مضامین

پچھتاوا

ایم اے حفیظ کوڑنگلی

شیطان کہہ رہا ہے کہ میں نے انسان کو مٹی کا مجسمہ سمجھ کر سجدہ کرنے سے انکارکیاتھا۔ میری دلیل تھی آدم مٹی سے اور میں آگ سے تخلیق کیاگیا ہے۔ اس نافرمانی کی وجہ سے میرے رب کی ناراضگی مول لینی پڑی اورعرش سے فرش پر پٹک دیاگیا۔
رب کی اجازت سے میں اولاد آدم کو گمراہ کرنے بہکانے میں شب وروز مصروف ہوگیا۔ تاکہ جس انسان کو رب نے قابل سجدہ سمجھاتھا، اسے ذلیل وخوار اوررسوائے زمانہ کردوں۔ اسے رب کی نافرمانی،شرک، غیظ وغضب، مکرو فریب،بے رحمی و سفاکی، ظلم واستبداد،قتل وغارت گری، خودپسندی وانانیت میں ملوث کردوں۔ رسول پیغمبر اوتاروربزرگان قوم آتے رہے لیکن میں بڑی چالاکی سے انھیں خدا کا بیٹا یا خدائی میں حصہ دار گردانکر انہی کی پرستش میں مبتلا کر تا رہا۔ الگ الگ زمانوں میں الگ الگ ملکوں میں نئے نئے خداؤں کی نئی نئی شکلوں میں متعارف کراتا رہا۔ اوران کے پیروکاروں کی تعداد کروڑوں تک پہنچ گئی۔بیشتر انسان میرے مطیع وفرمانبردار بن گئے۔
لیکن کچھ دہائیوں سے میں یہ محسوس کررہا ہوں کہ انسان اپنی حدیں پارکرگیا ہے۔ اس کی کرتوتوں سے میں خود حیران اورخوفزدہ ہوں۔
یہ سچ ہے کہ میں نے انسانو ں کو ڈاکہ زنی، لوٹ مار، پستول دکھاکر گھروالوں یا بنک والوں کو ہاتھ باندھ کرسارا سامان زرورقم سمیٹ لینے، یابس اسٹانڈ پرمسافروں کی پاکٹ مارنے، چلتے چلتے عورتوں کے گلے سے طلائی زنجیر اُڑالینے پراُکسایا تھا، لیکن آج لوگ ہزاروں کروڑوں کی خطیر رقم فینانس کمپنیوں، اسٹاک ایکسچینج کے نام پر علی الاعلان ہڑپ کربیرون ملک فرار ہورہے ہیں۔ اس معیار کے گھپلے Scamفراڈ میں نے نہ کبھی تصور کیانہ اس کی تعلیم دی۔
غصہ اورعشق ہمیشہ سے میرے کارگرہتھیار رہے ہیں۔عشق کی وجہ سے قابیل نے ہابیل کوقتل کرکے دنیا کے پہلے قتل کی تاریخ رقم کی تھی اورغصہ میں میں انسان کو طیش میں لاکر اس کی کھوپڑی سے فٹ بال کی طرح کھیلتا ہوں۔
اس حالت میں وہ میری مرضی کے مطابق کچھ بھی کرگزرتا ہے، لیکن آج کا انسان بہت شاطر، معاملہ شناس اورماجرہ فہم ہوگیا ہے۔ غصہ کا بظاہر قطعاً اظہار نہیں کرتا لیکن بڑے خلوص ومحبت وہمدردی سے دشمن کو کیفرکردار تک پہنچاتا ہے کہ اس کی نسل درنسل اپنی پہچان اورنام ونشان سے محروم ہوجاتی ہے۔
اتنی کمال کی اداکاری میرے وہم وگمان میں بھی نہیں تھی۔ میں یہ سن کر سکتہ میں ہوں کہ ایک نوجوان لڑکا دوستی کے بہانے اپنے رقیب کاسرتن سے جدا کرکے اس کے اعضائے رئیسہ کے ٹکڑے Whatsappپراپنی محبوبہ کودکھاتا ہے۔میں اس رات سونہ سکا……
