلہ کے ساتھ ایک پانی کے چشمہ پر پہنچے ، ایک صاحب نے اس کی پاکی اور ناپاکی کی تحقیق کے لیے مقامی باشندہ سے سوال کیا کہ کیا اس پر پرندے اور جانور بھی آتے ہیں ؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سوال کو ناپسند فرمایا اور اس شخص کو جواب دینے سے منع فرمادیا

(۷) اس طرح سوال نہ کیا جائے کہ کتاب و سنت پر اعتراض اور اشکال کی بو آئے ۔ (ہاں ، مزید طمانینت اور زیادت ایمان کے لیے شائستہ لب و لہجہ میں ایسا سوال کیا جاسکتا ہے اورصحابہ رضی اللہ عنہم کی زندگی میں اس کی مثالیں موجود ہیں)

(۸)متشابہات یعنی دقیق اور مخفی امور کی بابت سوال کرنا ، – چنانچہ امام مالکؒ سے کسی نے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ کس طرح عرش پر بیٹھتے ہیں ؟ یعنی اس سے تو اللہ تعالیٰ کے لیے جسم اور مکان لازم آتا ہے ؛ حالاںکہ ذات والاشانہ ، لا مکان اور جسمانی کثافتوں سے بے نیاز ہے ۔

امام مالکؒ نے فرمایاکہ ’’ استواء ‘‘ یعنی عرش پر جلوہ افروز ہونا معلوم ہے ؛ اس لیے کہ قرآن میں اس کا ذکر ہے ، اس کی کیفیت نا معلوم ہے اور اس کے بارے میں سوال کرنا ’’ بدعت ‘‘ ہے ۔ (اسی طرح تقدیر و غیرہ کے مسائل کا بھی حکم ہے )

(۹)سلف صالحین اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے مشاجرات اور اختلافات کے متعلق سوال و بحث ، چنانچہ حضرت عمر بن عبد العزیز سے کسی نے جنگ صفین کے بارے میں سوال کیا جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان ہوئی تھی ، تو فرمایا : یہ ایسے خون تھے جن سے اللہ تعالیٰ نے ہمارے ہاتھ کو روکا اور بچایا ، لہذا مجھے پسند نہیں کہ اب اپنی زبان کو اس سے آلودہ کروں ۔

(۱۰)وہ سوال جس سے اپنی برتری ظاہر کرنا ، اور علمی غلبہ حاصل کرنا مقصود ہو ۔ (الموافقات : ۴/۲۱ – ۲۰ – ۳۱۹) اس لیے ضرورت سے زیادہ اور بے مقصد سوالات سے احتراز کرنا چاہئے ۔

a3w
a3w