سیاستمضامین

بنگلہ دیش میں EVMپر پابندیجمہوریت اور دستور کا تحفظ EVM پر پابندی کے بغیر ناممکن

محمد انیس الدین

الکٹرانک ووٹنگ مشین جمہوریت کو کمزور کرنے کا ایک فسطائی ہتھیار ہے ‘ اسی لئے بیشتر ممالک جہاں جمہوریت جاری ہے اس کے استعمال پر پابندی ہے اور بعض میں ممالک میں قانون سازی بھی ہوئی ہے ۔
پڑوسی ملک بنگلہ دیش نے EVM پر پابندی عائد کردی ہے اور اعلان کیا ہے کہ انتخابات بیلٹ پیپر پر ہوں گے۔ حسینہ واجد نے اپنے ملک میں اہم ترین فیصلہ عوامی رائے کے حق میں دیا۔ جن حکمرانوں اور جماعتوں کو عوام کی تائید حاصل ہے اور ان کو یقین کامل رہتا ہے کہ وہ انتخابات میں ضرور کامیاب ہوں گے ایسی جماعتیںاور حکومتیں EVM کا سہارا نہیں لیتیں۔
بھارت میں اس تعلق سے ابھی شعور بیدار نہیں ہوا ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ حزب اختلاف کا عدم اتفاق اور ای وی ایم سے متعلق معلومات کی کمی اور میڈیا کی اس اہم ترین مسئلہ سے چشم پوشی ہے۔ اس تعلق سے جو کچھ بھی اختلافی آوازیں ابھررہی ہیں وہ صرف سوشیل میڈیا پر ہیں‘ لیکن حیدرآباد کی ا ردو صحافت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے اس سنگین مسئلہ پر عوام کو بیدار کرنے کا ایک عرصہ سے سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور بے شمار مضامین مختلف روزناموں میں شائع ہوئے ہیں۔ جب اس بات کا علم بعض دلت قائدین کو ہوا تو وہ اس سے خبر سے نہ صرف حیران ہوئے بلکہ راقم سے فون پر رابطہ کیا اور بعض مضامین کی نقل حاصل کی اور بعض نے تو ان مضامین کو کتابی شکل دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔
2010ء میں جبکہ کانگریس کی حکومت تھی اس وقت کے حزب اختلاف نے EVM کے استعمال کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے عدالت عظمیٰ تک چلے گئے اور اس مشین کے استعمال کی مخالفت کرتے ہوئے ایک تفصیلی کتاب کی اشاعت عمل میں لائی گئی جس کا نام Democracy at Risk ہے جو 246صفحات پر مشتمل ہے اس کے مصنف جی۔وی۔ ال۔ نرسمہا ہیں۔ یہ کتاب انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہے۔ عوام ضرور اس کا مطالعہ کریں۔ اس کتاب کے مطالعہ سے یہ حقیقت عیاں ہوئی کہ EVMکا استعمال بھارت کی جمہوریت کے لئے عظیم خطرہ ہے لیکن جیسے ہی بھارت میں بی جے پی کا راج شروع ہوا اس مشین سے جمہوریت کو جو خطرات لاحق تھے وہ یکسر ختم ہوگئے اور بی جے پی نے اس کو فروغ فسطائیت کیلئے اپنے گلے سے لگالیا اور یہ مشین فرقہ پرستوں کے گلے میں اٹک گئی اور تمام حزب اختلاف اس ہڈی کو نکالنے میں لاچار اور مجبور ہوگئے۔ اس کا بھر پور فائدہ بی جے پی نے ڈنکے کی چوٹ پر اٹھایا اور اٹھارہی ہے اور آنے والے عام ا نتخابات میں بھی EVMکی ہڈی فسطائی طاقتوں کے گلے میں اٹکی رہے گی اور وہ اس کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے دستور اور جمہوریت کو برہنہ تلوار سے خوفزدہ کرتے ہوئے اور ملک کے مسلم اور بہوجن سماج پر مظالم کے پہاڑ توڑتے ہوئے تیسری میعاد حکمرانی میں داخلہ کی راہ ہموار کرے گی۔
