طنز و مزاحمضامین

’’ایک دیوانہ اس شہر میں…‘‘

حمید عادل

آج کے دور میں کچھ ہو نہ ہو،ذاتی گھر کا ہونا بے حدضروری ہے …چاہے وہ جھونپڑی نما ہی کیوں نہ ہو… ’’خربوزہ چھری پر گرے یا چھری خربوزے پر، کٹتا خربوزہ ہی ہے‘‘کے مصداق مکان دار کرایہ دار سے خفا ہویاکرایہ دار، مکان دار سے ،گھر سے کرایہ دار ہی کو نکلنا پڑتاہے …کبھی کبھی توایک دوسرے سے خفگی کے بغیر بھی کرایہ دار کو گھر سے باہر ہوجانا پڑتا ہے…
دو دن قبل مکان دار ہم سے ہمیشہ کی طرح تپاک سے ملے،اِدھر ُادھر کی گفتگو کے بعد کہنے لگے ’’ اگلے مہینے آپ کو مکان خالی کرنا ہے ۔‘‘ یہ سن کرہمارے پیروں تلے زمین ہی نہیں مکا ن بھی کھسکتا ہوا محسوس ہوا ..ہم منمنائے ’’ مگر کیوں ؟‘‘ کہنے لگے ’’ بات دراصل یہ ہے کہ اگلے مہینے میری لڑکی کی شادی ہے،مہمان آئیں گے تو آپ کے فلیٹ کی بھی ضرورت پڑے گی…‘‘ ہم نے ہکلاتے ہوئے سوال داغا ’’ لیکن اتنی جلدی ہمیں مکان کہاں ملے گا؟‘‘ مکاندارنے مسکراتے ہوئے ہماری جانب دیکھا اور بڑی محبت سے کہا ’’ یہ آپ کی پریشانی ہے میری نہیں !‘‘
ہم پریشانی کے عالم میںگھر آئے تو پھول بانو نے ٹوکا ’’ بڑے اداس بلکہ دیو داس نظرآرہے ہیں آپ؟کیا بات ہے ؟‘‘ ہم کرسی پر ڈھیر ہوتے ہوئے بولے ’’ اگلے مہینے ہمیں مکان خالی کرنا ہے ۔‘‘’’ کس نے کہا؟‘‘ ’’ مکاندارکے سوا کس کی ہمت ہے ایسا کہنے کی…‘‘’’ غم نہ کریں !آپ یہ سوچ کر خوش کیوں نہیںہوتے کہ ہم اُن مکانداروں سے بہتر ہیں جو برسہا برس ،ایک ہی مکان سے چپکے رہتے ہیں ،ارے ہم وہ ہیں جوسال میںدو مکان بدلتے ہیں …‘ پھول بانوکی باتیں تھیں تواوٹ پٹانگ، لیکن ’’دل کے بہلانے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے ‘‘ کہ مصداق ان کی باتوں نے ہمارا کافی حوصلہ بڑھایا… گھر، انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ضرورہے لیکن دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک 270 ارب 10 کروڑ ڈالر اثاثوں کے مالک ہونے کے باوجود 2022ء کے ایک انٹرویو میں انہوں نے کھل کر کہا تھا ’’ میرے پاس اپنا کوئی ذاتی مکان نہیں بلکہ میں دوستوں کے گھروں میں رہتا ہوں…‘‘تو پھر ہم کس کھیت کی مولی بلکہ گاجر ہیں…البتہکبھی کبھی ایسا بے معنی خیال بھی آتاہے کہ جن کے دو گھر ہوں وہ ایک گھر ہم جیسے بے گھروں کو دے کیوں نہیں دیتے؟
ہم نے دوسرے ہی دن کرائے کے مکان کی تلاش شروع کردی،ہم مکان کیا دیکھتے ،جہاں جاتے مکاندار ،مکان دکھانے سے پہلے ہمیں بغور دیکھتے کہ یہ شخص میرے مکان کا کرایہ دے پائے گا کہ نہیں … اورجنہیں یہ گمان گزرتا کہ ہم وقت پر کرایہ نہیں دے پائیں گے تو پھر ہمیں گھر دکھانے سے تک احتراز کرتے…
