طنز و مزاحمضامین

مکتی داتا!(نجات دہندہ)

ابو متین

مکتی داتا سے مراد ”نجات دہندہ“ ہوتاہے۔ ان دنوں پی ایم مود ی کے بھگت ان کو پُرجوش اَلقاب سے نوازنے لگے ہیں۔ نیوز چینل والوں نے تو وشواگرو سے کم پرقناعت کرنا سیکھا ہی نہیں۔ اس جئے جئے کارکے ماحول میں بھگتوں میں بڑھوتری دیکھی جارہی ہے، کوئی کمی نہیں ہوپارہی ہے، ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں کا مقولہ تازہ ہوگیا ہے۔ یہاں ڈھونڈنے کی ضرورت بھی باقی نہیں رہی ہے۔ نہ بھی ڈھونڈو تو یہ القاب کانوں میں رس گھولنے آموجودہوتے ہیں۔ جیسے ماحول میں کثرت سے مچھرپیدا ہونے لگیں توناک اور منہ میں تک رس گھولنے لگتے ہیں۔ فیان کی ہوا کے باوجود سانس لینے اوربھاڑسا منہ کھول کرجمائی لینے والوں سے فائدہ اُٹھاکر دخل درمعقولات کرجاتے ہیں۔ ایساہی کچھ وقت ہم پر آن پڑا ہے۔ پانی میں رہتے ہوئے مگرمچھ سے بیرکون رکھنا چاہے گا۔ حالات سے بے خبررہ کر جیا بھی نہیں جاتا،نیوز چینل والوں کی وشواگرو کی رٹ ہضم نہیں ہوپاتی، اتنے اچھے بھلے مودی جی کو پاپی دنیا کے گرو یا استاد ورہبرماننا زیب نہیں دیتا۔ جب کہ اس عظیم دنیائے سمندر میں ایک سے بڑھ کر ایک گرو گھنٹال مگرمچھ موجود ہوں تو ان کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ ہول سیلرز کے بازار میں ری ٹیلرکی اوقات باقی نہیں رہتی۔ یہ ہول سیلرلاکھوں سروں کو اپنے کھاتے میں جوڑکر خالق کے دربار میں سرنگوں حاضرہوں گے۔ کمزور ملکوں پراپنی طاقت کا مظاہرہ کرکے وہاں کی آبادیوں کو تہس نہس کرنے والے حکمراں نشہ اقتدارمیں سب کچھ فراموش کرجاتے ہیں۔زور آورخیال کرتے ہیں کہ ہمیں محض کمزوروں پرظلم ڈھانے کے لیے یہ قوتیں ملی ہوئی ہیں ورنہ ہم ہرگزیوں اکڑنہ دکھاپاتے۔ مودی جی کی تو ابھی ابھی بلڈوزروں تک رسائی ہوئی ہے، بے قصوروں کو جھوٹے الزامات میں پھنسا کرجیل کی ہوا کھلانے کی پرلطف چالوں میں جوبات ہے یہ بڑے شکاریوں کو کہاں میسرآتی ہے۔ بلی کا چوہے کا شکار کرتے ہوئے اس کی بے بسی سے لطف لینے اور شیر کے اچانک جھپٹ کر دبوچ لینے میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔
نیوز چینلس کو ڈنڈوت کرکے اخبارات کوگلے لگانے کے سوا چارہ نہیں رہا ہے، لیکن ان نیوز چینلس کا سوریہ نمسکارکی طرح ہاتھ جوڑنے والوں کے ساتھ گٹھ جوڑبھی ایک مسئلہ ہے۔ گورنر کیرالا اپنے بھگت ہونے کا اعتراف کبھی کے کرچکے ہیں لیکن تازہ بیان میں ارچنا کا فریضہ نبھاتے ہوئے ملک کی مسلم خواتین کو مودی جی کی احسان مند قرار دیا ہے۔ طلاق کے اسلامی قانون میں مداخلت کرنے نریندرمودی کو مسلم خواتین کے مکتی داتا کے طورپر یاد رکھا جائے گا، کہا ہے۔ حکومت کے عظیم المرتبت عہدے کا پاس ولحاظ ہوتا تو کبھی یہ نہ کہہ پاتے۔اونچی پوزیشن اور اعلیٰ عہدے سمجھدار ی کی علامت ہوتے ہیں۔ غوروفکر کی اچھی سے اچھی صلاحیت ہی یہ مقام دلاتی ہے۔ تعلیم کی نعمت عام بھیڑچال سے دوررکھتی ہے۔حقیقت پسندی ان کی گھٹی میں پڑی ہونا چاہیے، یہ بھگتی اورشکتی کے پڑاؤ تو ہوا کے جھونکوں کی طرح آتے جاتے رہتے ہیں۔خدا کے دربار میں بازپرس کی یاد سامنے نہ بھی ہوتو عوام کی اکثریت اور دوسرے قاعدے وقانون بھی تو کسی درجہ میں اہمیت رکھتے ہیں۔ اس رخ پر یکسر توجہ نہ دینا انسانی مرتبہ پر کلنک تھوپنے کے مترادف ہے۔ چودہ سوسال کی طویل مدت میں مسلم خواتین پر تین طلاق سے کیااثرات مرتب ہوئے؟ کوئی نہ سوچا اورباہر کا ایسا قاعدجس کواسلام سے کوئی بھی واسطہ نہ رہا ہووہ مداخلت کرکے بدل دیتا ہے تو اس کو مسلم خواتین کا نجات دہندہ قرار دینا کہاں کا انصاف ہے؟ ظلم وانصاف کے فرق سے عدم واقفیت کیاگل کھلا سکتی ہے؟ اس کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔ بے سرپیر کی بے تکی ہانکنے والے سچائی سے نابلد ہوتے ہیں۔ جھوٹی چکاچندسے آنکھیں بند ہوجاتی ہیں۔ عام حالات اورایمرجنسی کی صورتِ حال،آدمی کو ان دونوں سے نمٹنا پڑتا ہے،اسلام ایک مکمل دین ہے۔ طلاق بھی ان دو موقعوں کے لیے علیحدہ طریقے مقررکرتا ہے۔ تین طلاق ایک نشست میں محض ایمرجنسی کی حالت میں مجبوراً اختیار کیے جانے والا عمل ہے۔ اگر کسی شوہر نے اپنی بیوی کی بے وفائی کورنگے ہاتھوں پکڑلیا ہو تو وہ ہرگز نہیں چاہے گا کہ اس کو مہلت دے بلکہ وہ تین پاکی والی طویل مدتی طلاق کی بجائے فوری تین طلاق کی شمشیر برہنہ سے اس رشتے کو کاٹ کررکھ دے گا۔ اس مصلحت کا دوسرا نقد فائدہ یہ حاصل تھا کہ مسلمانوں میں لفظ طلاق زبان پرلانے تک کو بھی ممنوع سمجھا جاتا رہا۔ جب پاکستانی اداکارہ کو لے کر بالی ووڈ میں فلم بنائی جارہی تھی اور طلاق کا نام رکھا جارہا تھا، تو یہ معلوم کرکے کہ عام مسلمانوں کو اس لفظ سے الرجی ہوتی ہے چنانچہ ”نکاح“ سے بدل دیاگیا۔ اب یہ احتیاط کیسے پیدا کرسکوگے؟ عقل کے دشمنوں کواپنے پیر پر آپ کلہاڑی مارنے کی ادا کا احساس تک نہیں ہوتا۔
راہِ حق کے مسلمانوں کی عام شاہِ راہ سے ہٹ کر دائیں،بائیں کتنی ہی باطل فرقوں کی پگڈنڈیاں پائی جاتی ہیں۔ ان پگڈنڈیوں پرچلنے والوں کے باطن میں بے قراری کی موجیں ابھرتی اورڈوبتی رہتی ہیں۔ ان سے حیرت انگیز حرکات سرزدہوتی رہتی ہیں۔ برادران ِ وطن بھی اپنی بلند وبانگ آواز میں برتری کی فرضی مونچھوں کوتاؤ دیتے رہتے ہیں۔ گلف کے ایک ملک میں ہندوستانی سرمایہ دار کا بہت بڑااسکول چلنا ہے،اس کی سالانہ تقریب میں کلچرل پروگرام چل رہاتھا۔ ایک ڈرامہ بڑی اچھی وضاحت سے پیش کیاگیا اس میں ”موہنا دیوی“ نے دنیا میں پہلی بارعورتوں کوتعلیم دینے کی تحریک چلاکر عورتوں پر احسان کیا ہے، بتایا گیا تھا۔ ایسی ہی خوش گپیاں مودی جی کے بھگت چھوڑرہے ہیں تو نیا کیا ہے۔؟

a3w
a3w