لڑکیوں کی ازدواجی زندگی برباد کرنے میںان کی مائیں کس حد تک ذمہ دار ہیں؟ماؤں کو اپنے برتاؤ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے
٭ داماد اپنے والدین کو چھوڑ کر علاحدہ مکان میں رہائش اختیار کرے۔ ٭ بیٹی کی زندگی میں اس کے ساس۔ خسر اور نندوں کی مداخلت نہ رہے۔ ٭ داماد کی تنخواہ ۔ آمدنی پر صرف ان کی بیٹی ہی کا تصرف رہے۔ ٭ اگر ضروری ہو تو علاحدہ اپارٹمنٹ خرید کردیاجائے گا۔ ٭ لڑکوں اور ان کے والدین کی عام شکایات۔ یہ مطالبات کیا طلاق کے محرکات نہیں بنیںگے؟

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد۔
گزشتہ اشاعت میں جو طلاقِ تفویض پر بحث کی گئی تھی‘ اس پر اعتراضات کے امکان کے پیشِ نظر پہلے ہی لکھا گیا تھا کہ آئندہ اشاعت میں اس مسئلہ کے دوسرے پہلو پر بحث کی جائے گی لہٰذا کئی اعتراضات آئے لیکن سب سے حیرتناک بات یہ رہی کہ قارئین کی اکثریت اس قانونی موقف یعنی طلاقِ تفویض کے مسئلہ سے بالکل ناواقف ہے اور انہیں پہلی بار اس بات کا پتہ چلا کہ ایسا بھی کوئی موقف موجود ہے جس کا اگر بروقت استعمال کیا جائے تو ایسے دردناک مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔ اس بحث کو تقویت آج اس وقت ملی جب مولوی خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے اپنے پریس نوٹ میں جو آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی جانب سے جاری کیا گیا تھا‘ اس بات کو تسلیم کیا کہ طلاق کی تین صورتیں ہیں یعنی طلاقِ حسن‘ خلع اور طلاقِ تفویض ۔
مولانا کا بیان کیرالا ہائیکورٹ کے اس فیصلہ کے تناظر میں جاری کیا گیا تھا جس میں عدالت نے اپنی قانونی اور شرعی موقف سے گمراہی میں فیصلہ صادر کیا کہ شوہر کی مرضی کے بغیر بھی خود اپنی مرضی سے خلع حاصل کرسکتی ہے۔
مولانا موصوف نے بہت ہی احسن طریقہ سے اس اہم مسئلہ پر اپنی رائے کا اظہار فرمایا ہے۔ آل انڈیا پرسنل لاء بورڈ اس سنگین مسئلہ پر سپریم کورٹ سے اپیل میں متذکرہ فیصلہ کو چیالنج کررہا ہے۔
شادی شدہ لڑکیوں کی زندگی کی بربادیوں میں جہاں اس کے شوہر اور سسرالی عزیز ذمہ دار ہوتے ہیں وہیں بعض بلکہ زائد از نصف معاملات میں لڑکی کی ماں اور بہنیں بھی ذمہ دار ہوتی ہیں جو روزِ اول سے لڑکی کو تلقین کرتی ہیں کہ شوہر کو اپنی مٹھی میں رکھو اور اسے اپنے ماں باپ سے دور رکھو۔ لڑکی کی ماں اور بہنیں اسے الٹی پٹیاں پڑھاکر اسے اس حد تک لے جاتی ہیں کہ وہ شوہر کی باغی ہوجاتی ہے۔ ہر روز کے جھگڑوں سے شوہر اور سسرالی عزیز تنگ ہوجاتے ہیں۔ کبھی کمرے میں بند ہوجاتی ہے صبح سے شام تک کمرہ بند رہتا ہے۔ خودکشی کی دھمکی دیتی ہے اور کبھی کبھی نیند کی گولیاں کھالیتی ہے۔ گھر کے کام کاج میں کوئی حصہ نہیں لیتی۔ دن رات جھگڑا کرنے لگتی ہے۔ جب اس کی ماں سے شکایت کی جاتی ہے تو وہ کئی عورتوں کے ساتھ گھر میں آدھمکتی ہے اور پولیس کارروائی کی دھمکی دیتی ہے۔ آخرِ کار خاندان کے بزرگوں کی وساطت سے صلح ہوجاتی ہے تو پہلی شرط یہ ہوتی ہے کہ لڑکا علاحدہ رہائش کا انتظام کرے گا اور وہ گھر لڑکی کی ماں کے گھر کے قریب ہوگا۔
