سیاستمضامین

انتخابات کی قربت نے بھانا متی کے کنبہ کو آزاد کردیادل بدلی کا کھیل شروع

سید علی حیدر رضوی
ایم اے ( عثمانیہ)۔ایم اے ایم سی جے ( مانو)

یوں تو جمہوری ممالک میں معینہ مدت کے اختتام کے بعد نئی حکومت کے انتحابات کیلئے عوامی رائے کے حصول کے لئے انتخابات کا انعقاد کیا جانا لازمی اور شرطیہ عمل ہے۔ اس کے بغیر جمہوریت بے معنی ہے۔ جمہوریت کی تشکیل میں جمہور کی آراء شامل نہ ہو وہ حکومت کچھ بھی ہوسکتی ہے لیکن جمہوری حکومت نہیں مانی جائے گی۔ اگرچیکہ ایسی حکومت جو عوام کی جانب سے ہو ‘ عوام کیلئے ہو اور سب کی طرف سے سب کیلئے ہو عرصہ دراز سے دبی کچلی اور مسلسل استحصال کا شکار عوام کی خواہش کی ہوتو وہ ہماری خواہشات اور آرزوؤں کو پورا کرے گی۔ لیکن افسوس صد افسوس عوام کا یہ دیرینہ خواب آج تک پورا نہ ہوسکا کیوں کہ قائم ہونے والی ان جمہوری حکومتوں نے بھی وہی روش اختیار کررکھی جو سابق میں شاہی مطلق العنان حکومتوں نے صدیوں سے اختیار کررکھی تھی۔ چنانچہ جمہوری حکومتیں جو قربانیوں اور جدوجہد کے بعد تشکیل پانے لگی تھیں وہ بھی ناپرسان حال عوام کے لئے صدائے لا علاج بن گئیں لیکن مجبور عوام اب بھی اپنے نمائندے منتخب کئے جارہے ہیں۔ حالانکہ جانتے ہیں کہ ان کے حق میں کچھ بھی ہونے والا نہیں ہے۔حکومتیں با قاعدہ ہر معینہ مدت کے بعد بنتی اور بگڑتی رہیں گی آتی اور جاتی رہیں گی۔ لیکن ان کے مسائل جوں کے توں رہیں گے بلکہ مصیبتیں مزید بڑھ جائیں گی ۔ہر سیاسی پارٹی برسراقتدار آنے کے لئے عوام کو ورغلانے ‘ بہکانے اور راغب کرنے کیلئے سیکڑوں وعدے کرے گی خوش کن سبز باغ دکھائیں گی لیکن برسراقتدار آنے کے بعد سب فراموش کرکے لوٹ کھسوٹ میں لگ جاتی ہیں اور اقتدار کے مزے لوٹنے میں مشغول ہوجاتی ہیں۔ جمہوریت کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے۔
ہندوستانی عوام کا تو جمہویرت پر ایقان2014ء سے بالکل اٹھ گیا ہے۔ 2014ء میں مودی جی نے یہ نعرہ لگا کر عوام کو گمراہ کیا تھا کہ سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس جس میں بعد میں اپنی ناکام حکومت کے عیبوب کی پردہ پوشی کی خاطب بڑی چالاکی سے ایک اور لفظ ’’سب کا پریاس‘‘ جوڑ دیا تاکہ عوام نے پریاس نہیں کیا۔ عوام کو بھی ملک کی ترقی اور خوش حالی کے لئے ’’ پریاس‘‘ کرنا چاہیے تھا۔ حکومت تنہا تو سب کچھ نہیں کرسکتی۔ حالانک مودی حکومت عوام مخالف رہی ہے۔ ایسی صورت میں عوام کیا خود ان کے خلاف ’’ پریاس‘‘ کرنے تعاون کرتے۔ اگرچیکہ مودی بھکتوں اور گودی میڈیا نے مودی کا بھرم قائم رکنے میں بہت ’’ پریاس‘‘ کیا اور ہر ناکامی کو کامیابی اور ہر غیر قانونی کارروائی کو جائز اور واجبی بتلاتے رہے۔ ویسے بھی مودی حکومت جمہوری حکومت کہاں ہے۔ یہ تو غیر آئینی اور غیر اصولی حکومت ہے۔ مطلق العنانی کی منہ بولتی تصویر ہے۔ مودی حکومت تو چند لوگوں (مودیوں) گجراتیوں کی ‘ اشرافیہ کی حکومت ہے جو گجراتیوں اور مودیوں کیلئے مختص ہے۔ لیکن اس کے باوجود سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا پریاس کا نعرہ دے کر عوام میں ایک بھرم باندھ دیا گیا ہے لیکن بھرم آخر بھرم ہی ہوتا ہے اور وہ تادیر قائم نہیں رہ سکتا۔ ایک نہ ایک دن یہ بھرم کھل ہی جاتا ہے چنانچہ اس کی شروعات کرناٹک سے ہوچکی ہے ۔ قوی امکان ہے کہ 2024ء کے انتخابات کے بعد مودی حکومت کی گھر واپسی ہوجائے گی۔ عوام میں حکومت مخالف جذبات پیدا ہوگئے ہیں اور ان میں دن بہ دن شدت بڑھ رہی ہے۔
