رحمتی بیگم
شکیل شاغل
بیٹیاں کائنات کے لیے رحمت ہیں۔ وہ زندگی کے ہر شعبہ کو اپنی قربانی اور لہو سے روشن رکھتی ہیں۔عصر جدید میں یہ کہنا کہ بیٹیاں بہن،بیوی اور ماں کے روپ میں اکیلی کھڑی ہو کر مردوں کو خوشیاں بانٹتی ہیں،بالکل اسی طرح فرسودہ بات ہے جِس طرح عالمی میڈیا اسلام پرستوں کو قدامت پسند قرار دے کر ان کی تمام خوبیوں اور قربانیوں پر پانی پھیر دیتا ہے۔
یاد کیجیے جب ہم نے کرونا بھگانے کے لیے تھالی بجائی۔اس وقت سے لے کر آج تک ہماری جیب کرونا کی مار جھیل رہی ہے مگر ہر سو سنّاٹا ہے۔ہم سب روزی روٹی کی بات چاہتے ہیں اور کوئی چیتا کی بات کر رہا ہے۔خیر! چھوڑیئے! سب کو اپنی بات کہنے کی آزادی ہے۔
اب ہم لوگ تازہ ترین معلومات پر بات کرتے ہیں۔میرے ایک دوست نے بتایا ہے کہ ہنگر انڈیکس یعنی بھوک مری میں میرا دیش بنگلہ دیش سے نیچے چلا گیا ہے۔ اس پر عالمی میڈیا اور بین الاقوامی تنظیمیوں نے ہنگامہ مچا رکھا ہے۔ ہنگامہ مچانے والوں سے میرا سیدھا سوال ہے بھارت بنگلہ دیش سے کرکٹ میں آگے ہے،فٹ بال میں آگے ہے، ہاکی میں آگے ہے، سرکاری ا ثا ثہ بیچنے میں آگے ہے،بینک لٹیروں کو بھگانے میں آگے ہے، رافیل گھوٹالہ میں آگے ہے، اسپائی ویئر گھسانے میں آگے ہے،خاطیوں اور زانیوں کو پیرول دینے میں آگے ہے،قاتلوں کی سزا معافی میں آگے ہے،جمہوری سرکار گرانے میں آگے ہے، اڈانی امبانی کو بڑھانے میں آگے ہے،مذہبی جنون بھڑکانے میں آگے ہے، نفرت کی آگ لگانے میں آگے ہے،جانور کے نام پر انسان کو کاٹنے میں آگے ہے،کرونا جیسی بیماری کو مذہبی بنانے میں آگے ہے اور ایک چیز میں بنگلہ دیش سے پیچھے ہو گیا تو اتنا ہنگامہ کیوں؟ شرم آنی چاہیے ہنگامہ بازوں کو۔ دنیا کا سپر پاور جب افغانستان سے بے آبرو ہو کر بھاگا تو اس وقت تو دنیا کو شرم تک نہیں آئی۔کسی نے یہ شعر بھی پڑھنا گوارا نہیں کیا۔
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن
بڑے بے آبرْو ہو کے تیرے کوچے سے ہم نکلے۔
شیخ حسینہ صاحبہ کا، ان کی بہادری اور خاتون مردی کے لیے میں بڑا احترام کرتا ہوں۔ جید سے جید علماء اور فقہا کو تختہ دار پر چڑھانے سے گریز نہیں کیا۔ شاعر انقلاب حبیب جالب نے حق پرستوں اور مجاہدوں کی ترجمانی یوں کی ہے۔
میں بھی خائف نہیں تختہ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا
