طنز و مزاحمضامین

پانچ کروڑ مقدمات

محمد نعیم الدین خطیب

اخبار پڑھتے پڑھتے ایک سرخی پرہماری نظر جم سی گئی ”ملک کی عدالتوں میں زیرالتواء مقدمات کی تعداد پانچ کروڑ“ مرکزی وزیر موصوف کا بیان چھپاتھا۔ ہمارا ملک گزشتہ آٹھ دس سالوں میں ہر معاملے میں ترقی کررہا ہے۔ چاہے وہ بھوک کا معاملہ ہو، جمہوری قدروں کے زوال کا معاملہ ہو، تعلیم کی خواہش مند بیٹیوں کو کالج سے نکالنے کا معاملہ ہو، زنا اور قتل کے مجرموں کوعام معافی دینے کا معاملہ ہو، مدرسوں،کالجوں،یونیورسٹی یا عام آدمی کے مکانات سرکاری نگرانی میں ڈھانے کا معاملہ ہو،قلعہ کی فصیل سے جھوٹ بولنے کا معاملہ ہو، مہنگائی،بیروزگاری، انصاف میں دیری ہو، یا کرپشن کی دن دونی رات چوگنی ترقی کا معاملہ ہو، ہرمعاملے میں ہمارا گراف اوپر ہی اٹھتا جارہا ہے،وزیر موصوف نے مقدمات کی تعداد میں اضافہ اورترقی کے راز سے پردہ ہٹاتے ہوئے کہا کہ ملک میں خواندگی کی شرح بڑھ رہی ہے، لوگ قانون سے زیادہ سے زیادہ واقف ہورہے ہیں، اس لیے لوگ زیادہ سے زیادہ معاملات عدالت میں لارہے ہیں۔ تعلیمی ترقی‘ اتحاد، مل جل کررہنے، ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کرنے کی بجائے لڑائی جھگڑے اورمقدمات میں اضافہ کرتی ہے۔ اس نئے نظرئیے کورواج دینے کی ضرورت ہے تاکہ عدالتوں میں ججوں کی کمی، سرکاری ایجنسیوں کی جانب داری، سرکاری دہشت گردی اور فرقہ پرستی کوتعلیمی ترقی کے ماسک کے پیچھے چھپا یا جاسکے۔ کورونا نے سرکار کو یہ سبق دیا ہے کہ ہرناکامی کوچھپانے کے لیے ایک ماسک ہوتا ہے۔ اس ماسک کوصحیح یاغلط طریقے سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ آزادی کی لڑائی کے وقت دیش سے غداری اورانگریزوں سے وفاداری کرنے والے بھی دیش بھکتی کے ماسک اوڑھ اوڑھ کراپنے پوروجوں (اباواجداد)کی غداری کو ڈھانکنے کی کوشش کررہے ہیں۔ پچاس سال تک ترنگے سے غداری کرنے والے ڈی پی پر ترنگا لہرا کر خود کو دیش بھگت سمجھ رہے ہیں۔ ہم بھارتی بڑے خوش نصیب ہیں کہ ہمارے دیش میں پانچ کروڑ مقدمات جاری ہیں ورنہ دنیا کے نقشے میں ایسے درجنوں دیش ہیں جن کی کل آبادی بھی پانچ کروڑ نہیں ہے۔ اندھ بھکتوں میں اس ترقی کو لے کر بڑا جوش ہے۔ اس جوش میں وہ مہنگائی، کرپشن،کسانوں اوربے روزگاروں کی خودکشی کوبھولنا چاہ رہے ہیں اوربے تحاشہ چورچوکیدار زندہ باد کے نعرے لگارہے ہیں۔ ملک میں کئی ایک ایسے مقدمے ہیں جن میں درجنوں فریق، وکیل، گواہ کئی ججس اورسینکڑوں پولیس والوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر ہم جیسے مفلس سوچ رکھنے والے چھوٹے لوگ چھوٹا سوچتے ہوئے ہر مقدمے کے متاثرین دس لوگ فرض کرلیتے ہیں تودیش کی ترقی پرناز کرتے کرتے ہماری گردن زراف سے بھی زیادہ بلند ہوجاتی ہے۔ یعنی کل پچاس کروڑ کی آبادی عدالتوں کے چکر لگارہی ہے، اتنی آبادی توبراعظم یوروپ کی بھی نہیں ہے۔ یعنی دیش کا گورو(فخراور وقار)بڑھ رہا ہے دیش وشواگروبننے جارہا ہے۔ ان دس متاثرین میں مقدمہ لڑنے والے دونوں فریقوں کے دو وکیل،حج صاحب، فریقین کے ساتھ آنے والے تفریحی وقانونی مددگار دوست،فریقین کی بیویاں (ان کی تعداد زیادہ بھی ہوسکتی ہے کیوں کہ تعدد ازواج کا مقدمہ بھی زیرالتواء ہے)فریقین کے ماں باپ،بھائی بہن،ساس سُسر،عدالتوں کے قریب تھوک کے بھاؤ میں ملنے والے جھوٹے گواہ، پان، بیٹری،سگریٹ اورگٹکے کے اسٹال والے، کمپیوٹر اور زیراکس مشین والے، مقدمات کے کاغذات تیارکرنے والے، بانڈ والے،حج صاحب کے سامنے کھڑے رہنے والے اہلکار،فریادی حاضرہو کا نعرہ لگانے والے، عدالتی اہلکار،مقدموں کی تلاش میں گھومنے والے بے روزگاروکیل صاحبان وغیرہ وغیرہ۔ غرض کہ پانچ کروڑ مقدمات کی برکت سے ملک کی اچھی خاصی آبادی پیٹ بھررہی ہے۔ ابھی تو ہم نے لا کالج چلانے والے شکشن سمراٹ،کالج کی فیس بھرنے والے ماں باپ، سچے جھوٹے سرٹیفکیٹ دینے والے ذمہ داران،ان سب کو لانے لے جانے والے آٹورکشہ ڈرائیور، مقدمے میں کامیابی کے تعویز گنڈے دینے والے لنگی شاہ بابا، اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کراور بچوں کوبھوکامارکروکیلوں کی فیس جمع کرتے لواحقین،مقدمے کی کامیابی کے لیے آیت کریمہ کی ورد کرتی گھریلو عورتیں اور کئی متاثرین کا ذکرکیا ہی نہیں۔ اس طرح پانچ کروڑ مقدمات سے متاثر ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں سوچ سوچ کردماغ ماؤف ہوجاتا ہے۔ زبان گنگ ہوجاتی ہے، آنکھیں پتھراجاتی ہیں۔ دل بیٹھنے لگتا ہے، عقل پرپتھر پڑجاتے ہیں۔ کولیسٹرول زدہ تنگ خون کی نالیوں میں خون بپھرے ہوئے سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے۔ اس طرح سوچتے سوچتے آئی سی یو میں جانے کی نوبت آسکتی ہے۔ اگرآپ آئی سی یو سے چل کرباہر آئے توٹھیک۔مرجائیں تو دوباتیں ہوں گی۔ لائف انشورنس والے آپ کے بیمے کی رقم جلددے دیں گے(یہ ناممکن ہے)یا آپ کے لواحقین بیمہ والوں پرمقدمہ ٹھوک دیں گے یعنی پھر مقدمات میں اضافہ۔ اس لیے پانچ کروڑ مقدمات کا ٹینشن مت لیجئے۔ ان مقدمات کے فیصل ہونے تک ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں رہے گا۔ جج صاحبان ریٹائرڈ ہوجائیں گے۔ وکلاء لڑلڑکرلڑنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ گواہان لب گورہی نہیں گورِگورمیں پہنچ جائیں گے، پولیس والوں کے تبادلے ہوجائیں گے۔ اس لیے خوش رہیے۔ تالی بجائیے،تھالی بجائیے۔