یہ بات تو واضح ہے کہ EVM سے شفاف رائے دہی ناممکن ہے اس تعلق سے 2013ء میں عدالت عظمیٰ کا ایک فیصلہ آچکا ہے اس فیصلہ کے بعد EVM سے عدم شفافیت کی بحث میں جانے سے اہم ترین بات عدالت عظمی کا فیصلہ ہے۔ آپ عدلیہ کے فیصلہ کا احترام کرتے ہوئے EVM کے استعمال پر پابندی کا مطالبہ کریں تاکہ ملک میں دستور اور جمہوریت کو فسطائی شکنجہ سے بچایا جاسکے اور عوام کو جمہوری فضاء میں سانس لینے کا موقع ملے۔
دستور صرف رسم حلف برداری تک رہ گیا ‘ سرحدیں غیر محفوظ ‘ ملک میں لاقانونیت اور جمہوریت عملاً ختم ہوچکی ہے‘ بے روزگاری ‘ مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے لیکن ان تمام باتوں کا نہ تو عوام پر اثر ہے اور نہ عوام میں حقوق کے تحفظ کیلئے بیداری آرہی ہے اور نہ جمہوریت اور دستور کے بقاء کی کوئی تدبیر دکھائی دے رہی ہے۔ حزب اختلاف لاچار اور عوام بے ہوش اور ادارے فسطائیت کی قدم بوسی میں مصروف ہیں۔ آخر تحفظ دستور کیلئے کون آگے آئے گا ۔
دیگر ممالک میں جہاں کہیں بھی دستور پر آنچ آئی یا نظام عدل کی حفاظت کیلئے تیار ہوکر میدان عمل میں آکر حقیقی حب الوطنی کا عملی ثبوت دے رہے ہیں لیکن ملک میں 37 فیصد عوام کو ہندو راشٹر کے خواب دکھا کر حب الوطنی سے دور کردیا گیا اور 63 فیصد عوام زعفرانی خوف کے سائے میں زندگی گزاررہے ہیں۔
دیگر ممالک عوام کی فلاح و بہبود کیلئے مختلف اسکیمات پر عمل کرتے ہوئے ترقی کی منازل طے کررہے ہیں اور ترقی پذیر ممالک کو بھی اپنی ترقی سے مستفید کرنے کیلئے کوشاں ہیں لیکن انتہائی بدبختی اور بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارا ملک پچھلے سالوں سے نفرت کو ملک کی ترقی کی بنیاد سمجھ کر اور عوام کو گمراہ کرتے ہوئے ملک کو تنزلی کی ایک ایسی کھائی کی جانب لے جارہے ہیں جس کے بعد بھارت کو اس نفرت کے غار سے باہر لانے کا کوئی راستہ باقی نہیں رہے گا۔ ملک تباہ و برباد ہوجائے گا اور اس بربادی کے بعد کف افسوس ملنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ملک کی اس تباہی کی ذمہ داری 63فیصد عوام پر ہوگی جو گزشتہ کئی سالوں سے ملک کی بربادی کے ذمہ دار ہوں گے۔
EVM کے تعلق سے مختلف تنظیمیں ملک میں حرکت میں ہیں لیکن ان میں بھی اس اہم ترین موضوع پر اتفاق رائے کا فقدان ہے‘ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم کسی ایک معاملہ میں بھی مضبوط اتحاد سے قاصر ہیں۔
آپ چاہتے ہیں کہ بھار ت ترقی کرے اور فسطائیت سے محفوظ رہے تو ملک میں ایک مضبوط اتحاد صرف تحفظ دستور کے مقصد سے ہو اور آنے والے عام انتخابات صرف اور صرف بیلٹ پیپر پر ہوں ۔
زندہ قومیں اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھاتی ہیں اور جو قومیں آواز اٹھانے سے محروم ہیں وہ غلامی کے زیر اثر آجاتی ہیں۔
