مندرا ہرکوٹیا۔ کپکوٹ،اتراکھنڈ
کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ 21ویں صدی کے ڈیجیٹل انڈیا میں ایک ایسا گاﺅں ہے، جہاں کسی بیمار مریض کے درد کو دور کرنے کے لیے لوہے کی گرم سلاخوں کا استعمال کیا جاتا ہے؟ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی بیماریاں ہیں، جن کا علاج اسی طرح کے غیر سائنسی طریقوں سے دیسی علاج کے نام پر کیا جاتا ہے۔ یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ اس گاﺅں میں پرائمری ہیلتھ سنٹر تک کی کوئی سہولت نہیں ہے۔ اتراکھنڈ کے باگیشور ضلع سے 45 کلومیٹر دور کپکوٹ بلاک میں واقع ہرکوٹ گاﺅں کے لوگ ہر روز اس تلخ حقیقت سے روبرو ہوتے ہیں۔ ہسپتال کی کمی سے دوچار اس گاﺅں کے لوگ اسی طرح کے ٹوٹکوں، جادو ٹونوں ، جھولا چھاپ اور غیر تربیت یافتہ ڈاکٹروں کے سہارے نسل در نسل علاج کروانے پر مجبور ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جلی ہوئی چمڑی کا درد تو چند دنوں میں ٹھیک ہو جائے گا لیکن آزادی کے 75 سال بعد بھی بنیادی سہولیات کی کمی کا درد کیسے دور ہو گا؟ہرکوٹ گاﺅں سے قریب ترین پرائمری ہیلتھ سنٹر لوہارکھیت گاﺅں میں ہے، جوہرکوٹ سے پانچ کلومیٹر دور ہے۔ جہاں تک پہنچنے کے لیے زیادہ تر پیدل چلنا پڑتا ہے، کیونکہ نہ تو راستہ درست ہے اور نہ ہی وہاں پہنچنے کا کوئی ذریعہ وقت پر ملتا ہے۔ شدید سردی یا برف باری کے دنوں میں جب پوری سڑک برف سے ڈھکی ہوتی ہے تو ایسی صورت حال میں کسی قسم کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا۔ ایمرجنسی میں بھی گاﺅں والے اپنے بیمار رشتہ داروں کو بلاک اسپتال کپکوٹ یا ضلع اسپتال باگیشور لے جانے کے قابل نہیں ہوتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں بچے کی پیدائش کے درد سے گزرنے والی ایک خاتون اور اس کے اہل خانہ کو جس صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا تصور کرنا مشکل ہے۔ اس حوالے سے گاﺅں کی رہنے والی پریما دیوی اپنا تجربہ بتاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ جب میں حاملہ تھی تو اس وقت مجھے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔پرائمری ہیلتھ سنٹر میں مناسب سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے مجھے ضلع ہسپتال جانا پڑا جو میرے لیے بہت تکلیف دہ تھا۔
دوسری طرف بزرگ موہنی دیوی کا کہنا ہے کہ اگر کسی خاتون کی طبیعت اچانک بگڑ جائے تو اسے راتوں رات ضلع اسپتال باگیشور یا الموڑہ جانا پڑتا ہے کیوں کہ پرائمری ہیلتھ سنٹرمیں علاج کے زیادہ ذرائع دستیاب نہیں ہیں۔ دیگردنوں میں گھر والے کسی نہ کسی طریقے سے گاڑی کا انتظام کرتے ہیں لیکن برف باری کے اس موسم میں جب کسی گاڑی کا جانا ممکن نہیں ہوتا تو پھرلوگ خدا کے بھروسے رہتے ہیں۔ ہسپتال نہ ہونے کی وجہ سے اپنی والدہ سے محروم ہونے والی میگھا کا کہنا ہے کہ اس کی والدہ اکثر بیمار رہتی تھیں لیکن گاﺅں میں ہسپتال نہ ہونے کی وجہ سے وقت پر مناسب علاج شروع نہیں ہو پایاتھا۔ وہاں پہنچنے سے پہلے ہی اس کی موت ہوگئی کیونکہ بڑا اسپتال کافی دور تھا۔ گاﺅں میں پی ایچ سی کی سہولت ہوتی تو علاج بروقت شروع ہو جاتاتو وہ آج زندہ ہوتی۔گاﺅں میں پرائمری ہیلتھ سنٹر نہ ہونے کا خمیازہ بزرگوں کو بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ بزرگ ہری سنگھ کا کہنا ہے کہ گاﺅں میں پی ایچ سی نہ ہونے سے لوگوں کی صحت بہت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت سے معمر افراد بڑھاپے کی وجہ سے ٹھیک سے چل نہیں پاتے، اس لیے انہیں ڈولی میں لے کر جانا پڑتا ہے۔ دوسری جانب ایک لڑکی بینا کا کہنا ہے کہ کئی بار حیض کے دوران پیٹ میں درد جیسا مسئلہ ہوتا ہے، لیکن گاﺅں میں صحت مرکز کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کو کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پی ایچ سی کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے آشا کارکن کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے۔ گاﺅں کی آشا کارکن بسنتی دیوی کا کہنا ہے کہ بنیادی مرکز صحت کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے نوزائیدہ بچوں کی ٹیکہ اندازی سے لے کر حاملہ خواتین کے پرائمری معائنے تک کپکوٹ یا ضلع اسپتال باگیشور جانا پڑتا ہے، جو کہ نقل و حمل کے نقطہ نظر سے بہت مشکل ہے۔انہوں نے کہا کہ پی ایچ سی کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے وہ حکومت کی طرف سے صحت سے متعلق سامان بروقت دستیاب نہیں کر پاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ضرورت کے وقت گاﺅں والوں کو فراہم نہیں کر پاتی ہیں۔یوں تو گاﺅں میں ایک پرائیویٹ ڈاکٹر کے آنے سے لوگوں کو کچھ حد تک صحت کی سہولت میسر آتی ہے لیکن وہ بنیادی طور پر دوسرے گاﺅں کھاتی میں رہتے ہیں اور ہفتے کے کچھ دنوں میں گاﺅں آ کر بیماروں کا علاج کرتے ہیں۔ لیکن بعض اوقات ایمرجنسی میں بھی وہ دستیاب نہیں ہوپاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پورے ہرکوٹ میں ایک ہی میڈیکل ا سٹور ہے جہاں پر معمولی نزلہ و زکام کی ادویات دستیاب ہیں۔ایسے میں گاﺅں کے لوگوں کو شوگر اور دیگر سنگین بیماریوں سے متعلق ادویات کے لیے باگیشور یا الموڑہ شہرجانا پڑتا ہے۔جو معاشی طور پر کمزور لوگوں کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔ ایسے میں گاﺅں کے لوگ جڑی بوٹیوں کے ذریعے دیسی علاج پر ہی انحصار کرتے ہیں۔
اس سلسلے میںگاﺅں کی سرپنچ لکشمی دیوی بھی پی ایچ سی کی سہولیات کی دستیابی کو بنیادی ضرورت سمجھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ گاﺅں کے لوگوں کی روزی روٹی کا ایک بڑا ذریعہ مویشی ہیں ۔ ایسے میں انسانوں کے ساتھ ساتھ گاﺅں میں مویشیوں کا اسپتال ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ ساتھ ہی گاﺅں والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ گاﺅں کے بہت سے نوجوان شہروں میں رہ کر انسانوں اور مویشیوں دونوں سے متعلق ادویات کے شعبے میں کام کر رہے ہیں، ایسے میں اگر حکومت گاﺅں میں پی ایچ سی اور مویشیوں کا اسپتال کھولے تو ان نوجوانوں کو گاﺅں میں ہی روزگار مل جائے گااور حکومت کو باہر سے عملہ بھرتی کرنے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔
بہرحال ریاست میں ترقی کے نام پر لگ
اتار دوسری بار اقتدار میں آنے والے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی کی حکومت اس مسئلے کو کتنا اہم سمجھتی ہے اور کب تک اس کمی کو پورا کرتی ہے؟ یہ دیکھنا اہم ہوگا۔ اگرچہ صحت کا بہتر نظام حاصل کرنا عوام کا بنیادی حق ہے لیکن کسی بھی حکومت کی اولین ترجیح اس سہولت کو سب تک پہنچانا ہونی چاہیے۔یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ ریاست کے اس دور دراز گاﺅں کے لوگوں کو اپنے گاﺅں میں ہی طبی سہولت کب تک ملتی ہے۔