مضامین

بـــــھـــگوا لَـو ٹـــریــــپہندوستانی مسلمانوں پر منڈلاتا ایک سنگین خطرہ

مولانا سید احمد ومیض ندوی

اس وقت ملک کی فرقہ پرست جماعتوں کا سارا زور اس پر صرف ہورہا ہے کہ کس طرح مسلمانوں کو ان کے دین و ایمان سے برگشتہ کرکے انہیں ہندو مت اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے اور کس طرح مسلم معاشرہ میں ارتداد کو فروغ دیا جائے۔ ویسے آزادی سے قبل ہی اس قسم کی کوششوں کا آغاز ہوچکا تھا شدھی کرن کی تحریک اور آریہ سماج کی سرگرمیوں کے پیچھے یہی جذبہ کارفرما تھا۔ اس وقت کے علماء ربانیین نے مسلم معاشرہ کو ارتدادی سرگرمیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک طرف آریہ سماج کے علمبرداروں سے مناظروں کا اہتمام کیا ۔ دوسری جانب ملک کے عام مسلمانوں کو دین سے وابستہ رکھنے کے لیے اصلاحی کوششوں کا آغاز کیا تحریک دعوت و تبلیغ اور دارالعلوم دیوبند کا قیام اس پس منظر میں عمل میں لایا گیا۔
ابتداء میں فرقہ پرست بھگوا تنظیموں نے مسلمانوں کے خلاف ملک کے عام غیر مسلموں کو مشتعل کرنے کے لیے ’’لو جہاد‘‘ کی اصطلاح گڑھ لی اور میڈیا کے ذریعہ اس بات کا خوب چرچا کیا گیا کہ مسلم نوجوان غیر مسلم لڑکیوں کو عشق و محبت کی جال میں پھانس کر انہیں اسلام میں داخل کررہے ہیں ۔ ملک کے طول و عرض میں پیش آئے چند ایک واقعات کو بنیاد بناکر لو جہاد کا ہوا کھڑا کیا گیا جبکہ اسلام میں ’’لوجہاد‘‘ نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ جہاد ایک مقدس فریضہ ہے جس کے اپنے شرائط و ضوابط ہیں۔ جہاد کے ساتھ لو جیسی تعبیر چسپاں کرکے اس کے تقدس کو پامال کیا گیا ۔چور مچائے شر کے مصداق نام نہاد لو جہاد کی آڑ میں بھگوا تنظیموں نے بھگوا لو ٹریپ کا سلسلہ شروع کیا۔ مخلوط نظام تعلیم کے سبب بین مذاہب شادی کے اکا دکا واقعات پہلے بھی پیش آتے رہے ہیں لیکن اس وقت ان واقعات میں جو اضافہ دیکھا جارہا ہے اس کے پیچھے سنگھ پریوار کا بھگوا لو ٹریپ کارفرمار ہے مسلمانوں کے تعلق سے لَو جہاد کا جو شور مچایا گیا وہ تو محض پروپیگنڈا تھا لیکن اس وقت ملک بھر میں بھگوا لو ٹریپ کی شکل میں جو سرگرمیاں جاری ہیں اور جس سے مسلمان بچیاں متأثر ہورہی ہیں وہ انتہائی تشویشناک ہیں۔ سنگھ کی بعض تنظیموں کی جانب سے مسلم لڑکیوں کو عشق کی جال میں پھانس کر انہیں مرتد بنانے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بند کوششیں ہورہی ہیں۔ ایسی تنظیموں سے جڑے فرقہ پرست کھلے عام برملا کہہ رہے ہیں کہ جو کوئی ہندو لڑکا کسی مسلمان لڑکی کو عشق کے جال میں پھانس کر اس سے شادی رچائے گا اسے اتنے لاکھ روپیے بطورِ انعام دئیے جائیں گے اور اس کا مکمل تحفظ بھی کیا جائے گا۔ اس قسم کے اعلانات پر مشتمل ویڈیو کلپس کھلے عام ملک بھر میں وائرل ہورہی ہیں۔ چند ماہ قبل ساحل آن لائن ڈاٹ نیٹ نے آرایس ایس سے وابستہ بھگوا بریگیڈ کی ایک تنظیم ہندو جاگرن منچ کا ایک اعلان شائع کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ مسلمانوں کو لو جہاد کا جواب انہی کی زبان میں دینے کے لیے منصوبہ بندی کے ساتھ مسلم لڑکیوں کی شادی ہندو لڑکوں کے ساتھ رچائی جائے گی۔ اس مہم کا نام ہندو جاگرن منچ نے ’’بیٹی بچاؤ بہو لاؤ‘‘ رکھا ہے۔ خیال رہے کہ بیٹیوں کو رحم مادر میں مار ڈالنے کے خلاف اور لڑکیوں کو سماجی زندگی میں آگے بڑھانے کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی نے ’’ بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ‘‘ کا نعرہ دیا تھا اس نعرے کو ذرا سا تبدیل کرتے ہوئے ایچ جے ایم نے نام نہاد لو جہاد کے خلاف مہم چھیڑنے کا اعلان کیا ہے۔ ہندو جاگرن منچ کے اجو چوہان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو انہی کی زبان میں جواب دینے کے لیے 2100 مسلم لڑکیوں کی شادی ہندو نوجوانوں کے ساتھ منظم طریقے پر انجام دی جائے گی ۔ اسلام چھوڑ کر ہندو مذہب میں داخل ہونے والی ان بہوؤں کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کے علاوہ انہیں امداد بھی دی جائے گی۔ ساحل آن لائن کے مطابق کچھ دنوں پہلے زعفرانی بریگیڈ کی ایک اور تنظیم وشوا ہندو پریشد نے بھی اعلان نے کیا تھا کہ اگر مسلم لڑکوں نے ہندو لڑکیوں سے محبت اور شادی والا لو جہاد کا سلسلہ بند نہیں کیا تو پھر وی ایچ پی کی طرف سے بجرنگ دل ہندو نوجوانوں کو مسلم لڑکیوں کو پھنسانے کے لیے مہم پر روانہ کیا جائے گا۔ (29؍دسمبر ایس او نیوز)۔ مذکورہ وضاحت سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ مسلمان لڑکیوں کو بھگوا لو ٹریپ کی شکل میں ہندو لڑکوں کی محبت میں پھانس کر انہیں مرتد بنانے کا کام مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ انجام دیا جارہا ہے اس کے لیے باقاعدہ ہندو لڑکوں کو مالی لالچ کے ساتھ انہیں ٹریننگ بھی دی جارہی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے آر ایس ایس کے حوالہ سے ایک خط سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تھا اگر چہ بعد میں اس کا جعلی ہونا واضح ہوگیا لیکن اس میں مسلمان لڑکیوں کو عشق و محبت کے ذریعے پھانسنے اور ہندو لڑکوں سے شادی کرانے کی مہم کے تعلق سے جو نکات سمجھائے گئے ہیں اور جس حکمت عملی کو اپنانے کا ذکر کیا گیا ہے وہ ایک حقیقت ہے جسے عملاً اختیار کیا جارہا ہے۔ اور اس کے نتائج بھی سامنے آنے لگے ہیں ، اس وقت مسلم لڑکیوں کے ارتداد کے واقعات جس تیزی سے پیش آرہے ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ فرقہ پرستوں کی جانب سے بھگوا لَو ٹریپ منظم انداز میں جاری ہے۔ فرقہ پرست تنظیمیں ہندو نوجوانوں کو بھگوا لو ٹریپ میں کامیابی کے لیے تاکید کرتی ہیں کہ وہ کسی مسلم لڑکی سے ملیں تو اس کے نام کی تعریف کریں اور اس کے نام کا مطلب جاننے کی کوشش کریں تاکہ لڑکی یہ سوچے کہ میرا نام واقعی اچھا ہے اور اگر تم اس کی نظر میں ایک اچھے انسان بنو اس طرح وہ جب بھی دفتر کا لج شادی کی تقریب یا ایسی کسی جگہ ملیں جہاں مسلم لڑکیاں ہندو لڑکیوں کے ساتھ آئیں تو ہمیشہ ان سے ہاتھ ملانے کی کوشش کریں پہلے کسی ہندو لڑکی سے مصافحہ کریں نیز اس مسلمان لڑکی کے سامنے اس کے مذہب کی توہین نہ کریں بلکہ اسلام کی تعریف کریں تا کہ وہ محسوس کرے کہ تم اس کے مذہب کا احترام کرتے ہو پھر چند دنوں کے بعد اس مسلم لڑکی سے کہو کہ میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں میری مدد کریں اگر مجھے کچھ اور معلومات ملیں تو میں اسلام قبول کروں گا اس بہانے اس سے اس کا موبائل نمبر لیں۔ ہندو نوجوان لڑکوں کو اس بات کی بھی تاکید کی جاتی ہے کہ جب بھی مسلم لڑکیوں سے ملیں ان کی تعریف کرنا نہ بھولیں اسے بتائیں کہ مجھے آپ کا لباس بہت پسند ہے اور آپ حجاب میں بہت اچھی لگتی ہیں۔ نیز ان ہندو نوجوانوں کو یہ بھی تاکید کی جاتی ہے کہ وہ مسلمان لڑکیوں سے اپنے قبولِ اسلام کی خواہش کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی کہیں کہ میں اپنی اس تبدیلی کو خفیہ رکھنا چاہتا ہوں جب مسلم لڑکی سے قدرے بے تکلفی ہوجائے تو اس سے پہلا سوال اس کے حجاب کے بارے میں کریں پھر تین طلاق پھر تعدد ازدواج اور بہت سارے بچے۔ پھر آہستہ آہستہ اسے احساس دلائیں کہ تم جینز اور ٹاپس کیوں نہیں پہن سکتے؟۔ تم اپنے شوہر کی تلوار کے نیچے کیوں رہتی ہو جبکہ وہ کسی بھی وقت تم کو طلاق دے سکتا ہے کیا آپ کو ڈر نہیں کہ آپ کا شوہر اچانک دوسری تیسری بیوی کرلے گا۔ آپ کے گھر میں اتنے بچے کیوں؟ کیا اسلام میں عورت صرف بچے پیدا کرنے والی مشین ہے؟۔ایسے سوالات پوچھیں اور پھر آہستہ آہستہ ہندو مذہب کی خوبیاں بتائیں۔ اس دوران لڑکی کو بتاتے رہیں کہ تم اسے پسند کرتے ہو مثلاً یوں کہ کاش میری بیوی بھی آپ جیسی خوبصورت ہوتی؟۔
یہ مسلمان لڑکیوں کو عشق کے جال میں پھانسنے اور انہیں مرتد بنانے کا بھگوا طریقہ واردات ہے۔ بھگوا تنظیمیں اپنے جوانوں کو مالی لالچ کے ساتھ باقاعدہ اس قسم کی ہدایات کے ذریعہ انہیں ٹریننگ دیتی ہے۔
بھگوا تنظیموں کے طریقۂ وارادت پر روشنی ڈالتے ہوئے محترم انور خان صاحب اپنے مضمون میں تحریر فرماتے ہیں ’’شدت پسند ہندؤں کا پہلا نشانہ کالج اور یونیورسٹی جانے والی لڑکیاں ہوتی ہیں جہاں اسباق اور لیکچر نوٹس وغیرہ دے کر جان پہچان پیدا کی جاتی ہے اور دیگر امور میں تعاون کرکے دوستیاں کی جاتی ہیں کچھ مسلم تہواروں پر مثلاً عید وغیرہ پر تحفے تحائف دے کر مسلم تہذیب کی تعریف و توصیف کرکے خود کو اسلام کی تعلیمات سے متأثر بتایا جاتا ہے کالج کے بعد ٹیوشن کے بہانے مختلف کوچنگ سنٹر میں آنے پر آمادہ کیا جاتا ہے اس وقت تک لڑکی اتنا متأثر ہوچکی ہوتی ہے کہ وہ مختلف بہانے بناکر والدین کو ٹیوشن پر بھیجنے کے لیے راضی کرلیتی ہے۔ مختلف خاص مواقع مثلاً برتھ ڈے جیسے موقع پر موبائل کپڑے جوتے پرس وغیرہ دے کر امپریس کیا جاتا ہے۔ پکنک وغیرہ کے بہانے اچھے ہوٹلوں میں جاکر کھانا کھلانا اور واپسی پر گفٹ دینا بھی اس معمول کا حصہ ہے۔ مختلف تقاریب کے بہانے مسلم لڑکی کو گھر لے جاکر اچھی خاطر داری کی جاتی ہے واپس آکر وہ لڑکی ہندو گھرانوں کی مہمان نوازی کی قصیدہ خوانی کرتی ہے اس سے آئندہ کے لیے ہندو گھر بھیجنے کے لیے والدین کا رویہ نرم ہوجاتا ہے کبھی کبھار لڑکی کی ماں یا بہن کے لیے بھی کوئی تحفہ بھیج دیا جاتا ہے جس سے ماں بہن بھی متأثر ہوجاتی ہیں عموماً ہندو رہائشی علاقے مسلم علاقوں کی بنسبت زیادہ ترقی یافتہ ہوتے ہیں مسلم نوجوانوں کے بالمقابل حکومتی یا پرائیویٹ سیکٹرز میں ہندو نوجوان زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ چیز بھی بہکانے میں معاون ہوتی ہے۔ ہندو علاقوں کی ترقی اور ظاہری قدر دانی کی بنیاد پر لڑکی متأثر ہوچکی ہوتی ہے تو اس پر محبت کا جال پھینکا جاتا ہے یوں اسے گھر سے بھگاکر مرتد بناکر شادی کی جاتی ہے۔ پھر کچھ وقت کے بعد انہیں کلبوں میںناچنے گانے پر مجبور کیا جاتا ہے یا طوائف خانوں پر بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ سارے کام منظم منصوبے کے تحت ہوتے ہیں اس لیے بلیک میل کرنے کے لیے ویڈیوز بنائے جاتے ہیں اور انکار پر ویڈیوز وائرل کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ ان کاموں کی تکمیل میں ہندو لڑکیوں کا بھی استعمال کیا جاتا ہے وہ سہیلیاں بناکر اپنے بھائیوں وغیرہ سے ملواتی ہیں اور آگے کا کام لڑکے دیکھتے ہیں۔