37فیصد رائے دہندے بذریعہ EVM نفرت پر متحد ہوگئے اور 63فیصد صدائے حق سے بھی گریز کررہے ہیں۔ یہ کیفیت دانشوارن ملک کے لئے غور طلب ہے ۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ملک دوبارہ ہٹلر کی غلامی میں چلاجائے اور عوام سے ا ن کا دستور چھین لیا جائے اور بنیادی حقوق سے محروم ہوجائیں۔ یہ مٹھی بھر تنگ نظر اور فرقہ پرست سارے ملک کے ماحول کو مکدر کررہے ہیں اور جنہیں اس کے انجام کی بھی فکر نہیں ہے۔ ان کو صرف نفرت کا درس دیا گیا ہے اس لئے ان کی زبان سے مسلسل نفرت کا اظہار ہورہا ہے۔
2019ء کے انتخابات جو بذریعہEVM ہوئے صرف 37 فیصد عوام نے بی جے پی کے حق میں ووٹ دیا اور 63فیصد عوام مخالف بی جے پی تھی ۔ آخر 63فیصد عوام تحفظ دستور اور جمہوریت کیلئے متحد ہونے میں ناکام کیوں ہے؟ آخر حزب اختلاف کو متحد ہونے میں کیا دشواری ہے؟ آخر63فیصد اکثریت فسطائیت پر غالب کیوں نہیں ہورہی ہے؟ ملک میں مختلف جماعتیں ہیں جو ایک جمہوری نظام کو بہتر طریقہ سے چلانے کیلئے نہ صرف ضروری بلکہ لازمی ہیں۔ ہر جماعت کا ایک نظریہ ہے اور وہ اس نظریہ کی غلام ہے۔ جب تک تمام جماعتیں دستور کی غلام نہیں ہوجاتی اور ایک مضبوط اتحاد کا ثبوت نہیں دیتیں‘ اس وقت تک بھارت میں تحفظ دستور اور جمہوریت ایک دشوار مرحلہ ہے۔ حزب اختلاف اور عوام اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ملک ایک بدترین اور ہلاکت خیز نظریہ اور فلسفہ کو اپنارہا ہے جو ہمارے آباء و اجداد اور شہدائے آزادی اور اس وقت کے دانشوروں کے نظریہ کے نہ صرف برعکس ہے بلکہ ایک ناکام اور بربادی کا بیرونی نظریہ ہے۔ اور ملک کے 37فیصد عوام اس فلسفہ کے نہ صرف حامی ہوگئے بلکہ جمہوریت کی پامالی کے اس ماڈل کو گجرات ماڈل کا نام دے کر ملک میں ایک بدنام زمانہ ظالم ‘ جابر ‘ آمر اور فسطائیت کے نظریہ کو بھارت کی جمہوریت کو تباہ و برباد کرنے کیلئے استعمال کررہے ہیں ۔اگر یہ 35فیصد ‘ فاشسٹ ذہینیت EVM اور عوام سے لوٹی ہوئی دولت اور گودی صحافت کی اندھی تائید سے غالب ہوکر تیسری میعاد میں داخل ہوتی ہے تو اس کی تمام تر ذمہ داری ملک کے 63فیصد عوام اور ملک کے حزب اختلاف پر ہوگی۔
ملک بہت ہی تیزی سے آمریت اور فسطائیت کی جانب جارہا ہے جس کی تمام علامات کا ظہور ہوچکا ہے۔ عوام اس بات پر سنجیدگے سے غور کریں کہ سونیاگاندھی کے غیر ملکی ہونے پر زعفرانی ٹولہ شدید نکتہ چینی اور بے جا تنقید کا نشانہ بناتا ہے جبکہ وہ بھارت کی شہری بن چکی ہیں لیکن بھارت کے 35فیصد رائے دہندے EVM ایک پرشدد اور جمہوریت دشمن بیرونی فلسفہ کو اپنی سیاسی بقاء کیلئے بھارت کے عدم تشدد کے نظریہ اور بابائے قوم کو نظر انداز کرکے فسطائی نظریات کو اپنا مقصد حیات بناکر ملک کو ایک شدید بحران کا شکار کرچکے ہیں۔