وہ تو اچھا ہوا ہماری جانبدارپولیس مسلمان کے مقدمات درج کرنے میں مستعدی نہیں دکھاتی۔ ورنہ ماب لنچنگ میں مارے جانے والے اخلاق احمد،جنید جیسے ہزاروں مقتولوں کے قتل کے مقدمات کا ڈھیرلگ جاتا۔ حالانکہ ماب لیچنگ کے وائرل ویڈیو میں قاتلوں کے چہرے صاف پہچانے جاسکتے ہیں۔ دہلی، گجرات،مظفر آباد اور ملک بھرمیں ہونے والے فسادات کی سنجیدگی اور ایمانداری سے تحقیقات کی جاتی تو لاکھوں فسادی جیل میں ہوتے۔ احسان جعفری (ممبر پارلیمنٹ)کی طرح زندہ جلائے جانے والے مظلوموں کے قاتل کے پیچھے پولیس پڑجاتی تو چورچوکیدار، موٹوتڑی پارپھانسی کے پھندے پرجھول رہے ہوتے۔ ہمیں اس معاملے میں پولیس کا شکر گزار ہونا چاہیے ورنہ مقدمات کی تعداد پانچ کروڑ سے زیادہ ہوتی۔ دیش بھرمیں فتنہ مچا کر، دیش کے خلاف عربوں کو بھڑکا کر،دیش کا بائیکاٹ کرانے والی فتنی شرما کی پولیس نے حفاظت توکی، لیکن اس فتنی کے خلاف احتجاج کرنے والو ں کے گھرکورٹ کیس کے باوجود ڈھادیے گئے اورقانون منہ دیکھتا رہ گیا۔ ایک مفلوک،بدحال بے روزگارباپ اگر اولاد کی بھوک مٹانے کے لیے ڈبل روٹی چراتا ہے تو قانون کے آہنی ہاتھ اس باپ تک پہنچ جاتے ہیں، لیکن اگرکوئی مالیا، نیرو ہزاروں کروڑ لے کر دیش سے بھاگ جائے تو ہماری بیچاری پولیس کتنے ملکوں کی خاک چھانتی پھرے گی۔ تیس سال سے تو ہم داؤد ابراہیم کو ڈھونڈرہے ہیں، لیکن کمبخت ملنے کو تیار ہی نہیں ہے حالانکہ اس کی پارٹیوں کی خبریں،ان پارٹیوں میں پکائے جانے والے کھانوں کی تفصیلات ہم مزے لے لے کر گودی میڈیا پردیکھ رہے ہیں۔ان واقعات سے تو یہی سبق ملتا ہے کہ ڈبل روٹی چرانے کی بجائے لاکھوں کروڑروپیہ چوری کرکے ملک سے بھاگ جائیں تاکہ عدالتوں کو مقدمات کی بھرمار سے بچاکر دیش کی سیوا کی جاسکے۔
ملک میں SMS سرکار کا ایک دورتھا۔ یہ سرکار ممی پارٹی کی سرکار کہلاتی تھی۔ اس سرکار کا سربراہ اٹھنے، بیٹھنے،کھانسنے اوربولنے کے لیے بھی ممی کی مرضی کا پابند تھا۔