اخبار میں کرائے کے مکان کا اشتہار دیکھ کر ہم نے مکاندار سے ربط پیدا کیا تو انہوں نے مکان کاجوپتا بتایا ،اس کے مطابق ہم اس قدر گنجلک اور تاریک بستیوں سے گزر رہے تھے کہ جس کا ہم نے شہر میں کبھی تصور تک نہیں کیا تھا …جس مکان کی تلاش میں ہم جارہے تھے، اس کی خاص بات یہ تھی کہ یہ تین کمروں پر مشتمل مکان تھا اور کرایہ انتہائی کم یعنی نو ہزار روپئے تھا…سوکم کرائے کی چاہ میں ہم وہاں پہنچے ، جہاں پہنچ کر ہمارا دم گھٹنے لگا تھا … ہمارے روبرو گھر کیا تھا ایک کھنڈر تھا،ایک کمرے سے مزید دوکمرے جڑے ہوئے تھے،کچن کے نام پر ایک تنگ و تاریک مختصر سی گلی تھی،جہاں آدمی بمشکل کھڑے ہوکر پکاسکتا تھا یا خود پک سکتا تھا…ہم نے کچن کی حالت زارپر کوئی تبصرہ کیے بغیر سوال کیا ’’ باتھ روم کہاں ہے بھائی جان؟‘‘ بھائی جان نے گلی نما کچن کی دوسری جانب لگے کمزور سے دروازے پرایک ہاتھ مارا اور ہمیںباتھ روم کا دیدارنصیب ہوگیا جو کچن سے بھی کم جگہ پر تھا…ہم زیر لب بڑبڑائے ’’ اتنا مختصر؟‘‘ مکاندار نے تنک کر جواب دیا ’’یہ بیڈ روم نہیں باتھ روم ہے جناب ۔‘‘ہم نے اگلا سوال داغا ’’کیا بورویل ہے ؟‘‘ مکاندار نے لاپرواہی سے کہا ’’ بورویل کی کوئی ضرورت نہیں ہے،نل سے پانی وافر مقدار میں آتا ہے ۔‘‘ ہم نے چھت کا طائرانہ جائزہ لیتے ہوئے کہا ’’ موسم برسات میں تواس مکان میں رہنے والوں کے اور بھی مزے ہوں گے۔‘‘ مکاندار ہمارے طنز کو تاڑ گئے فوری کہا ’’اتنے زیادہ مزے بھی نہیں ہیں، فی کمرہ چھ ٹپکے پکڑ کر چلیے ۔‘‘
مکان کیا تھا،آثار قدیمہ کاڈھانچہ تھا، جس کی چھت اوردیواریں کبھی بھی مکینوںپر مہربان ہوسکتی تھیں…زندگی سے بیزار شخص ہی اس مکان کا مکین بن سکتا تھا…ہم تو معروف شاعر امام بخش ناسخ کے شعر کی سی زندگی گزارنے پر یقین رکھتے ہیں:
زندگی زندہ دلی کا ہے نام
مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں
ہم کرائے کے مکان کی تلاش میں مسلسل سرگرداں تھے کہ چمن بیگ نے اطلاع دی کہ ان کے دوست کا مکان خالی ہوچکا ہے …ہم فلم ’’گھروندہ‘‘ کا سوپر ہٹ نغمہ ’’ ایک دیوانہ اس شہر میں ، رات میں اور دوپہر میں ،آب ودانہ ڈھونڈتا ہے، آشیانہ ڈھونڈتا ہے ‘‘ گنگناتے ہوئے پہنچ گئے …نوجوان مکاندار نے ہمیں دیکھتے ہی پہلا سوال داغا ’’کتنے افراد خاندان ہیں ؟