موصوفہ نے تطہیر ی مہم چلا کر بنگلہ دیش کو سچے اسلام پسندوں سے پاک کیا۔اس مہم نے ان کا قد بھارت اور مغربی ممالک میں بلند کیا۔اْنہوں نے اپنے کام سے ورلڈ کے عظیم لیڈروں کو اپنے حسن میں پھانس لیا۔ اپنے حسن و اخلاق کی بدولت ہی ملک کو کرونا میں سنبھالا اور اپنی معیشت کو مستحکم رکھا۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کو وہ خود کو میرے ملک سے آگے سمجھیں۔بلاشبہ آپ بھی بیٹی ہیں اور خدا کی رحمت ہیں لیکن میرے ملک کی بیٹیاں رحمت کے ساتھ مفکر اعظم بھی ہیں۔نئے افکار اور خیالات کو اس طرح پیدا کرتی ہیں جس طرح بنگلہ دیش میں مرغیاں انڈے پیدا نہیں کرسکتی ہیں۔
ابھی ابھی وا ویلا مچا کہ روپیہ بہت کمزور ہو گیا۔ میڈم جی نے کاشی میں گنگا کے نرمل جل سے اشنان کر خود کو نرملا کیا۔ پھر بھکت دھیان کیا اور یہ اِرشاد فرمایا "روپیہ کمزور نہیں ہوا بلکہ ڈالر مضبوط ہوا ہے۔” ان کی اس فلاسفی سے دنیا کے بڑے بڑے ماہر اقتصادیات چاروں خانہ چت ہو گئے۔ اس فلاسفی پر آپ چاہیں تو پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر سکتے ہیں۔
اِس دیش کی خاتون تلاش کر رہی ہیں سلنڈر ی بیگم کو۔ کچھ سال پہلے جب وہ سلنڈر لے کر باہر نکلتی تھیں تو سارا ملک انہی کو دیکھتا۔میڈیا کے سامنے پوری بیباکی سے سلنڈر کے سبب ہونے والی پریشانی کو پیش کرتی تھیں۔اْن کا سلنڈر اتنا مشہور ہوا کے وہ سلنڈری بیگم ہو گئیں۔پچھلے کئی سالوں سے لا پتہ ہیں۔ ان کے لا پتہ ہونے سے سلنڈر اور سلنڈر والی کا شوہر دونوں اُداس ہیں۔ اْن کو ڈھونڈنے کے لیے سب اپنی اسمرتی پر زور لگا رہے ہیں لیکن اْن کی اسمرتی کام نہیں کر رہی ہے۔اک سیاح نے بتایا کہ اسمرتی کو انہوں نے ایران میں دیکھا ہے۔ میں نے اْن کو سمجھایا کے اِیرانی اسمرتی کی بات نہیں ہو رہی ہے۔ وہ ایران جائیں یا جاپان،اْن کو ڈھونڈنا سلنڈر استعمال کرنے والی خاتون کا کام ہے۔ جس طرح اْن کی سہیلی لہسن اور پیاز نہیں کھاتیں اسی طرح میں بھی سلنڈر نہیں کھاتا۔
جب بسنتی ہوائیں چلتی ہیں تو اس وقت ذہن و دل شگفتہ و شاداب ہو جاتا ہے۔بسنتی ہوائیں اپنی شگفتگی اور شادابی کے لیے جانی جاتی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ بسنتی ہوا بھی نہیں چل رہی ہے۔سبھی اس کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔اب بسنتی کو ڈھونڈنے متھرا اور برندابن جانے کی تیاری چل رہی ہے۔کبھی بسنتی پیاز کی مالا پہن کر اپنے شیدائیوں کے دیدار کے لیے نمودار ہوتی تھیں۔لیکن ان دنوں کہیں نظر نہیں آرہی ہیں لگتا ہے’ دھرم’ میں زیادہ دِل چسپی لے رہی ہیں یا تبدیلی موسم کی شکار ہو گئی ہیں۔بہر کیف! آپ جہاں بھی رہیں آپ کی رحمت کی نگاہ دربار عالیہ اور دیوان خاص پر ضرور رہے۔ معاشی اعتبار سے بر باد شری لنکا کے صدر کیسر پر اگر آپ لوگوں کی طرح کسی رحمتی بیگم کا سایہ ہوتا تو بے چارے کی سرکار نہیں جاتی اور وہ در در کی ٹھوکریں نہیں کھاتے۔