اس زمانے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمانوں پرمقدمات قائم کرنے کا نیاریکارڈ بنایا گیا۔ داناؤں کا الزام ہے کہ سرکاری آفیسروں نے بڑی محنت سے ایک فرضی تنظیم کھڑی کی، جس کا مسلمانوں سے دوردور تک واسطہ نہ تھا۔ مسلمانوں نے اس تنظیم کو کبھی نہیں دیکھا۔ نہ کبھی اس میں شرکت کی۔ نہ کبھی ایک روپیہ چندہ دیا۔ نہ کوئی اس کا صدرتھا نہ کوئی ذمہ دار، نہ کوئی آفس۔ سرکار کے ذریعے گودی میڈیا پر خبرآتی کہ اس تنظیم نے فلاں جگہ بم بلاسٹ کیے۔ کسی اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلم نوجوان کو اس بم بلاسٹ کا ماسٹرمائنڈ بتایا جاتا اورمسلم نوجوانوں کی دھڑپکڑ شروع ہوجاتی۔ گودی میڈیا مسلمانوں کودہشت گردکہہ دیتا۔ سرکارہاں میں ہاں ملاتی۔ اس فرضی تنظیم کی دہشت ایسی بیٹھ گئی تھی کہ اگرکہیں پٹاخہ بھی پھوٹتا تواسے بم دھاکہ سمجھ لیاجاتا۔ مسلمان فجر میں قنوت نازلہ پڑھتے اور شام میں ممی پارٹی کے جلسوں میں شرکت کرتے۔ ہم جیسے ڈرپوک مسلمان ماسٹر مائنڈ کے خاندان سے مکمل تعلقات توڑلیتے۔ ان کے فون نمبر ڈیلیٹ کردیے جاتے۔ ہم نے تواس حجام کی دکان پربھی جانا چھوڑدیا، جہاں ماسٹرمائنڈحجامت بناتے۔ نہ معلوم پولیس کب ہمارا ماسٹرمائنڈ کے حجام سے تعلق جوڑکرہماری حجامت بنادے۔ ہم نے اس ڈرسے اولاد کو اعلیٰ تعلیم نہیں دلائی کہ کہیں پولیس اسے ماسٹرمائنڈ نہ بنادے۔ اسی فرضی تنظیم کے ہزاروں ماسٹرمائنڈکوگرفتار کرنے والی پولیس گجرات فسادات کے دوماسٹرمائنڈ کوپکڑنے میں تکلف سے کام لیتی رہی۔ بم دھماکوں کی اس دہشت سے مسلم جماعتیں، ملی فورم دہشت زدہ تھے۔ جیسے ہی کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان ماسٹرمائنڈڈکلیئرکیا جاتا۔ ملی تنظیمیں اسی وقت اخبارات کے دفتروں کے چکر لگاتی اور پریس نوٹ کے ذریعے دہائی دیتی کہ اس اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کا ہماری تنظیم سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ ملت کی مظلومیت کی دہائی دینے والی تنظیمیں اس نوجوان اوراس کے خاندان کوبے یارومددگار چھوڑدیتیں۔ آج کئی سال بعد میں کئی نوجوان عدالتوں میں بے گناہ قرار پائے اور جیل سے رہا ہوئے ہیں۔ ان نوجوانوں کا استقبال کرنے والوں میں ممی پارٹی کے بعض بے شرم لوگ بھی شریک ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ آج بھی مسلمان ممی پارٹی کے وفادار بنے ہوئے ہیں۔ ان نوجوانوں کی رہائی میں ایک قدیم ملّی تنظیم کا بڑا ہاتھ رہا ہے، مگران بے گناہ نوجوانوں کی رہائی پرسبھی ملّی تنظیمیں بغلیں بجارہی ہیں۔