‘‘ اس سوال پر ہمیں آنجہانی گبر سنگھ یاد آگئے ، دراصل مکاندار کا لب و لہجہ بھی اس کردار سے خاصا ملتا جلتا تھا …ہم’’ گبر سنگھ‘‘ کے کردار کے سحر میں اس قدر کھو گئے کہ بے ساختہ چہک اٹھے ’’ چھ سردار‘‘مکاندار نے بدک کر پوچھا ’’ تمہیں میرا نام کیسے معلوم ہوا، میں نے توبتایا بھی نہیں ۔‘‘ہم نے مسکرا کر کہا ’’ کیا سردار آپ کا نام ہے ؟‘‘ مکاندار نے پلٹ وار کیا ’’ نہیں تو کیا تمہارا نام ہے ؟‘‘ہم سٹپٹا کر رہ گئے …سردار نے دوسرا سوال بھی گبرسنگھانہ انداز میں دے مارا ’’ کتنے افراد ملازمت کرتے ہیں ؟‘‘ ہم نے کہا ’’ ایک سردار‘‘ مکاندار نے ٹوکا ’’ یہ تم بات بات پر سردار ، سردار کیوں کہہ رہے ہو؟‘‘ اورپھرکچھ سوچ کر قدرے توقف سے کہا ’’ پانچ میں بڑے کتنے ہیں اوربچے کتنے ہیں ؟‘‘اس خیال سے کہ مکاندار کوبچوں سے الرجی ہوگی،ہم نے فوری کہا ’’ بے فکر رہیں ، سارے بڑے ہیں ۔‘‘سردار نے ہمارا بھرپور جائزہ لیتے ہوئے رائے قائم کی ’’یعنی پانی بہت خرچ ہوگا۔‘‘’’ وہ کیسے؟‘‘ہم نے پوچھا’’ارے انکل!لوگ گھرپر ہوں گے تو پانی تو پئیں گے ناں‘‘ہمیں پہلی بار پتا چلاکہ لوگوں کاکرائے کے گھر میں رہنا اور پانی پینابھی کس قدر سنگین مسئلہ ہوچلا ہے … ہم نے سوال دے مارا ’’ کرایہ کتنا ہوگا؟ ‘‘جواب ملا ’’ بائیس ہزار‘‘ ہم دریائے حیرت میں غوطہ زن ہوتے ہوئے پوچھ بیٹھے ’’ اتنا زیادہ…؟‘‘جواب ملا ’’ مقام کی بھی قیمت ہوتی ہے ۔ ‘‘ اورپھر نہایت تکبرانہ انداز میں مکاندار گویا ہوئے ’’آپ جانتے بھی ہیں آپ کہاں کھڑے ہیں ،یہ شہر کا سب سے پاش علاقہ ہے ،یہاں وہی لوگ آباد ہوتے ہیں جو مہذب کہلانا چاہتے ہیں …‘‘ ہم نے کہا ’’ تو کیا اس علاقے میںآباد ہونے والا جاہل بھی مہذب بن جاتا ہے ؟‘‘ ہماراریمارک سن کرمکاندار تلملا کر رہ گئے ، اپنے غصے کو ضبط کرتے ہوئے کہا ’’ اگر آپ کی سمجھ میں آرہا ہے تو ٹھیک ہے ، ورنہ جس گیٹ سے ہوکر آپ یہاں تک آئے ،وہ کھلا ہے ، جاسکتے ہیں آپ …‘‘
ہم مشکوک حیدرآبادی کے کہنے پر دوڑے دوڑے پڑوس کی گلی میں جاپہنچے ، مکاندار نے ہمارا والہانہ استقبال کیا، جس سے ہمیں یہ قوی امیدہوگئی کہ کرائے میں کم از کم ہزار سے دو ہزار روپئے کم ہوسکتے ہیں …فلیٹ پہلی منزل پر تھا،سوہم ان کے ہمراہ ہولیے،سیڑھیاں اس قدر تنگ تھیں کہ ہم جیسا تلوار نما آدمی تک بڑی مشکل سے گزر سکتا تھا…ہم نے تنگ و تاریک سیڑھیوں سے گزرتے ہوئے پوچھا ’’ اس راستے سے سامان کس طرح اوپر جائے گا؟‘‘ مکاندار نے ایک زور دار قہقہہ لگاکر کہا ’’ جناب ! یہ راستہ صرف چلنے کے لیے، سامان اوپر لے جانے کے لیے دوسرا راستہ ہے ۔‘‘ ہم نے خوش ہوکر کہا: ’’یہ آپ نے اچھا کیا جوسامان کے لیے لفٹ کا انتظام کردیا؟