اگر اتفاق سے لڑکا گھر کا واحد کمانے والا ہے تو اس کے گھر کی بربادی لازم ہے۔ ایک اور مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ جہیز میں دیئے ہوئے قیمتی زیورات اور لڑکے والوں کی جانب سے دیئے ہوئے زیورات بھی لڑکی اپنے ساتھ لے جائے گی۔ گویا شادی کیا ہوئی لڑکے کے گھر کی خانہ بربادی ہوئی۔ بعض ایسی شرائط بھی ہوتی ہیں جو لڑکے اور اس کے والدین کی عزت نفس کو مجروح کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے۔ ضدی لڑکی اور اس کی ماں کسی بھی سمجھوتے کیلئے راضی نہیں ہوتے اور آخرِ کار قانونی کارروائی یعنی زیر دفعہ 498-Aتعزیرات ہند اور DVC کی جاتی ہے جو ایک جانب صبر آزما تو دوسری جانب تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔
یہ بات دیکھی گئی ہے کہ خودسری ‘ ضد اور ہٹ دھرمی اپنی حدود سے آگے بڑھ رہے ہیں اور تباہ کن نتائج سامنے آرہے ہیں۔ نفرت‘ ضد‘ ہٹ دھرمی اور خوف انسان کے سب سے بڑے دشمن ہوتے ہیں لیکن پتہ نہیں انسان کیوں ان دشمنوں کو بڑے پیار سے پالتا ہے۔
ایک طرف اِدھر زیادتی تو دوسری جانب اُدھر زیادگی۔ سمجھوتے کی کوئی راہ نظر نہیں آتی لہٰذا سب سے بہتر صورت علاحدگی ہی ہوگی۔ مرد اپنی ضد کی وجہ سے عورت کو ٹنگا نہیں سکتا اور نہ ہی عورت مرد کو لٹکا سکتی ہے۔ اگر بات نہیں بنتی ہے ‘ مزاج نہیں ملتے ہیں اور گزارہ مشکل ہورہا ہے تو بذریعہ طلاق یا خلع علاحدہ ہوکر اپنی زندگی کو آسان بنایا جاسکتا ہے۔
لیکن سب سے بہتر صورت یہی ہوگی کہ اگر ابتدائی دنوں ہی میں اختلافات بڑھ رہے ہیں تو بذریعہ طلاق تفویض علاحدگی اختیار کی جاسکتی ہے۔ اس صورت میں عورت کو اختیار تفویض کیا جاتا ہے کہ کسی ایک ایسے عمل کے ہونے پر جو خلافِ اصولِ شرع اسلام ہو‘ عورت خود کو طلاق دے کر علاحدہ ہوسکتی ہے۔
بغیر دستاویز وسیع اور قدیم آبائی مکان کی تقسیم
سوال:- پرانے شہر میںایک مرکزی مقام پر ہمارے دادا کے زمانے کا تعمیر کردہ ایک سفال پوش مکان اور بہت بڑی زمین پر واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مکان میرے دادا نے تین سو روپیوں کے عوض خریدا تھا ۔ دادا کو صرف ایک ہی اولاد تھی یعنی میرے والد اور میرے والد کو دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی یعنی ہم دو بھائی اور ایک بہن۔ ہمارے پاس کوئی ایسا دستاویز نہیں جو ہماری ملکیت کو ثابت کرسکے سوائے بجلی کے بل ‘ پانی کا بل اور ٹیکس رسید جو آج تک والد صاحب کے نام پر آرہی ہے۔ ہم اس مکان موازی1500 گز کو آپس میں تقسیم کرلینا چاہتے ہیں کیو ںکہ مجھے اور میرے بھائی بہن کو بھی بچے ہیں جو بڑے ہوگئے ہیں ۔ مکان میں آج تک کوئی تعمیر نہ ہوسکی۔ ایک حصہ پختہ اور ایک سفال پوش ہے۔ اگر اس مکان کو تعمیر کیا جائے تو کئی منزلہ کمرشیل اور رہائشی کامپلکس بن سکتا ہے۔
