طنز و مزاحمضامین

”باقی کچھ بچا تو مہنگائی مارگئی“

ایم اے حفیظ کوڑنگلی

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر باقی بچا ہی کیا ہے جسے مہنگائی مار سکے گی۔ حوادثات و حالاتِ زندگی انسانوں کو پہلے ہی مارچکے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ عوام کو ٹٹّو کی طرح کھونٹی سے باندھ کر مہنگائی کے ہنٹر سے پیٹا جارہا ہے۔ سوچ سمجھ کر اعتبار کرنا چاہیے۔ اپنی سانسوں کا بھروسہ نہیں۔ عوام ‘ اُن کے ”ساتھ“ ”وکاس“ اور ”وشواس“ کے وعدہ پر وشواس کربیٹھے۔ پتہ نہیں حاکم کے ہاتھ میں ایسی کون سی جادو کی چھڑی ہے کہ انہوں نے ملک بھر میں دودھ کی نہریں بہادی ہیں۔ سارے ملک کے عوام دیوانہ وار ان کے اطراف گھوم رہے ہیں۔ اسی ویژن کے اثرات آخر کار مہنگائی، بیروزگاری، فرقہ واریت کے اژدھے کی شکل میں عوام کے سامنے منہ کھولے کھڑے ہیں۔ کہتے ہیں بُت پرستی سے شخصیت پرستی خطرناک ہوتی ہے، کیوں کہ بُت بے جان ہوتے ہیں لیکن انسان پوجے جانے کے بعد غرور و تکبر میں اندھا ہوجاتا ہے اور عجیب و غریب فیصلے کرنے لگتا ہے۔
ایک نئی نویلی بہو سے ساس نے پوچھا۔ ”تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا کہ تم کو کھانا پکانا نہیں آتا“؟
بہونے بڑی عاجزی و انکساری سے جواب دیا۔ ”ممّی! میں آپ کو Surprise کرنا چاہتی تھی۔
٭ نوٹ بندی جیسے غیر ضروری جلد بازی کے فیصلہ نے سارے ملک کو Surprise کردیا تھا۔
ویسے CAA بھی کچھ کم نامعقول تجویز نہیں ہے۔ ایک گنگسٹر اپنے گروہ کے ممبر سے کہنے لگا۔ وہ جو ٹیبل پر آدمی بیٹھا ہے وہ ہمارا دشمن ہے۔ ممبر نے کہا۔ ”ٹیبل پر چار آدمی بیٹھے ہیں۔“ گنگسٹر نے کہا ”جس کی مونچھیں ہیں“ ممبر نے کہا۔ ”تمام کو مونچھیں ہیں۔“ کہا ”جو سفید کپڑے پہنا ہے۔“ ممبر بولا۔ چاروں سفید کپڑے پہنے ہیں۔ گینگسٹر کو غصہ آیا اور پستول سے اُن میں سے ایک شخص کو شوٹ کردیا اور بولا۔ ”یہی ہمارا دشمن تھا۔‘
چیتوں کو باہر ممالک سے درآمد کیا جارہا ہے اور ایک خاص قوم کے لوگوںکو ملک بدر کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ شائد حکومت کو جانور چاہیے انسان نہیں۔“
٭ فطرتاً عوام جنہوں نے ووٹ دیا ہے وہ بے چینی سے آس لگائے اچھے دنوں کے منتظر ہیں۔ جیسے ایک گدھا دوسرے گدھے سے کہتا ہے۔ ”یار میرا مالک مجھے بہت مارتا ہے“ دوسرا گدھا۔ ”بھاگ کیوں نہیں جاتا؟“ پہلا۔ ”بھاگ تو جاتا مگر یہاں میرا مستقبل روشن ہے۔ مالک کی خوبصورت بیٹی جب شرارت کرتی ہے تو مالک کہتا ہے۔ ”تو اسی طرح شرارت کرتی رہے گی تو میں تری شادی اس گدھے سے کردوں گا۔“
٭مہنگائی کا دولت منددوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا، اُن کی دولت میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ بھوکے پیاسے غر بت کے مارے عوام کو مستقبل کے سنہرے خواب دکھا کر مندر مسجد ذات پات رعایتی خیراتی روٹی کپڑا اور مکان کی آس میں افیمی کی طرح سلایا جارہا ہے۔ یہ بات نئی نسل یقین کرنے تیار نہیں کہ کچھ سال قبل تک 100روپئے میں 2 تا 3 لیٹر تیل اور 3 تا 4 کلو دال خریدا کرتے تھے۔
٭ دادانے پوترے سے کہا۔ ”بیٹا ہمارے زمانے میں 10 روپئے کا نوٹ لے کر مارکٹ جاتے اور سارا سامان اناج ترکاری دالیں تیل مہینہ بھر کا لے آتے۔“
پوترے نے جواب دیا۔ ”داداجی وہ دن گزر گئے، یہ حرکت اب نہیں چلے گی، ہر دوکان میں آج کل CCTVکیمرے لگائے گئے ہیں۔“
٭ ہمیں یقین ہے کہ خدائے کائنات نے کوئی شئے بے مصرف یا بے مقصدپیدا نہیں کی ہے…….. اس لحاظ سے مہنگائی بھی سماج اور سوسائٹی کے لیے فائدہ بخش ہونا چاہیے۔ کچھ لوگ اس کے مثبت پہلو تلاش کرتے ہیں۔ جیسے ایک خاتون اپنی سہیلی سے کہنے لگی۔ ”بہن میں بہت خوش ہوں۔ سہیلی نے ٹوکا۔ ”اتنی مہنگائی کے باوجود“؟ کہنے لگی۔ مہنگائی کے باوجود نہیں مہنگائی کی وجہ سے۔“ سہیلی نے حیرت سے وجہ پوچھی۔ کہنے لگی۔ ”میرے شوہر کے پاس مہنگائی سے پہلے کثیر دولت کی ریل پیل تھی۔ شاہانہ طرز زندگی، شاندار قیمتی ملبوسات‘ کار کلب ہوٹل پارٹیاں دیر سے گھر لوٹنا‘ سماجی و سوشیل مصروفیات کی وجہ سے مجھ سے بات کرنے کی فرصت نہیں تھی، لیکن خدا مہنگائی کو سلامت رکھے۔ اُس کی مار سے اُن کی تمام شوخیاں رنگ رلیاںکافور ہوگئی ہیں، اب آفس ختم ہوتے ہیں منہ لٹکائے مسکین چہرہ بنائے RTC بس سے سیدھے مکان لوٹ جاتے ہیں اور عبادت الٰہی‘ ذِکر الٰہی میں مصروف گھنٹوں عذابِ قبر اور میدانِ حشر کے تعلق سے باتیں کرتے رہتے ہیں۔
مہنگائی کی سب سے اہم کامیابی یہ ہے کہ ماں باپ خود بغیر سرکاری ترغیبی انعامات و اکرامات کے اعلانات کے اپنے بچوں کی تعداد کو کنٹرول کرلیتے ہیں۔ اس سے سماج میں سستی، غرور و تکبر، فضول خرچی عیاشی پر روک لگتی ہے۔ مختلف اشیاءکے دام بڑھ جانے سے اُن کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوتا ہے۔بہرحال کسی بھی صورت میں مہنگائی کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بات اور ہے کہ عوام اس کو برداشت کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ مکمل بھیگے ہوئے شخص پر ایک بالٹی پانی اور پھینکا جائے تو اس کا اور کیا بگڑے گا……..٭٭٭