‘‘ مکاندارنے فوری جواب دیا’’ لگتا ہے آپ غلط فہمی بلکہ خوش فہمی میں مبتلا ہوگئے ہیں،دوسرا راستہ سے مرادسکنڈ فلور کی بالکونی پر کھڑے ہوکر آپ کورسی سے سامان اوپرکھینچنا ہوگا…‘‘ہم نے گھبرا کر پوچھا ’’ اور اگر کبھی سامان نیچے پہنچانا ہو تو ؟‘‘مکاندار نے برجستہ کہا ’’وہی رسی والا عمل دہرائیں یا پھر آپ سکنڈ فلور سے اپنا سامان نیچے پھینک بھی سکتے ہیں …آپ کیسے اپنا سامان نیچے پہنچاتے ہیںیہ آپ کی اپنی مرضی پر منحصر ہوگا ۔‘‘زیادہ سے مکانیت کے چکر میں روشنی اورہوا کا بالکل خیال نہیں رکھا گیا تھا…ہم ہال میں پہنچتے پہنچتے بے حال ہوگئے،یوں محسوس ہورہا تھا جیسے ہماری آنکھوں پر پٹی باندھ کر،کسی نا معلوم جگہ پر لایا گیا ہے،تھا تودن مگر ہر سو اندھیرا تھا …ہم نے فوری موبائل کی ٹارچ روشن کر دی …ہال کیا تھا، ہال کے نام پر بھونڈا مذاق تھا اوربیڈروم میں بیڈآنے کے بعد بمشکل اتنی جگہ ہوتی کہ ہم ہال سے بیڈ تک جا سکیں… ہم نے تقریباً چیختے ہوئے کہا ’’ ہم سامان کہاں رکھیں گے؟‘‘ مکاندار نے پرسکون انداز میں کہا ’’ اس گھرمیں سامان کی ضرورت ہی نہیں ہے…‘‘اور پھر ہمیں سمجھاتے ہوئے کہنے لگے ’’ آپ نے سناہوگا گھر ،گھروالوں سے بنتا ہے ۔‘‘’’ جی ہاں ! سنا تو ہے ۔‘‘ ہم دیوانگی کے عالم میں بڑبڑائے ۔مکاندارغالباً اسی موقع کی تاک میں تھے ،فوری چہک اٹھے ’’پھر سامان کی کیا ضرورت ہے برخوردار؟‘‘ آخری جملہ ادا کرتے ہوئے مکاندار نے ایک زور دار قہقہہ لگایا…ہم اس قہقہے کے زہر میں ایسے کھوئے کہ اپنا توازن کھو بیٹھے اور سیڑھیوں سے لڑھکتے ہوئے بالائی منزل سے گراونڈ فلور پر پہنچ گئے …
ہمیں شدید چوٹیں آچکی تھیں، ہم بستر پر لیٹے ہوئے تھے اورپاس ہی پھول بانو اداس بیٹھی تھیں… دستک ہوئی تو،ہم نے دروازہ کھولا، سامنے مکاندار کو دیکھا تو چہرے کی رنگت اڑ گئی…ہم نے نہایت دھیمے سرُ میں کراہتے ہوئے کہا ’’ مکان کی تلاش جاری ہے ، جیسے ہی کوئی مکان مل جائے گا، ہم یہ مکان خالی کردیں گے ۔‘‘ مکاندار نے روایتی مسکراہٹ کے ساتھ کہا ’’ نہیں نہیں ! آپ آرام سے رہیے، شادی کے موقع پر میرے ہاں آنے والے مہمان اب میرے بڑے بھائی کے ہاں رہیں گے، آپ کو فی الحال مکان تلاش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔‘‘مکاندار تو خوش خبری سنا کر چل دیے لیکن خوشی سے ہمارا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا …مکان میں رہنے کی مہلت کیا ملی، ہمیں لگا جیسے کرائے کا مکان ذاتی ہوگیا ہے …
۰۰۰٭٭٭۰۰۰