مضامین

پارلیمنٹ میں اسلامو فوبیا کا بدترین مظاہرہ

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

ملک میں گز شتہ چند برسوں سے نفرت و عناد کی جو مذموم لہرفرقہ پرستوں کی جانب سے چلائی گئی، اس کے اثرات اب ہر جگہ دیکھے جا رہے ہیں۔ سڑکوں اور گلیوں میں غنڈے جو گھٹیا لب ولہجہ استعمال کرتے ہیں اب وہی انداز قانون ساز اداروں میں وہ لوگ اختیار کر رہے ہیں جن کو عوامی نمائندے کہا جاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں ایک ایسا ہی بدبختانہ واقعہ ایوان لوک سبھا میںپیش آیا۔ بی جے پی کے رکن لوک سبھا رمیش بدھوری اپنے ہوش اتنے گنوا بیٹھے کہ انہوں نے بی ایس پی کے رکن لوک سبھا کنور دانش علی کو ”دہشت گرد، ملّا، کٹوا، اتنک وادی اور اُگراوادی “جیسے نازیبا الفاظ سے نواز دیا۔ افسوس اور المیہ کی بات ہے کہ جس وقت رمیش بدھوری اپنی اس بد تمیزی کا مظاہرہ کر رہے تھے بی جے پی کے اہم قائدین جو سابق وزرا رہ چکے ہیں پیچھے بیٹھ کر مسکرا رہے تھے، انہوں نے اپنی پارٹی کے رکن کو اس گالی گلوچ پر روکنے کے بجائے میزیں تھپتھپاتے ہوئے ان کی ہمت افزائی کی۔ ان کے اس رویہ سے واضح ہوتا ہے کہ ایک رمیش بدھوری ہی نہیں بلکہ بی جے پی کے سب ہی قائدین بیمار ذہنیت کا شکار ہو گئے ہیں۔ واضح رہے کہ گز شتہ 18تا 22 ستمبر پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس منعقد ہوا تھا۔ اسی خصوصی اجلاس کے دوران پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں کام کاج کا آغاز ہوا۔ پانچ روزہ اس اجلاس میں جہاں خواتین کے لیے قانون ساز اداروں میں 33فیصد ریزویشن کا بِل منظور ہوا ، وہیں چندریان۔3کی کامیابی کا جشن بھی پارلیمنٹ میں منایا گیا ، اس موقع پر جاری مباحث میں رمیش بدھوری نے اپنی اشتعال انگیزی کا ثبوت دیتے ہوئے وہ باتیں اپنی زبان سے نکالیں کہ اس کے بعد انہیں ایک دن بھی پارلیمنٹ کا رکن بر قرار رکھنا اس ایوان کی توہین کے مترادف ہے۔ انہوں نے کنور دانش علی کے خلاف جو فحش اور انتہائی ناشائستہ الفاظ استعمال کیے اس سے پارلیمنٹ کا وقار جہاں متاثر ہوا وہیں ملک کی جمہوریت کے مستقبل پر بھی سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔ایسی زہر آلود سوچ رکھنے والا شخص کیا پارلیمنٹ کارکن بر قرار رہ سکتا ہے۔ ایوان میں کیااس قسم کی غیر پارلیمانی زبان استعمال کی جا سکتی ہے۔ رمیش بدھوری نے جو کچھ کہا وہ سب ثبوتوں کے ساتھ موجود ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان کے خلاف لوک سبھا اسپیکر ابھی تک کوئی کا رروائی نہیں کیے ہیں۔ اسپیکر نے محض بدھوری کی سرزنش کر کے مسئلہ کی سنگینی کو ختم کرنے کی اوچھی حرکت کی ہے۔ سابق میں اپوزیشن پارٹی کے ارکان کو محض سوال پوچھنے پر ایوان سے معطل کر دیا گیا۔ اب جب کہ رمیش بدھوری نے ایوان کے وقار کو مجروح کر دیا ہے اور اپنے توہین آمیز جملوں سے نہ صرف کنور دانش علی کی توہین کی ہے بلکہ ملک کے سارے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے ان کے خلاف کوئی کارروائی کا نہ ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ 21 ستمبر کو لوک سبھا میں جو کچھ ہوا وہ ایک منظم سازش کا حصہ ہے۔ ملک کے ایک بڑے طبقہ کو بدنام کرنے کی نیت سے بی جے پی نے رمیش بدھوری کو اپنا مہرہ بنایا۔ بی جے پی قائدین کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ دانش علی نے رمیش بدھوری کو ایسا کہنے پر ُاُکسایا ہے۔ بی جے پی کے دوارکان پارلیمنٹ نے اسپکر لوک سبھا کو چھٹی لکھ کر دانش علی کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ بدھوری نے جو تضحیک آمیز الفاظ دانش علی کے خلاف استعمال کئے اس سے ہر ہندوستانی شہری جان سکتا ہے کہ کس نے ایوان میں طوفانِ بدتمیزی کھڑا کیا ہے اور کون آپے سے باہر ہوگیا۔لیکن یہاں معاملہ اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ہوگیا یا پھر چوری پہ سینہ زوری والی کہاوت صادق آتی ہے۔
بی جے پی رکن پارلیمنٹ کے اس جارحانہ رویہ سے ملک کی جمہوریت شرمسار ہوئی ہے۔ پارلیمنٹ کو جمہوریت کا مندر کہا جا تا ہے۔ اگر پارلیمنٹ میں ہی ایک رکن پارلیمنٹ ، دوسرے رکن پارلیمنٹ کودہشت گرد، آتنک واد ، کٹوا اور بھڑوا جیسے انتہائی توہین آمیز جملوں سے مخاطب کر تا ہے تو پارلیمانی جمہوریت ایک مذاق بن کر رہ جائے گی۔ پارلیمنٹ کے باہر لوگ جن گھٹیا الفاظ کے استعمال سے پرہیز کرتے ہیں اگر وہ پارلیمنٹ میں دھڑلے سے استعمال ہونے لگیں تو کیا ملک کی عوام کے لیے یہ شرمساری کی بات نہ ہوگی۔ ایوان پارلیمنٹ میںبدھوری کی بدکلامی سے بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کا امیج متاثر ہوا ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ انہیں پارلیمنٹ کی رکنیت سے برخاست کر دیا جائے۔ آئندہ بھی وہ الیکشن میں حصہ لینے کے لیے نا اہل قرار دے دیے جائیں۔ ایسے غیر مہذب افراد کو پارلیمنٹ سے باہر کرنا جمہوریت کو بچانے کے لیے ضروری ہے۔ اسی لیے اپوزیشن پارٹیوں کا مطالبہ ہے کہ رمیش بدھوری کے خلاف کارروائی کر تے ہوئے ان کی لوک سبھا کی رکنیت ختم کر دی جائے۔ جب دیگر پارٹیوں کے ارکان کو معمولی غلطی پر پارلیمنٹ سے معطل کر دیا جا تا ہے تو اتنا بیہودہ لہجہ اختیار کرنے والا شخص کیسے پارلیمنٹ کی کارروائیوں میں حصہ لے سکتا ہے۔ اس مسئلہ کو پارلیمنٹ کی مراعات کمیٹی سے رجوع کر کے رمیش بدھوری کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جانی چاہیے۔ پارلیمنٹ کے گزشتہ مانسون سیشن کے دوران عام آدمی پارٹی کے دو ارکان کو ایوان میں نعرہ بازی کے الزام میں ایوان سے معطل کر دیا گیا۔ اسپیکر لوک سبھا اوم بِرلا کو لوک سبھا کا وقار بحال کرنے کے لیے رمیش بدھوری کو کڑی سزا دنیا ضروری ہے۔ اس کے بر عکس وہ ان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ پارلیمنٹ میں بدھوری کے قابل اعتراض جملوں پر حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے مرکزی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے معافی چاہ لی لیکن دوسرے سارے قائدین بدھوری کی حمایت پر اُ تر آئے ہیں۔ معافی اس وقت قابل قبول ہو سکتی ہے جب انسان غصہ میں کچھ کہہ دیتا ہے۔ اس کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہو جاتا ہے۔ لیکن یہاں معاملہ اس نوعیت کا نہیں ہے۔ رمیش بدھوری نے جان بوجھ کر دانش علی کو نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے یکے بعد دیگر مغلظّات بکے ہیں۔ یہ کوئی اتفاقی بات نہیں تھی بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ماحول کو اپنی شرانگیزی سے بدھوری نے گرمایا ہے۔ اس اعلانیہ گالی گلوچ کے بعد بھی ان سے ہمدردی جتائی جا رہی ہے اور ان کو یہ کہہ کر کلین چِٹ دی جا رہی ہے کہ دانش علی کے اُکسانے کی وجہ سے انہوں نے یہ ناشائشہ الفاظ ادا کیے۔ پارلیمنٹ کے کچھ اصول اور ضوابط ہیں۔ اختلاف رائے رکھنے کا ہر رکن کو اختیار ہے۔ کسی پر تنقید بھی کی جائے تو اس کا بھی ایک طریقہ ہو تا ہے۔ لیکن یہاں صاف طور پر کھلی غنڈہ گردی کا مظاہرہ کر تے ہوئے بدھوری نے دانش علی کے خلاف جو لعن طعن کی وہ نہ ان سے اختلاف رائے کوظاہر کرتا ہے اور نہ ان کے بیان پر تنقید کے زمرے میں آتا ہے بلکہ یہ ایک واضح دھمکی تھی۔ اسی لیے دانش علی صاحب نے کہا کہ ایوان کے اندر ان کی ماب لینچنگ ہو چکی ہے اور اب باہر ان کی ماب لینچنگ کی جا رہی ہے۔ رمیش بدھوری نے ان پر فقرے کستے ہوئے ایوان میں یہ بھی کہاتھا کہ وہ دانش علی کو باہر دیکھ لیں گی۔ اب گودی میڈیا کے ذریعہ ان کو بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لوک سبھا کے اسپیکر رمیش بدھوری کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے دانش علی کو ہی موردالزام ٹھہراتے ہوئے ان کے خلاف تادیبی کارروائی کردیں۔ طاقت کے نشے میں بی جے پی حکومت دانش علی کو ہی پارلیمنٹ سے باہر کرسکتی ہے، لیکن رمیش بدھوری جیسے بد قماشوںکو بے لگام چھوڑ دیا جائے تو آنے والے دنوں میں پارلیمنٹ میں ایسے بد بختانہ واقعات مزید ہوتے رہیںگے۔
اس سارے تنازعہ میں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ لوک سبھا میں بہوجن سماج پارٹی کے رکن کنور دانش علی کے ساتھ جو اہانت آمیز سلوک ہوا ہے یہ صرف ان کا انفرادی معا ملہ نہیں ہے۔ بی جے پی کے رکن رمیش بدھوری نے دانش علی کے حوالے سے ہندوستان کے سارے مسلمانوں کو گالی دی ہے۔ اس کی یہ بے ہودگی کا مقصدمحض دانش علی کو ذہنی تکلیف دینا نہیں تھا بلکہ اس کے پس پردہ مسلمانوں کو اپنی گھٹیا سوچ کے ذریعہ کوفت میں مبتلا کرنا تھا۔ چناچہ جب سے یہ سانحہ ہوا ہے صرف دانش علی ہی نہیں بلکہ اس ملک کے سارے مسلمان اپنے آپ کو ایک اضطرابی حالت میں دیکھ رہے ہیں۔ ملک کی چودہ فیصد آبادی رکھنے والوں کے ایک عوامی نمائندہ کو جو راست طور پر امروہہ کی پارلیمانی نشست سے جیت کر لوک سبھا تک پہنچا ہے ، اُ سے اگر اسی ایوان میں دہشت گرد، کٹوا، آتنک وادی، اُگراوادی ،ملّااور بھڑوا جیسے زہریلے الفاظ اس کے متعلق سننے کو ملیں تو اس کی دل کی کیفیت کاکیا حال ہو گا، اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ کنور دانش علی، رمیش بدھوری کی اس ذلیل حرکت کوبرداشت نہیں کرسکے اور وہ سکتے میں آ گئے۔ وہ اس غیر متوقع سانحہ پر اب بھی مغموم ہیں اور جب بھی کوئی صحافی ان سے کچھ پوچھتا ہے، ان کے آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ انہوں نے پارلیمنٹ سے مستعفی ہونے کا بھی ارادہ ظاہر کردیا ہے۔ ان کے کرب اور درد کو سارے ہندوستانی اور خاص طور پر مسلمانوں کو محسوس کرنا چاہیے۔ اگر وہ لوک سبھا سے استعفیٰ دیتے ہیں تو اس سے فرقہ پرستوں کی جیت ہو گی۔ ان کو دندان شکن جواب دینے کے لیے دانش علی صاحب کو لوک سبھا سے استعفیٰ دینے کے بارے میں اپنے دل سے یہ خیال نکال دینا چاہیے۔ اس کے برعکس وہ اسپیکر لوک سبھا پر دباﺅ ڈالیں کہ وہ رمیش بدھوری کو ان کے غیر پالیمانی رویہ کی وجہ سے لوک سبھا سے فوری معطل کردیں اور سارے شواہد کی بنیاد پر ان کی لوک سبھا کی رکنیت ختم کردیں۔ یہ کام اگر لوک سبھا کے اسپیکر نہ کریں تو دانش علی صاحب صدرجمہوریہ سے رجوع ہوں اور ان کی یہ ذ مہ داری ہے کہ دستوری سربراہ ہونے کے ناطے بدھوری کے خلاف کارروائی کریں۔ اس وقت ساری اپوزیشن پارٹیاں دانش علی کے ساتھ اظہار یگانگت کر رہی ہیں۔ کانگریس کے قائد راہول گاندھی نے واقعہ کے فوری بعد دانش علی کے گھر جاکر ان کی ہمت بندھائی ہے اور کہا کہ سارا ملک ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ وہ اس معاملے اپنے آپ کو اکیلے نہ سمجھیں۔ دانش علی کے تئیں جس نفرت کا اظہار رمیش بدھوری نے کیا اس میں دانش علی کا مسلمان ہونا اہمیت رکھتا ہے۔ اس لیے یہ ماننا پڑے گا کہ ہندوستان میں اب ”اسلاموفیوبیا “کی لہر پورے زوروں پر چل رہی ہے۔ اسلام دشمنی اور مسلم دشمنی سر چڑھ کر بول رہی ہے۔ کل تک بند کمروں میں مسلمانوں کے خلاف زہر اُگلا جاتا تھا۔ پھر چوراہوں اور بازاروں میں مسلم دشمنی کے بدترین مظاہرے ہوئے ۔ اب ملک کی پارلیمنٹ میں ایک معزز رکن کو بھی اسلاموفوبیا کا شکار ہونا پڑ ا ہے۔ اس مسلم دشمنی کو لگام دینے کے لیے ملک کے مسلمانوں کو اپنا ایک لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔ ملک میں ایک ایسا بیانیہ (Narrative) مسلمانوں کے خلاف تیار کیا جا رہا ہے کہ ملک کے دیگر طبقوں کے سامنے ان کی شبیہ کو اتنا مسخ کرکے رکھ دیا جائے کہ انہیں ہر مسلمان دہشت گرد، کٹوا ، ملّا اور آتنک وادی نظر آئے۔ پارلیمنٹ میں ایک مسلم رکن کے خلاف ہونے والی اس مجرمانہ حرکت پر مسلم قائدین صرف بیان بازی کریں گے یا قراردادوں کو منظور کرکے بری الذمہ ہوجائیں گے تو آنے والے دنوں میں حالات اس قدر خطرناک ہوجائیں گے کہ دیگر مسلم ارکان پارلیمنٹ اور ارکان اسمبلی کے ساتھ مسلم قائدین و علماءکو بھی ایسی گالیاں سننے پر مجبور ہونا پڑے گا ۔ اس لیے رمیش بدھوری کے خلاف قانونی کارروائی ہونے تک مسلمانوں کو اپنا احتجاج جاری رکھنا چاہیے۔٭٭

a3w
a3w