شاہی و تانا شاہی اور مطلق العنان حکومتوں کو عوام نے ان کے مظالم سے تنگ آکر زوال پذیر کردیا تھا۔ ان حکومتوں کو بے دخل کرنے کے بعد عوام میں جمہوری اور عوامی حکومتیں قائم کرنے کا نظریہ پنپا۔ جلد ہی جمہوری حکومتوں کو مقبولیت حاصل ہونے لگی لیکن جلد ہی ان حکومتوں نے بھی عوام کو مایوس کرنا شروع کردیا۔ کیوں کہ طرز حکومت تو بدل گیا لیکن روش حکمرانی نہیں بدلی۔ منتخب ہونے والے عوامی نمائندوں نے بھی اقتدار پر آنے کے بعد وہی چونچلے شروع کردیئے جن کے لئے سابق حکمران ‘ شاہ قادرالمطلق جانے جاتے تھے۔ اب ساری دنیا میں تقریباً تمام ممالک میں جمہوری حکومتیں قائم ہیں اب جہاں کہی ںبھی شاہی اور تانا شاہی طرز کی حکومتیں قائم ہیں ان کی حیثیت فقط نمائشی ہوکر رہ گئی ہے کیوں کہ وہاں شاہوں کے اختیارات سلب کرکے انہیں بے بال و پر کردیا گیا ہے۔ بادشاہوں کو علامتی پتلے بناکر رکھ دیا گیا ہے۔ وہ اب ان ملکوں کے آثارِ قدیمہ بن کر رہ گئے ہیں۔ وہ اب ایوان حکومت یا عظمتِ رفتہ کے نشان یا آرائشی شئے بن کر رہ گئے ہیں۔ اسپین‘ برطانیہ‘ سوئٹزر لین‘ جاپان وغیرہ میں شاہ اور ملکائیں اسی حیثیت کی حامل ہیں۔ البتہ خلیجی ممالک میں جن میں زیادہ تر مسلم ریاستیں ہیں جن میں سعودی عرب‘ بحرین‘ قطر‘ اومان اور عرب امارات وغیرہ میں شاہوں کو اب بھی مطلق اختیارات حاصل ہیں۔ وہاں ان کی خواہش اور مرضی ہی قانون ہے ۔ حرف آخر ہے۔ ان ملکوں میں دستور و قانون اور انتظامی مشنری سب ذیلی چیزیں ہیں۔ ان کی اہمیت بے معنی ہے۔ ان ملکوں میں اب بھی حکومت کے خلاف آواز اٹھانا ناقابل معافی جرم ہے جس کی سزاء صرف موت ہے۔ ہندوستان کو بھی مودی حکومت نے اسی طرز کی حکمرانی میں تبدیل کردیا ہے۔ لہٰذا ہر سیاسی جماعت اس طرز حکمرانی کے خلاف ہوکر متحدہ طور رپ کوششیں کرنے محاذ بنانے کا مصمم ارادہ کرلیا ہے لیکن ابھی تک اس زیر تشکیل محاذ کی صورت گری اور ہیت کیا ہوگی واضح نہیں ہوا ہے۔ پورے برصغیر میں خاص کر پاکستان‘ بنگلہ دیش اور ہندوستان میں سیاسی پارٹیوں کا کسی نکتہ پر جمع ہونا اور متحدہ طور پر ایک لائحہ عمل طے کرنا اور متفقہ مطمع نظر پر ٹک جانا ممکن ہی نہیںہے۔ ہر پارٹی اپنی اپنی سوچ رکھتی ہے او راپنے اپنے نجی مفادات کو ترجیح دیتی ہے۔ ان اہم ترجیحات میں اولیت ا قتدار میں بڑے حصے کی مانگ ہے۔ ہر پارٹی چاہتی ہے کہ اقتدار میں اسے بڑا حصہ ملے۔ یہی سوچ اور اقتدار کی لالچ پنڈورہ باکس کھول دیتی ہے۔ پھر ہر پارٹی خاص کر علاقائی پارٹیاں ذات پات ‘ مذہب اور زبان وغیرہ کے نام پر منقسم ہیں۔ انہیں متحد کرنا یا جوڑنا اس مثل کے مصداق ہے کہ ’’ بھان متی نے کنبہ جوڑُا کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا‘ بالفرض محال اگرانہیں جوڑ بھی لیا جاتا ہے تب بھی یہ ڈر اور خدشہ لگا رہتا ہے کہ کب یہ پارٹیاں کسی نہ کسی بات کو حیلہ بناکر بکھر جائیں۔ منتشر ہوجائیں‘ بھان متی کا تماشا شروع ہوجاتا ہے۔