مسلمانوں کو حکومتوں سے شکایت رہی کہ حکمراں انھیں نظرانداز کرتے ہیں، لیکن ہر حکومت نے مقدمات دائر کرنے کے معاملات میں مسلمانوں سے فراخ دلی کا مظاہرہ کیا ہے۔ حکومت چاہے ممی پارٹی کی ہو یا بھیا کی ہو، دیدی ہویا بوا، انا ہویا گناّ۔ ہر حکومت نے دل کھول کرمقدمات دائر کیے ہیں اورمقدمات میں مسلمانوں کی منہ بھرائی کا خاص خیال رکھا ہے۔ ان سب کی عنایات کی دین ہے کہ جیلوں میں سب سے زیادہ بے گناہ مسلمان قید ہے۔ جھوٹے کلب والوں نے مسلمانوں پر مقدمات دائرکرنے میں تمام ہی حدود توڑدیے ہیں۔ یونیورسٹی قائم کرنے والے کے خاندان بھرکو جیل میں بندکرکے اس کے خلاف مقدمات کی سنچری مکمل کرلی جاتی ہے تاکہ کوئی سرپھرا مسلمان‘ تعلیمی انقلاب کے بارے میں نہ سوچ سکے۔

صدیق کپن ہویا کلیم صدیقی، زبیر ہو یا خالد سب کو جیلوں میں ٹھوس دیاجاتا ہے۔ کرونا کے نام پرکئی کئی مہینوں تک ان کی ضمانتوں پرغور بھی نہیں کیا جاسکتا، لیکن مساجد کو مندر بنانے کے دعوے کوفوراً سنوائی کے لیے قبول کرلیا جاتا ہے۔ تاریخ پہ تاریخ کے ذریعے وقت گزاری کے بعدبعض مقدمات کوخارج کردینا، اسے انصاف کہا جائے یا نا انصافی اس پر ہماری لاعلمی کچھ کہنے سے قاصرہے۔ دیگر مذاہب کے لوگ مقدمات میں مسلمانوں کی قانونی مددنہ کرسکیں، اس لیے تیستا سیتلواد جیسوں کوجیلوں میں ٹھونس دیاجاتا ہے اوربلقیس کے زاینوں اورقاتلوں کوآزاد کردیاجاتا ہے۔ قانون کی اس بے بسی پر بے کلی سی ہوتی ہے۔ اگر پوری ایمانداری سے تحقیقات کرکے بے گناہ مسلمانوں کے خلاف مقدمات واپس لیے جائیں تو عدالتوں میں زیرالتواء مقدمات کی تعدادآدھی سے کم ہوسکتی ہے، لیکن کوئی بھی حکومت پانچ کروڑ مقدمات کی یکسوئی نہیں چاہتی۔ اس لیے گناہ گاروں کوچھوڑ کر بے گناہوں پرمقدمات کی بھرمار کردی جاتی ہے، یہاں تک کہ گھروں میں نماز پڑھنے والے نمازیوں پرمقدمات ٹھوک دیے جاتے ہیں اوربھیا پارٹی کے 36 ایم ایل اے منہ میں مونگ ڈالے تماشہ اہل مسلم دیکھتے ہیں۔
گزشتہ سات آٹھ برسوں میں جھوٹے کلب نے مقدمات کی تعداد کم کرنے کے لیے ایک مشین بنائی ہے۔ زانی،قاتل،گھپلے باز، رشوت خور، ٹیکس چور، غاصب سیاست دان اس مشین میں اپنے دغ دھبے دھوکر اپنے خلاف مقدمات بند کراسکتے ہیں۔ ہمارے علاقے کے ایک سیاسی بازیگرگھپلوں میں ایسے پھنسے کہ سینکڑوں تالابوں کا گھوٹالے زدہ پانی بھی ان کے گھپلوں کے داغ نہ دھوسکا۔ انھوں نے جھوٹے کلب کی اس مشین میں 80گھنٹے گزارے اور اپنے داغ دھبے دور کرکے جھوٹے کلب کی عصمت کو داغدار کرکے واپس لوٹ آئے۔ دورات کے اس بدنام رومانس سے بوکھلائے جھوٹے کلب نے اس سیاسی لیڈرکی ڈھائی سالہ سیاسی شادی توڑدی۔ کہا جاتا ہے کہ اس شادی کوتوڑنے کے لیے ہرباراتی کو پچاس کھوکے (ایک کھوکا=پچاس کروڑ) دیے گئے۔ غرض کہ ہوٹل تاج ہو یا گوہاٹی باراتیوں کے بڑے عیش رہے۔ البتہ اس شادی نے سیاسی مقدمات میں اضافہ کردیا۔ عدالتوں کودیگر اہم مقدمات کی بجائے اس شادی کے مقدمات کووقت دینا پڑا۔ شادی اورطلاق کے اس ڈرامے میں وکیلوں کی چاندی ہوگئی سناہے کہ اس مقدمے میں وکیل کروڑوں کمارہے ہیں۔