لیکن ان تمام کارروائیوں کے لئے رجسٹر شدہ دستاویز چاہیے ۔ اگر ہم آپس میں اس جائیداد کو تقسیم کرلیں تو علاحدہ پورشن یعنی تین سو گز بہن کو چھ سو گز ہر بھائی کو آسکتا ہے اور ہم اس مزین کو آپس میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
اس ضمن میں ہمیں ایک دستاویز چاہیے جو ہم تینوں کو علاحدہ علاحدہ طور پر اپنے اپنے حصہ کا مالک بنادے۔
ایک صاحب نے رائے دی ہے کہ آپسی تقسیم نامہ کے ذریعہ اپنا اپنا حصہ الگ الگ کرکے تعمیری اجازت حاصل کرسکتے ہیں۔
اس ضمن میں آپ کی رائے کی اشاعت چاہتا ہوں۔ فقط
X-Y-Z حیدرآباد
جواب:- آپ اپنے آبائی مکان کی تقسیم ایک تقسیم نامہ کے ذریعہ کرسکتے ہیں اس عمل میں کوئی قانونی نقص نہیں ۔
سوال:- میرا یہ سوال بہت ہی گمبھیر نوعیت کا ہے ۔ ہمارا خاندان ایک مشکل میں پڑگیا ہے ۔ کمرشیل علاقہ میں ہماری ایک جائیداد ایک آندھرائی علاقہ میں رہنے والے شخص کو بھاری کرایہ پر دی گئی اور وہ ہر ماہ کرایہ ادا کرتا رہا لیکن ہر ماہ ایک سادہ کاغذ پر میری دستخط لیتا تھا جس پر یہ بات لکھی ہوئی ہوتی کہ یہ رقم اس ماہ کے کرایہ میں لی گئی ہے۔ چونکہ کرایہ بہت بھاری ہے ہم نے کرایہ نامہ کی رجسٹری نہیں کروائی اور اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ چند مفاد پرست دوستوں کی رائے کے مطابق یہ جائیداد کرائے پر دے دی گئی۔ ایک کرایہ نامہ لکھا گیا جو گیارہ ماہی مدت کا تھا۔
اس جائیداد میں وہ آندھرائی شخص غیر قانونی اور غیر اخلاقی کام کیا کرتا تھا۔ کچھ دنوں بعد اس مکان پر لوگوں کی شکایت پر پولیس دھاوا ہوا اور کئی جواریوں کو پکڑا گیا لیکن وہ آندھرائی بدمعاش غائب ہوگیا۔
اب وہ جائیداد خالی پڑی ہے اور اس پر تالا لگا ہوا ہے ۔ ہم نہ تو اس قفل کو توڑ سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کو کرایہ پر دے سکتے ہیں۔ ایک بھاری آمدنی والی جائیداد جو ہمارے خاندان کی کفیل تھی بے کار پڑی ہوئی ہے ۔
لوگوں نے رائے دی ہے کہ پولیس سے رجوع ہوجاؤں۔ پولیس نے کہا کہ آپ جائیداد خالی کروانے کا دعویٰ کرسکتے ہیں لیکن قفل توڑ نہیں سکتے کیوں کہ اس مکان میں فرنیچر ‘ ریفریجریٹر ‘ صوفہ سیٹ اورٹیبل کرسیاں ہیں۔
پہلی مرتبہ قانونی رائے حاصل کررہا ہوں۔ براہِ کرم رائے شائع فرمائیں اور کس طرح سے اپنی جائیداد کو حاصل کرسکوں۔ فقط
X-Y-Z ڪحیدرآباد