ماضی میں بھی ایسا تجربہ کرکے دیکھ چکے ہیں۔ اب پھر تمام سیاسی جماعتیں مودی حکومت ‘ اور ان کے ساتھ ہونے والے معاندانہ سلوک سے برہم اور عاجز ہیں۔ مودی حکومت کو بے دخل کرنے کا مصمم ارادہ رکھتی ہیں لیکن اس پر ملک و قوم کے مفاد کی خاطر اور دستور اور جمہوریت کو بچانے کے مقدس فریضہ کی خاطر دل و جان سے متحد ہونے تیار نہیں ہیں۔ سب پارٹیاں اپنے مفادات کو فوقیت دے رہی ہیں۔ لہٰذا ان حالات کو دیکھتے ہوئے کوئی کامیاب اور طاقتور محاذ قائم کرنے میں کامیاب ہوپائیں گی ۔ اگر مجبوراً راضی بھی ہوتی ہیں اور کوئی معاہدہ کر بھی لیتی ہیں تب بھی یہ ڈر لگا رہے گا کہ یہ تادیر قائم رہ پائے گا ؟ قوی ا مکان ہے کہ معاہدہ ممکن الانفساخ ہوگا۔ کیوں کہ معاہدہ مفادات پر مبنی ہوگا لہٰذا موقتی ہوگا۔ جلد یا دیر سے ٹوٹ جائے گا۔
کانگریس ایک مفاد پرست اور اقتدار پرست پارٹی ہے جو تمام لحاظوں کی پرواہ کئے بغیر اقتدار کی ح اطر ہر لحاظ اٹھادے گی اورپہھر ایک دو جماتعوں کو ان میں منتخب کرکے اپنے ساتھ ملا کر حکومت بنائے گی یا اپنے ا قتدار پر پہنچنے کی راہ ہماور پاکر حکومت کو گرادے گی اور نئے انتخابات منعقد کرنے کے جواز کو پیدا کردے گی جیسا کہ سابق میں دیکھا جاچکا ہے۔
جنتا پارٹی کی مرارجی دیسائی حکومت کو گرانے چرن سنگھ کو اپنے ساتھ ملایا اور چرن سنگھ کو چند دنوں کا سلطان بناکر انہیں وزیراعظم بنایا پھر تائید واپس لے کر چرن سنگھ کی حکومت کو گرادیا اور تازہ الیکشن کی کرواکر واپس اقتدار پر آگئی۔ اس طرح آئی کے گجرال ‘ چندرشیکھر اور دیوے گوڑا کے ساتھ کیا گیا۔ چنانچہ ان حادثات کے بعد سے کانگریس سے عوام متنفر ہوگئی۔ وہ کانگریس کو بے بھروسہ اور دھوکا باز تسلیم کرنے لگیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب پارٹیوں کے اتحاد و اتفاق کی بات ہوئی تو ان پارٹیوں نے نعرہ دیا کہ بی جے پی کانگریس مکت بھارت۔
اب پھر ایک بار ملک میں ایسے حالات پیدا ہوگئے ہیں کہ بی جے پی حکومت کو اقتدار سے بے دخل کرنا لازمی ہے ورنہ ملک میں ڈکٹیٹر شپ آجائے گی چنانچہ تمام پارٹیاں متحد ہوکر انتخابات لڑنے کی حکمت عملی بناچکی تھیں لیکن وہ اس اتحاد میں کانگریس کو شامل کرنے سے گریز کررہی تھیں لیکن راہول کی پدیاترا اور اس کے نتیجہ میں کرناٹک میں حاصل ہوئے کانگریس کی جیت سے سیاسی فکر میں بھی تبدیلی لائی ہے۔ اب دیگر پارٹیاں خاص کر نتیش کمار کانگریس کے حق میں آگئے۔ وہ سب کو کانگریس کے ساتھ مل کر الیکشن لڑنے پر راضی کرچکے ہیں لیکن اب بھی بعض پارٹیاں تحفظ ذہنی کا شکار ہیں۔ وہ اب کانگریس پر بھروسہ کرنے تیار نہیںہیں۔ چنانچہ کیجری وال نے خود کو الگ کرلیا ہے۔ کے سی آر نے بھی تمام پارٹیوں بجز کانگریس متحدہ محاذ بنانے راضی ہوچکے تھے لیکن جیسے کانگریس کی شمولیت کا معاملہ سامنے آیا انہوں نے بھی خود کو اس سے الگ کرلیا۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