لو ٹریپ اس وقت ملک میں مسلمانوں کے تہذیبی تشخص اور ان کے مذہبی بقا کے لیے زبردست چیلنج بن کر ابھرا ہے ۔ پورے ملک میں مسلم لڑکیوں کو مرتد بنانے کی مہم چل رہی ہے ۔گزشتہ ماہ اپریل میں مہاراشٹرا میں فرقہ پرست جماعتوں نے نام نہاد لو جہاد کے نام پر ریاست بھر میں ریلیاں نکالیں جن میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز ماحول بناکر یہ تأثر دینے کی کوشش کی گئی کہ مسلم نوجوان بھاری تعداد میں غیر مسلم لڑکیوں کو بہلا پھسلاکر ان سے شادیاں کررہے ہیں۔ ریاستی وزیر منگل لودھا نے تو ایک لاکھ کے خیالی اعداد و شمار بھی پیش کردئیے۔ لودھا کے مطابق مہاراشٹرا میں لو جہاد کے ایک لاکھ معاملے سامنے آئے۔ جبکہ ملک کے کسی محکمہ کو ان معاملوں کی کوئی جانکاری نہیں۔ اس کے بر خلاف ممبئی کی مختلف مذہبی و سماجی شخصیات نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ممبئی کے متعدد جگہوں پر اسپیشل میریج ایکٹ کے تحت مسلم لڑکیوں کی شادی غیر مسلموں سے کی جارہی ہے اور اس شادی کی رجسٹریشن کی تاریخوں کا اعلان بھی کیا جارہا ہے جس میں بڑی تعداد میں مسلم لڑکیاں غیر مسلموں سے شادی کررہی ہیں۔
بھگوا لو ٹریپ کے لیے آر ایس ایس اور اس کی فکر سے وابستگی رکھنے والی متعدد تنظیمیں سرگرم عمل ہیں۔ وشوا ہندو پریشد اور ہندو جاگرن منچ کے علاوہ ہندو یووا واہنی ‘ بجرنگ دل‘ وندے ماترم مشن‘ بھارت سیوا شرم سنگھ جیسی تنظیمیں قابل ذکر ہیں۔ ہریانہ میں اس مہم کے آغاز کے موقع پر مسلمان لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھانسنے والے ہندو لڑکوں کو ایک لاکھ روپیے انعام دینے کا اعلان اور ان کی مکمل حفاظت اور سماج میں ان کی عزت و شہرت کا بھی یقین دلایا گیا ۔
اترا کھنڈ اسمبلی کے رکن اسمبلی سنجے گپتا نے مسلمان لڑکیوں کو مرتد کے لیےلوکرانتی کے نامی سے مہم چلائی جس کے تحت اس نے 500 ہندو لڑکوں کا ایک گروپ بنایا اورا ن کو مسلمان لڑکیوں کو محبت کے جھوٹے جال میں پھنساکر گھر سے بھگاکر مرتد بنانے کا ٹارگٹ دیا اسی طرح مغربی بنگال کے جن علاقوں میں بی جے پی کا اثرو رسوخ ہے وہاں آر ایس ایس نواز تنظیموں نے مسلم لڑکیوں کو پھانسنے کی زبردست مہم چھیڑ رکھی ہے۔
لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ ہم مایوسی کا شکار ہوکر اس فتنۂ ارتداد کے آگے سپرڈال دیں۔ بعض قائدین کی جانب سے مسلم لڑکیوں کے ارتداد کے مسئلے کو مبالغہ سے کام لیتے ہوئے اس قدر خوفناک بناکر پیش کیا جارہا ہے کہ عام مسلمانوں میں پست ہمتی اور مایوسی پیدا ہورہی ہے۔ ارتداد کا یہ فتنہ کوئی آج کی پیداوار نہیں ہے کم و بیش تاریخ کے ہر دور میں کسی نہ کسی درجے میں اس کے اثرات پائے گئے ہیں۔ خود رسول الله ﷺ کی وفات کے بعد جب صدیقِ اکبرؓ خلیفہ ہوئے تو کچھ قبائل مرتد ہوگئے تھے جو نئے نئے داخلِ اسلام ہوئے تھے۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے پوری قوت کے ساتھ اس فتنہ کی بیخ کنی فرمائی۔ ارتداد کا فتنہ سنگین ضرور ہے لیکن ہمیں مایوس ہونے کے بجائے اس کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ آئندہ ہفتہ ارتداد اور اس کے اسباب سے متعلق تفصیلی روشنی ڈالی جائے گی۔