جواب:- آپ نے شائد اسی خیال کے تحت اپنی قیمتی جائیداد اس آندھرائی بدمعاش کو کرایہ پر دی کہ یہ لوگ کرایہ وقت پر ادا کرتے ہیں اور معاملات میں سیدھے ہوتے ہیں جبکہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے ۔ ہندوستان میں دھوکہ دہی کے سب سے زیادہ جرائم آندھرا کی ساحلی پٹی میں ہوتے ہیں۔ اگر آپ اپنی جائیداد اپنے ہی کسی بھائی کو کرایہ پر دی ہوتی تو دیر سویر سے کرایہ ملتا لیکن ضرور ملتا اور نہ ہی آپ کی جائیداد خطرے میں پڑتی۔ ایک صاحب آپ ہی کی طرح تھے جن کا خیال تھا کہ مسلم کرایہ دینے میں بہت ستاتے ہیں۔ جائیداد بہت بڑی تھی اور ٹولی چوکی حیدرآباد کی ایک بہت ہی اچھی کالونی میں واقع تھی۔ صاحب جائیداد باہر رہتے تھے اور انہوں نے ایک انگریزی اخبار میں اشتہار جاری کیا ۔ ڈاکٹر صاحب اس جائیداد کے مالک تھے۔ ان کے دماغ میں خناس بھرا ہوا تھا کہ مسلمان کرایہ وقت پر ادا نہیں کرتے۔ اشتہار کے بعد ایک سفید پوش آندھرائی شخص ایک لمبی کار میں بیٹھ کر آیا اس نے ایک سونے کی چین پہن رکھی تھی اور اس کی انگلیوں میں سونے کی انگوٹھیاں تھیں۔ اس نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب میرا بیٹا اور بہو بھی ڈاکٹر ہیں اور وہ ایک میٹرنٹی ہاسپٹل کھولنا چاہتے ہیں۔ آپ کا مکان مجھے دے دیجئے جو کرایہ مانگیں گے دیدوں گا۔ تین مہینے کا اڈوانس بھی ادا کروں گا۔ کرایہ مقرر ہوا۔ اس نے اسی وقت تین مہینوں کا کرایہ ادا کردیا۔ ڈاکٹر صاحب اسی روز واپس جارہے تھے۔ کرایہ نامہ کی تکمیل نہیں ہوسکتی تھی۔ آندھرائی شخص نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب ایک سادہ کاغذ پر اس رقم کی رسید لکھ کر دیدیجئے کرایہ نامہ کی تکمیل بعد میں ہوگی۔ ڈاکٹر صاحب نے آندھرائی شخص کو مکان کا قبضہ دے دیا ۔ چار سو پچاس گز پر دو منزلہ مکان تھا۔ ڈاکٹر صاحب خوش خوش واپس چلے گئے اس امید کے ساتھ کہ ہر ماہ کرایہ ملتا رہے گا۔
اس واقعہ کے ایک مہینے بعد محلے والوں نے پولیس میں شکایت کی کہ اس مکان میںقحبہ گری کا اڈہ چلایا جارہا ہے ۔ مکان پر پولیس کا دھاوا پڑا اور وہاں سے کچھ مردوں اور عورتوں کو گرفتار کرلیا گیا اور اس مکان کو مہر بند کردیا گیا کہ یہ مکان مجرمانہ عمل کا اڈہ ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کو پتہ چلا تو ان کے ہوش اڑگئے۔ واپس آئے او رایک مدت کے بعد پولیس مہر ہٹائی گئی لیکن ان کی حیرت کی انتہاء اس وقت ہوئی جب اس شخص نے ڈاکٹر صاحب پر صرف ایک نقدی کی رسید کی بنیاد پر معاہدۂ پر عمل آوری کا دعویٰ کردیا۔
ڈاکٹر صاحب تین سال تک مکان سے محروم رہے کیوں کہ اس آندھرائی شخص نے انجنکشن آرر حاصل کرلیا تھا۔ اس واقعہ کو اس سے پہلے بھی لکھا جاچکا ہے۔
اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے اپنا مکان اپنے ہی مسلم بھائیوں کو کرایہ پر دیا اور ان کو کرایہ بروقت ملتا رہا۔
پولیس نے آپ کے ساتھ بہت نرمی کا برتاؤ کیا ورنہ قمار بازی کے اوں کو مہر بند کردیا جاتا ہے۔
آپ اس شخص کے خلاف سیول کورٹ سے رجوع ہوسکتے ہیں۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