دستور میں کہیں بھی اکثریت اور اقلیت کی صراحت نہیں ہے۔ بہوجن سماج کے بعض قائدین کے مطابق ہندو دھرم کا وجود ہی نہیں ہے۔ اگر وجود ہوتا تو تقسیم ہند کے ساتھ ہی ہندوراشٹر کا اعلان ہوجاتا ۔ ایسا کیوں نہیں ہوا یہ بات تحقیق طلب ہے۔ اگر ہندوراشٹر کا اعلان ہوجاتا تو بھارت افراتفری کا شکار ہوجاتا کیوں کہ ملک میں ہزاروںفرقے اور ذات پات تھے ‘ اس لئے قائدین نے سیکولرازم کا نقاب پہن لیا اور اب 75سال بعد سیکولرازم کو RSSاور بی جے پی نے بے نقاب کیا تواس کے پیچھے سے نئے بابائے قوم کا ظہور ہوا اور ملک میں نفرت اور حقارت کا ڈھول پیٹ کر زعفرانی ٹولہ بہ بانگ دہل یہ اعلان کررہا ہے کہ تقسیم کے بعد بھارت خود بہ خود ہندوراشٹر بن گیا۔
زعفرانی ٹولہ کے عزائم ٹھیک نہیں ہیں اور یہ ایک فسطائی نظریہ پر منصوبہ بند طریقے سے عمل کرتے ہوئے اور ملک کی سب سے بڑی ا قلیت کو اپنی نفرت کا شکار بناکر اپنے دیرینہ خواب ہندوراشٹر کو پورا کرنے میں ملک کے دستور ‘ جمہوریت اور ملک کی سرحدوں کو تک داؤ پر لگادیا ہے ۔ جو گروہ اپنے باپ کو باپ کہنے سے انکار کردے اور اپنی تاریخ کو مسخ کردے اور اپنے مقامات کے ناموں کو صرف اپنی انا کیلئے تبدیل کردے اور اپنی ہی عوام کی نسل کشی کا ارادہ کرے کیا ایسا گروہ ایک بڑے جمہوری ملک پر حکمرانی کے لائق ہے؟ یہ طاغوتی طاقتیں نہ صرف اپنا نقصان کررہی ہیں بلکہ سارے ملک کو بربادی کے دہانے پر پہنچادیا ہے۔ اس گروہ کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوچکی ہے ‘ ان کو خوابوں میں بھی مغلیہ در دکھائی دیتا ہے ‘ کبھی اورنگ زیب خواب میں آتے ہیں تو کبھی ٹیپو سلطان آتے ہیں۔ صدیاں گزرنے کے بعد ان افراد کو یہ دور یاد آیا اور ان کی نیند حرام ہوگئی۔ اس فرقہ پرست ٹولہ کو صدیوں بعد ظلم کا احساس ہوا اور ان کو یہ بھی معلوم نہیں رہا کہ حقیقت میں پر ہونے والے ظلم ان ہی کے پیشوا جو برہمن کے نام سے جانے جاتے ہیں‘ اپنی مذہبی برتری قائم رکھنے کے لئے کیا۔ مغلیہ دور کے حکمران کبھی بھی اپنا رعایا پر ظلم نہیں کئے ان کے ہر دور میں عوامی فلاح کے کارنامے ہوئے جن کی مثال بھارت کی زمین کا چپہ چپہ دے رہا ہے۔
ملک نفرت کے سنگین دور میں داخل ہوچکا ہے اور حالات مزید خراب ہونے کا احتمال ہے ۔ حقیقی محب وطن اور مسلم و بہوجن سماج ان سنگین حالات کو سمجھے اور اپنی صفوں میں مضبوط اتحاد قائم کرے اور آنے والے حالات سے کس طرح خود کو اور ملک کے دستور اور جمہوریت کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے اس کی منصوبہ بندی اور حکمت عملی پر غور و خوص کرے تاکہ ملک میں جمہوریت باقی رہے۔
پوری قوت کے اور مضبوط اتحاد کے ذریعہ فسطائی طاقتوں کو تیسری میعاد میں داخل ہونے سے روکا جائے اور بیلٹ پیپر پر انتخابات کا مطالبہ ہو ۔ 2024ء کے عام انتخابات جمہوریت اور فسطائیت کے درمیان فیصلہ کن ہوں گے‘ اس کے بعد میں یا فسطائیت رہے گی یا جمہوریت ۔ اس کا فیصلہ بیلٹ پیپرپر ہوگا کہ عوام جمہوریت چاہتی ہے یا ہٹلر کی غلامی۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

a3w
a3w