پانچ کروڑ مقدمات کوزیرالتواء رکھنے کے لیے بڑی منصوبہ بندی،حکمت اوربے عملی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں کرونا کی حصہ داری سنہری الفاظ میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ اس کے علاوہ وکیلوں کو طرح طرح کی دلیلیں دینا ہوتی ہیں۔ کبھی عین وقت پرغیر حاضری دکھانی ہوتی ہے۔ کبھی گواہ کی بیماری کا بہانہ ہوتا ہے۔ کبھی موکل کو شریک دواخانہ یا بیمار بتایا جاتا ہے۔ کبھی وکیل صاحب کو کیس اسٹڈی کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ کبھی حکومت جوابی حلف نامہ داخل کرنے میں کاہلی دکھاتی ہے۔ کوئی حکومتی حلف نامے میں ترمیم کی درخواست کی جاتی ہے۔ یہ سب ممکن نہ ہوتو تاریخ پہ تاریخ لی جاتی ہے۔ اپنی سہولت کے حساب سے مقدمے کوربرکی طرح کھینچا جاتا ہے۔ نیت خراب توبہانے ہزار۔ آجکل ڈیجیٹل دورہے۔ پیپر لیس کے ہرجگہ نعرے سنائی دے رہے ہیں۔ ہرجگہ ڈیجیٹل کرنسی پھل پھول رہی ہے، سوائے رشوت ستانی کے میدان میں۔ یہاں صرف کاغذ کی کرنسی چلتی ہے۔ اس لیے رشوت خورافسران اور لیڈران کے دفتروں، بستروں،صوفوں،الماریوں سے کرنسی ابل رہی ہے۔ پیپر لیس کا معاملہ اسی طرح پروان چڑھتا جائے تو کاغذانڈسٹری کا دیوالیہ نکل جائے گا، لیکن پانچ کروڑ مقدمات کا غذانڈسٹری کے لیے نئی زندگی ثابت ہورہے ہیں۔ من چاہے دفعات والی ایف آئی آر، ملزم کے شناختی کاغذات،وکالت نامہ، بڑے ملزمین کی طبیعت کی ناسازی کے سچے جھوٹے ای میل، پولیس کی تفتیشی رپورٹ، عدالتی کارروائی کے نوٹس، پیشی بڑھائے جانے کی درخواست،دوران مقدمہ ضمنی مقدمات کا اندراج، متعلقہ محکموں کی تفصیلی رپورٹ وغیرہ وغیرہ کے علاوہ ججس کا فیصلہ،دوران مقدمہ اورفیصلہ پراخبارات میں ہونے والے تبصروں کی لکھائی کے لیے لگنے والے صفحات اوراخباری کاغذات ان سب کوملاکر ہرمقدمے پرہزاروں اوربعض مقدمات پرلاکھوں کاغذات خرچ ہوجاتے ہیں۔ چھوٹے لوگ چھوٹی سوچ کے مصداق ایک مقدمے پردوہزارکاغذات بھی فرض کرلیں توپانچ کروڑمقدمات میں دس ہزار کروڑ کاغذات لگ جاتے ہیں۔