میں نے شوہراور بیوی میں اختلافات پیدا کیے تاکہ خاندانی رشتے بکھرجائیں۔ معصوم بچے بے سردسامان سربازار آجائیں۔ میں نے ہی دولہے والوں کے دلوں میں فیرلڑکی جہیز اور معیاری شادی کی خواہش جاگزیں کی، لیکن یہ معاملہ خلع طلاق اورجہیز تک محدود تھا، لیکن میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ جہیز کی کمی کے لیے لڑکی کوزندہ جلادیا جائے گا۔ اتنی خوفناک حرکت میر ے وہم وگمان میں نہیں تھی۔
مجھے اعتراف ہے کہ میں نے قوم لوط کو ایک نئی لذت شہوت میں مبتلا کیاتھا۔ جس کی وجہ سے وہ قوم عذاب الٰہی کا شکار ہوکر صفحہ ہستی سے مٹ گئی،لیکن آج کا انسان ایسی ہی حرکت ایک نئے انداز میں کرنے لگا ہے۔ لڑکا لڑکے سے لڑکی لڑکی سے باضابطہ قانوناً علی الاعلان بیاہ رچائے جارہے ہیں۔ نہ اسے معیوب سمجھا جاتا ہے نہ غیر اخلاقی وغیر قانونی ……
میں نے ماں باپ کی نافرمانی کے لیے اکسایا ضرور تھا، لیکن اتنا نہیں کہ انہیں ”اولڈ ایج ہوم“ بھیج دیا جائے یاجائیداد کے لیے ان کی جان لی جائے یا رشتہ داروں وعزیزواقارب کی بھیک وخیرات پرزندگی گزارنے کے لیے چھوڑدیا جائے۔
میں چاکلیٹ دے کر بچوں کو اسکول جانے سے روکا کرتاتھا، لیکن اب میری چنداں ضرورت نہیں رہی۔ یہ کام چھوٹا سا آلہ (mobile)بہترانداز میں انجام دے رہا ہے۔ اگر کوئی لڑکی بے پردہ بے حیائی و بے شرمی سے سٹرک پرجانے لگے اور کچھ سٹرک چھاپ لڑکے اسے چھیڑنے لگے تومیرا دل خوشی سے باغ باغ ہوجاتاتھا، لیکن آج بات بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ نیم برہنہ چست لباس پہنے کھلے عام جسم فروشی ودعوت عشق دی جارہی ہے۔ ”حسن“ بازار میں دو کوڑی کے عوض دستیاب ہے۔ نہ اس کے لیے رانجھا کوپہاڑ کاٹ کر دودھ کی نہرنکالنی پڑتی ہے نہ سوہنی کومحبوب سے ملنے کے لیے مٹی کے گھڑے پردریا پار کرنی پڑتی ہے۔ میں ایسے ماحول میں گھٹن محسوس کررہا ہوں۔
ان انسانوں کو اب میری ضرورت نہیں رہی۔ میرے مشورے دقیانوسی سمجھے جانے لگے ہیں۔ آج کے انسان کے چہرے کے پیچھے کئی چہرے چھپے ہیں۔ میری بات سننے والا کوئی نہیں ہے۔ مجھے گوشہ نشین کردیاگیا ہے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں ”کہیں میں نے آدم کو سجدہ نہ کرکے سنگین غلطی تونہیں کی ہے“ مجھے قطعی اندازہ نہیں تھا کہ انسان اس قدر بدل جائے گا۔ دل چاہتا ہے کہ شیطانیت چھوڑکر اب انسانیت قبول کرلوں۔ میں اس ماحول سے تنگ آچکا ہوں۔ سوچتا ہوں میرے رب کے تخلیق کردہ کسی دوسرے عالم کو کوچ کرجاؤں تاکہ وہاں پُرسکون وباوقار زندگی گزار سکوں۔ ایک زمانہ تھا انسان مجھ سے اپنے خدا کی پناہ مانگتے تھے،لیکن آج میں انسانوں سے پناہ مانگ رہا ہوں۔……