
چاند پر چینی خلائی مشن اور خلاءبازوں کی مسلسل آمد نے امریکہ کو اس قدر پریشان کردیا ہے کہ یو ایس اسپیس ایجنسی (ناسا) نے چین کے خلاف واویلا شروع کردیا ہے۔ امریکی اسپیس ایجنسی کے سربراہ بل نیلسن نے ایک انٹرویو میں چاند پر چینی قبضہ کی دہائی دی ہے اور الزام عائد کیا ہے کہ چین چاند پر قبضہ کے بعد اس کو خلائی تحقیق کی بجائے عسکری مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔
جرمن نیوز پورٹل ”ڈائے بلڈ“ سے ایک انٹرویو میں ناسا ایڈمنسٹریٹر بل نیلسن کا دعویٰ تھا کہ ہمیں بے حد فکر مند ہونا چاہیے کہ چین چاند پر اتررہا ہے اور کہہ رہا ہے ”اب یہ ہمارا ہے۔ تم اس سے دور رہو۔“ ایک سوال کے جواب میں بل نیلسن نے کہا کہ چین فوجی پروگرام کے ایک حصہ کے بطور چاند پر قبضہ کرسکتا ہے۔ امریکہ خلائی ادارے نے کسی ثبوت کے بغیر چین پر یہ بھی الزام عائد کیا کہ چین کا خلائی پروگرام اصل میں ”عسکری مشن“ ہے‘ جس کے لیے چین نے دوسرے ممالک سے آئیڈیاز اور ٹیکنالوجی چرائی ہے۔ ناسا سربراہ بل نیلسن نے تسلیم کیا کہ ہم چاند پر چین کے خلائی مشنر سے پریشان ہیں کیوں کہ ہمیں یقین ہے کہ بیجنگ چاند پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرنے کا اردہ رکھتا ہے۔ نیلسن نے کہاکہ چاند پر قبضہ کے بعد بیجنگ دوسرے ممالک کے سیٹلائٹس کی فزیبلٹی کی چھان بین کے لیے استعمال کرے گا۔
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ناساسربراہ مسٹر نیلسن نے انٹرویو کی ابتداءمیں چینی ایرواسپیس کامیابیوں کی تعریف کی‘ لیکن پھر دعویٰ کردیا کہ بیجنگ نے کچھ ممالک سے ان کی ایرواسپیس کامیابیوں کو چرایا ہے۔ ناسا کے الزامات مسترد کرنے والے چینی وزارت خارجہ ترجمان ژاو¿لی جیان نے واضح کیا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ امریکی خلائی ادارے کے سربراہ نے حقائق کو نظر انداز کیا ہو اور چین کے حوالے سے غیر ذمہ دارانہ بات کی ہو۔ چینی ترجمان ژاو¿لی کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ چین کی خلاءمیں معمول کی مناسب تحقیقی کاوشوں کے خلاف مسلسل منفی مہم چلارہا ہے اور اس طرح کے تبصروں کی چین سختی سے مخالفت کرتا ہے۔
یاد رہے کہ سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دور میں چاند پر امریکی قبضہ اور اس کو عسکری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی باقاعدہ پلاننگ کی گئی ہے۔ بلکہ امریکی افواج کی پانچویں ”اسپیس کمانڈ“ بھی کھڑی کردی گئی ہے۔ نیویارک پوسٹ کی رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایگزیکٹیو آرڈر کے تحت امریکی حکومتی اداروں اور کمپنیوں کو کرہ ارض میں کسی بھی مقام پر وسائل کی تلاش اور انہیں استعمال کا حق حاصل ہے۔
یاد رہے کہ چاند پر قبضہ کی اس امریکی جنگ کے حوالہ سے سینئر سائنسدانوں اور محققین سمیت تجزیہ نگاروں نے انکشاف کیا ہے کہ چاند کی سرزمین پر سونے‘ پلاٹینم‘ چاندی اور دیگر قیمتی دھاتوں اور معدنیات کے اس قدر وسیع ذخائر موجود ہیں کہ ان کی دولت کا تخمینہ کھرب ہا ڈالرز ہے اور اب ساری جنگ چاند کے وسائل سے استفادے کی ہے جس کے لیے امریکی خلائی ادارہ ناسا بھرپور کوششیں کررہا ہے۔ سابق صدر ٹرمپ نے اس ضمن میں امریکی مسلح افواج کی اسپیس فورس کے قیام کا اعلان کیاتھا۔
تاحال خلاءمیں چین‘ فرانس اور یوروپی یونین‘ روس یا برطانیہ کا کوئی عسکری مشن کام نہیں کررہا ہے اور نہ ہی ان ممالک کی اسپیس کمانڈ موجود ہے۔ واحد ملک امریکہ ہے ‘ جس کی نہ صرف خلائی فوج کی کمانڈ کام کررہی ہے بلکہ اسپیس فورس بھی موجود ہے۔ چینی ماہرین کا استدلال ہے کہ ناسا سربراہ بل نیلسن کا چین کے خلاف چاند پر قبضے کا الزام اس بات کا اظہار ہے کہ امریکہ چاند کے وسائل پر خود قابض ہونا چاہتا ہے لیکن اس کا الٹا الزام چین پر لگا کردنیا کی توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔ چینی خلائی ماہرین کا کہنا تھا کہ چینی خلائی تحقیقی پروگرام پر امن ہے اور خلائی تحقیق سے منسلک ہے۔
”یونیورسٹی آف سسیکس“ کے پروفیسر و محقق پروفیسر بنجامن کا کہنا ہے کہ خلاءمیں معدنیات کی تلاش امریکہ کے لیے بہت ضروری ہے‘ امریکہ کو درکار دھاتوں کی تلاش ہے‘ مستقبل میں امریکہ کی قیمتی دھاتوں کی رسائی پر چین پابندیاں عائد کرسکتا ہے‘ ایسے میں خلاءیا چاند کی سرزمین پر دھاتوں کی تلاش امریکہ کے لیے اہمیت کی حامل ہے‘ لیکن سچ یہی ہے کہ امریکہ خلائی تحقیق میں روس اور چین سے پیچھے رہ گیا ہے۔
عالمی میڈیا سے موصولہ اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ کئی امریکی کمپنیاں چاند کی سطح پر معدنیات اور وسائل کی کھوج میں مشغول دکھائی دیتی ہےں۔ ”گلوبل ٹائمز“ کی رپورٹ کے مطابق پچھلے ہی ماہ چینی ماہرین نے چاند کے اس حصے پر اپنا خلائی مشن اتارا جو ہمیں زمین سے دکھائی نہیں دیتا اور وہاں کپاس کے پودے اگانے میں بھی کامیاب ہوگئے۔ چینی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ جلد چین وہاں ایک تحقیقی مرکز بھی قائم کرے گا۔
یاد رہے کہ 1979 ءمیں اقوام متحدہ کے تحت گیارہ عالمی ممالک نے ”میثاق قمر“ کے نام سے ایک عالمی معاہدہ کیا تھا‘ جس کے تحت طئے کیاگیا کہ چاند کے وسائل انسانی نسل کا مشترکہ اثاثہ ہیں اور اس پر کسی ایک ملک کی اجارہ داری نہیں ہونی چاہیے۔