تلنگانہسوشیل میڈیامضامین

بارہ فیصد کے لیے بھوک ہڑتال یا دھرنا کیوں نہیں؟

پچھلے ہفتے ریاستی وزیراعلیٰ کی دختر نیک اختر و رکن کونسل محترمہ کے کویتا نے نئی دہلی جاکر جنتر منتر پر شاندار پیمانے پر خواتین کے لیے دستوری اداروں میں تینتیس فیصد تحفظات فراہم کرنے کے مطالبہ پر احتجاج منظم کیا، جس میں حزب مخالف کی اٹھارہ سیاسی جماعتوں نے بھی حصہ لیا اور ان کا بھرپور ساتھ دیا۔

پچھلے ہفتے ریاستی وزیراعلیٰ کی دختر نیک اختر و رکن کونسل محترمہ کے کویتا نے نئی دہلی جاکر جنتر منتر پر شاندار پیمانے پر خواتین کے لیے دستوری اداروں میں تینتیس فیصد تحفظات فراہم کرنے کے مطالبہ پر احتجاج منظم کیا، جس میں حزب مخالف کی اٹھارہ سیاسی جماعتوں نے بھی حصہ لیا اور ان کا بھرپور ساتھ دیا۔

محترمہ کویتا کا یہ اقدام یقینا لائق ستائش ہے، کیوں کہ آج ساری دنیا میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک ہورہا ہے۔ خود ہمارے ملک میں بھی ان کا استحصال جاری ہے۔ ایسے حالات میں اگر خواتین کو قانونی و دستوری اداروں میں ایک تہائی نمائندگی ملتی ہے تو یہ ان کے حق میں ایک اچھا عمل ہوگا اوران کی عزت و وقار میں اضافہ ہوگا۔

ہمارے ملک میں جہاں تک کسی مخصوص مذہب یا طبقہ سے ناانصافی یا ان کے استحصال کا معاملہ ہے، اس کا بھی ہمارے حکمرانوں اورسیاستدانوں کو خلوص دل سے جائزہ لینا چاہیے، کیوں کہ اس ملک میں بیس تا بائیس فیصد اقلیتی طبقہ آباد ہے جس میں مسلمان، سکھ، عیسائی اور پارسی مذہب کے لوگ شامل ہیں۔ یعنی لگ بھگ تیس کروڑ افراد کا تعلق اقلیتی فرقوں سے ہے۔

ان تیس کروڑ باشندوں کے بھی کئی اہم مسائل ہیں، جن کو حل کرنا ضروری ہے۔ سرکاری ملازمتوں، دستوری اداروں اور سیاسی جماعتوں میں ان کی نمائندگی محض دوچار فیصد ہی ہے۔ جس کے باعث وہ سطح غربت سے بہت نیچے ہیں۔ سچر کمیٹی نے واضح طور پر نشاندہی کی ہے کہ مسلم اقلیت کی حالت پسماندہ و دلت طبقات سے بھی بری ہے۔ متحدہ ریاست آندھرا پردیش میں انہیں چار فیصد تحفظات کا تحفہ کانگریس دور میں ملا تھا جو بے حد فائدہ بخش رہا۔

اسی دوران سال2001 میں علاحدہ ریاست تلنگانہ تحریک کا دوبارہ آغاز ہوا، جس کے سربراہ یعنی موجودہ چیف منسٹر نے اپنی بارہ سالہ جدوجہد کے دوران سینکڑوں بار یہ اعلان فرمایا کہ تلنگانہ ریاست کے قیام کے فوری بعد یعنی چار ماہ کے اندر مسلمانوں کو بارہ فیصد تحفظات فراہم کیے جائیں گے۔ چنانچہ ان کی آواز پر مسلمانان تلنگانہ نے تحریک میں ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ مالی مدد کی اور دعائیں بھی دیں۔ اس طرح 2/ جون 2014ء کو ریاست تلنگانہ کا قیام عمل میں آیا۔ جناب چندر شیکھر راؤ کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا اور وہ ریاست کے پہلے چیف منسٹر بھی بن گئے۔ وقت گزرتا گیا۔

چار مہینے کے بعد انہیں مسلسل یاد دلایا گیا لیکن بالآخر کوئی دو سال بعد انہوں نے ریاستی اسمبلی میں ایک قرارداد منظور کروائی کہ مسلمانوں کو بارہ فیصد تحفظات کا حق ملنا چاہیے۔ اس قرارداد کو مرکزی حکومت کو روانہ کیا گیا۔ لیکن مرکزی حکومت نے آج تک ہری جھنڈی نہیں دکھائی۔ اب جبکہ ان کی دختر نیک اختر نے خواتین کے لیے تینتیس فیصد تحفظات کی مانگ پر ایک بڑ ا احتجاج منظم کیا ہے تو کیا ہم ان سے یہ پوچھنے کی جرات نہیں کرسکتے کہ محترمہ آپ کے والد محترم نے ریاست کے مسلمانوں کو 12فیصد تحفظات دلانے کا وعدہ فرمایا تھا جو ابھی تک لیت و لعل کا شکار ہے۔

کیا آپ ریاست کے مظلوم مسلمانوں کے لیے بھی ایسے ہی احتجاج کا اہتمام کریں گی؟ یہاں تو آپ کی حکومت ہے۔ آپ چاہیں تو اپنے والد محترم اور برادران محترم کو بھی قائل کرواسکتی ہیں۔ لہٰذا آپ سے پُرخلوص گزارش ہے کہ اپنی بھرپور نمائندگی کے ذریعہ اس اہم مسئلہ کی یکسوئی فرمائیں۔ تبھی آگے چل کر آپ ملک و قوم کی بہتر رہنما ثابت ہوسکتی ہیں۔ ہم بی آر ایس کے معزز مسلم قائدین و کارکنوں سے بھی بصد خلوص ملتمس ہیں کہ پلیز عہدوں کی آس میں خاموش نہ رہیں بلکہ بے باک ہو کر کامیاب نمائندگی کا حق ادا فرمائیں۔

تمہیں اپنا وعدہ نبھانا پڑے گا ٭ تحفظ تو ہم کو دلانا پڑے گا
ہیں لاکھوں مسلمان بے گھر یہاں اب ٭ انہیں گھر کا مالک بناناپڑے گا
رکاوٹ ہے جو بھی اسے دور کرنا٭ ہر ایک خار تم کو ہٹانا پڑے گا
حقیقت میں ہے گرتمہیں ہم سے الفت ٭ تو پھر ہم کو اونچا اٹھاناپڑے گا

فرید سحر۔ اندرون فتح دروازہ، حیدرآباد۔94848084306