کوئی بھی مقدمہ بغیر وکیل کے نہیں لڑاجاسکتا اوروکیل بغیر فیس کے نہیں مل سکتے۔ مفت میں مشورہ دینے والے آپ کوہزاروں مل جائیں گے، لیکن مفت میں قانونی مشورہ دینے والے وکیل چراغ لے کر ڈھونڈنے پربھی نہیں ملتے۔ ہماری بیوی ہم سے کچن کے معاملے میں بھی مشورہ طلب کرلیتی ہے۔ ہم بلاچوں وچراں اپنا غلط مشورہ دے دیتے ہیں جسے فوراً ٹھکرادیا جاتا ہے۔ وکیل صاحب اپنی بیوی کومفت میں مشورہ دیتے ہیں کہ نہیں یہ تحقیق طلب معاملہ ہے۔ معمولی مقدمات کی فیس بھی ہزاروں میں ہوتی ہے۔
بڑے مقدمات کے لیے بڑے وکلاء کی ضرورت ہوتی ہے، جن کی فیسOn Record لاکھوں میں ہوتی ہے، آف ریکارڈ وکیل اور موکل ہی جانتے ہیں۔ ہر پیشی سے پہلے تمام گھریلو اخراجات دواؤں اورگولیوں سے خرچ بچاکر وکیل کی فیس جمع کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ماسٹرمائنڈ کے نام پرگرفتار کئی بے گناہوں کے خاندان بے جا مقدمات لڑلڑکرقلاش ہوچکے ہیں۔ ہرپیشی پرملز م کے دوست، رشتہ دار ملزم کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے سینکڑوں روپیہ آٹو، بس، گاڑیوں میں خرچ کرتے ہیں۔ پیشی اور ریکارڈ کے انتظار میں چائے، گٹکھے اورسگریٹ کے دورچلتے ہیں۔ مختلف کاغذوں اوردستاویزکی زراکس‘ وغیرہ پر ہزاروں خرچ ہوجاتے ہیں۔ سیاسی چمن لالوں کے مقدمات، حساس وفرقہ وارانہ مقدمات کے دوران سخت پولیس بندوبست ہوتا ہے جس میں کروڑوں کی ہیرا پھیری ہوجاتی ہے۔ ان تمام اخراجات کی جمع‘ منفی، تقسیم اورضرب شاید سوپرکمپوٹر بھی کرنے میں ناکام ہوجائے۔ پے درپے بے گناہوں پرمقدمات نے ملت کی معیشت کوبھی نقصان پہنچایا ہے۔ معاشی کمزوری کے سبب مقدمات لڑنے سے معذور بے گناہوں کے مقدمات اجتماعی طورپر لڑے جارہے ہیں۔ ان سب کے باوجود ملک میں جھوٹے کلب کی سرکار ملک کے زاینوں اورقاتلوں کو عام معافی دے کر مسلمانوں کے کیے کرائے پرپانی پھیرکر حق اورانصاف کے ساتھ ساتھ قانون اورعدالت کا بھی گلا گھونٹ دیتی ہے۔ نربھیا زنا معاملے کو لے کر جلائی جانے والی تمام موم بتیاں بلقیس بانو کے معاملے میں بجھ جاتی ہیں۔ سٹرکیں ویران ہوجاتی ہیں۔ حقوق نسواں کے لیے گلا پھاڑپھاڑچلانے والی مہیلا تنظیموں کوسانپ سونگھ جاتا ہے۔ جہد کار بے ہوشی کی نیند سوجاتے ہیں۔ بلقیس بانواوراس کی قوم کواکیلے ہی خودکی لڑائی لڑنی پڑتی ہے۔
اتنے سارے سچے جھوٹے مقدمات کا سامنا کرنے والی قوم کے پاس تووکیلوں کی فوج ہونی چاہیے تھی، لیکن ملت میں ماہراور قابل وکیلوں کی سخت قلت ہے۔ اس لیے مسئلہ مسلمانوں کے داڑھی کا ہویا ٹوپی،حجاب کا ہو یا تین طلاق یا حلالہ کا، بابری مسجد کی پیروی ہو یا گیان واپی،قرآن کی آیات پر پابندی کا کیس ہویا ایک سے زائد شادی کا، کھلے میدان میں نماز پڑھنے کا مسئلہ ہویا عیدگاہ میں، ہرجگہ ہمارے کیس کی پیروی پوری پوری دیانتداری اورایمانداری سے کرتے دیگر لوگ ہی نظرآتے ہیں۔ یہ اوربات ہے کہ تمام ثبوتوں اورگواہیوں اوردستاویزوں کے باوجود عدالت آستھا کی بنیاد پرفیصلہ کرکے مسلمانوں سے ناانصافی کرجاتی ہے۔ لاکھوں روپیہ تمباکو اورگٹکھے چباکر تھوکنے والی، شادی میں کروڑوں روپیہ لٹانے والی،قوالیوں اور مشاعروں، کرکٹ اورکشتی کے دنگلوں پرلاکھوں روپیہ انعامات دینے والی، سیاسی چمن لال کی سالگرہ کے پوسٹروں،کیک اور پٹاخوں پرکروڑہا روپیہ پھونکنے والی قوم اپنے ہاں قابل وکیل پیداکرنے سے قاصر ہے۔ قوم ملت کے زیرانصرام کسی لا کالج کی موجودگی سے ہم اپنی کم علمی کے باعث لاعلم ہیں۔ ملک میں ناانصافی ختم کرنے اور قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ملت کے نونہالوں کوججس کی پرکشش کرسیوں کی طرف راغب کیا جائے۔ ان حالات میں ملت قابل وکیل تیارکرنے کے ادارے توکیا قائم کرتی، ہمارے چھوٹے چھوٹے تعلیمی اداروں، اسکولوں میں اختلاف اورمقدمہ بازی کی بھرمار ہے۔ ڈونیشن کے نام پرلوٹا گیا اساتذہ کا پیسہ اسکولی کی بلڈنگ اورترقی کی بجائے وکیلوں، عدالتوں اوربچولیوں کی نذر ہورہا ہے۔
جانبدار حکومتوں کے ذریعے لادے گئے مقدمات،اسکولوں،سوساسیٹوں کے جھگڑے، زمین جائیدار کے معاملے ہی کیا کم تھے کہ ملت میں طلاق اورخلع کے مقدمات بڑھنے لگے، گھریلو اور خاندانی جھگڑے شرعی دارالقضاء یا فیملی کونسلنگ میں سلجھانے کی بجائے عدالتی چورا ہے پر لائے جانے لگے۔ عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار، سماعت کے لیے وقت کی قلت، بعض وکیلوں کے تاریخ پہ تاریخ حاصل کرنے کے پینترے سے خاندانی جھگڑے اورجدائیاں بڑھتی گئیں۔ عدالتوں کے احاطے میں حیران،پریشان سرگرداں، برقعے ہی برقعے نظر آنے لگے۔ جھوٹے کلب کی حکومت کومسلم پرنسل لا میں مداخلت کا جوازمل گیا۔ خود کی بیوی کی زندگی حرام کرنے والا چورچوکیدار مسلم حلالہ پر گفتگو کرنے لگا۔ اب بھی وقت ہے کہ جلسے‘ جلوس،شعلہ بیان تقریر کے علاوہ عملی اقدامات،سروے،بازآبادکاری اورزمینی کام کیے جائیں، عائلی قوانین سے مکمل آگاہی کرائی جائے۔ کسی پرمقدمہ دائر کرنے سے پہلے قلندر شاہ کی دوباتیں سن لیجئے۔ پہلا یہ کہ جب دو موکلوں کی قسمت بگڑتی ہے تودو وکیلوں کی قسمت بدلتی ہے۔ عدالتی جنگ وکیل کی دلیلوں موکل کے درہموں سے جیتی جاتی ہے۔ دولت کے لیے مقدمہ لڑنے والوں کی دولت وکیلوں کی جیب میں چلی جاتی ہے۔
پانچ کروڑمقدمات پرمقدمہ لکھنے کی پاداش میں ہوسکتا ہے کہ ہم پر بھی مقدمہ دائرکردیا جائے،کیونکہ ……ہے تو ممکن ہے۔٭٭