سیاستمضامین

شگون ِ شگفتہ ہیں یہ ۔۔یا کہ۔۔شگوفہ فتنہ وَشرکا شراپ ہے!

ظفر عاقل

ان اطراف ایام میں کئی ایک مثبت منفی معاملات و واقعات وقوع پذیر ہوئے ہیں کہ جس کا احاطہ یہ طئے کرنے میں ممد و معاون ہوگا کہ وطن عزیز میں یہ شگون شگفتہ وَبہار نو کی پُر مسرت آمدہیں کہ شگوفہ شر و شراپ کی آماجگاہ بننے جارہے ہیں۔
٭کرناٹک میں کراری ہار کے بعد ۔۔۔جب کہ آپریشن کمل ناتھ کا امکان بھی ناپید ہوچکا ہے۔۔۔راحت کی گھڑیاںزعفرانی رنگ سازوں اور مودی بھاجپا کو میسر آتی بتائی جارہی ہیں؛یاد ہوگا کہ ہنڈن برگ مبینہ موڈانی اسکام کے بعدکبھی راحت اور کبھی کُلفت کے منظر ومواقع سامنے آتے رہے ہیں؛اسی طرز کاایک موقع اب سامنے آیا ہے جس کو بڑے کرّو فراور زور شور سے موڈانی میڈیا اپنے سر سینہ اور کاندھوں پر اُٹھالیا ہے کہ سپریم کورٹ کی کمیٹی نے اڈانی کو کلین چِٹ مرحمت فرمادی ہے؛چنانچہ چاہے راہول ہو کہ موہا مترا یا کہ سنجے سنگھ یا کوئی اور مخالف موڈانی ان تمام کے منہ پر کرارا طمانچہ عدالت عظمیٰ کی تشکیل دی گئی کمیٹی کی طرف سے دیا گیا ہے؛لیکن کیا یہ واقعی ایک حقیقت اور سچائی ہے کہ الزامات سارے کے سارے غبارے کی ہوا تھے کہ پھُس ہو کر رہ گئے ؛حالانکہ ایسا نہیں ہے۔
یاد ہوگا کہ ہنڈن برگ رپورٹ کے الزامات کی وجہ سے اڈانی سموہ دنیا بھر میں دوسرے تیسرے بلند مقام سے فرش پر آگیا تھا؛ شیر مارکٹ میںاس کے شیر س پرائز پر لال بتیاں جل اُٹھی تھیں؛ اور دنیا بھر میں اس کی ساکھ پر دھکّا لگا تھا؛ اور معاملہ جب پارلیمنٹ میں پہنچا اور وضاحتیں چاہی گئیں‘ سوالات داغے گئے؛ بالخصوص راہول گاندھی نےPM مودی اور اڈانی رشتہ و تعلقات کی نوعیت جاننااور جواب کا مطالبہ کیا؛ نیز حزب اختلاف نے متحدہ طور پر جائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی JPCکی تشکیل اور تحقیقات کامطالبہ کیا تب سرکار کا رویہ منفی اور اہنکاری تھا اور پی یم نے اس بابت چُپ شاہ کا اُپواس(Fasting)رکھا اور کوئی جواب نہ دینے میں عافیت سمجھی ؛البتہ اس کا خمیازہ راہول گانڈھی کو اس طور پر بھگتنا پڑا کہ حیرت انگیز طورپر عدلیہ راکٹ رفتار فعال چاق و چوکس و چوبند ہوگی اور مودی چور کانڈ پر آعظم ترین حد آخر دو سال کی سزا کا موجب ٹہرادیا چنانچہ راہول گاندھی کی لوک سبھا رکنیت ختم کردی گئی حتیٰ کہ رہائشی بنگلہ بھی فوراًخالی کرالیا گیا۔
یہ بات مستحضر رہنا چاہیے کہ موڈانی اسکام پر سپریم کورٹ کی تشکیل دی گئی کمیٹی کا ٹرم آف ریفرنس صرف Revieve of Regulatary frame work تک محدود تھا؛یعنی کمیٹی کا بڑا محدود دائرہ کار تھا۔کمیٹی رپورٹ کے تین اہم امور میں پہلے پر کمیٹی نے کہا کہ اڈانی گروپ میں کونForiegn Portfolio Investersرقومات لگا رہا ہے اس پر کمیٹی کسی حتمی نتیجہ پر سر دست نہیں پہنچ سکی ہے‘چنانچہ سپریم کورٹ سے مزید وقت مانگا بھی گیا اور عطا بھی کردیا گیا؛چنانچہ سوال ہنوز برقرار رہتا ہے کہ اڈانی میں سرمایہ کاری کیے گئے بیس ہزار کروڑ کس کے ہیں۔سوال اور شکوک باقی ہیں کہ 13شیل فیک کمپنیز میں کون ہیں اور کیا ان سے اڈانی اور ان کے پریوار کوئی تعلق ہے؛اسی طرح پبلک کمپنی عوامی ادارے پبلک کمپنی LICنے 4.80کروڑ کے اڈانی گروپ کے شیرس اس وقت خریدے ہیں جب شیر کی قیمت 1031سے بڑھتی جاکر 3859پر پہنچ گئی تھی۔ چونکہ کمیٹی کا تحقیقاتی دائرہ کار محدود ہے اور اس وسعت میں اسی طرز کی کلین چِٹ کے علاوہ اور کوئی راہ اور توقع ممکن نہیں ہے اس لیے اپوزیشن نے JPCکی مانگ کی تھی؛کیونکہJPC کے پاس پاور رہتا ہے اوروہ کسی سے بھی برائے تحقیقات جانکاری و َ ڈاٹا مانگ سکتا ہے۔
موڈانی تحقیقاتی رپورٹ کے پس پردہ مودی سرکار کی جانب سے2018میں Prevention of Money Laundring Actمیں تبدیلی کی گئی جس کے نتیجہ میںBeneficial ownerیعنیUltimate benefeciariesپر نگاہ رکھنے کی ضرورت باقی نہیں رہی؛چنانچہ ریگولیٹری باڈیز(مثلاًSEBI)کو انتظامی امور میں قوانین و اصول بدلنے قانون سازی کا حق ہے اور اس پر سپریم کورٹ سے اجازت کی ضرورت بھی نہیں ہے؛اور یہ کام چپکے سے ہوجاتا ہے جس طرح پارلیمنٹ سے سیاسی پارٹیوں کے چندے کے لیے Bondsکی راہیں کھولی گئی ہیں؛یہی وجہ ہے کہ شیل کمپنیوں کے رقومات کی تفصیلات کی تحقیقات موجودہ قوانین میںممکن ہے نہ ضرورت ہے اور نہ ہی دائرہ تحقیقات میں شامل ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس کو کلین چٹ کا نام دے کر ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے؛البتہ اس پر سیاست تو ہوگی ہی کیونکہ ایک طرف مودی سرکاربلاک منی انسداد کرپشن کے عنوان سے نوٹ بندی کے نام پر سارے دیس اور غریب بھارتیوں کو لائن میں لگادینے کو عار نہیں سمجھتی ہے تب دوسری جانب دھنّا سیٹوں اور یار دوستوں اور کارپوریٹ ٹائکونس کو منی لانڈرنگ ایکٹ2018سے فائدہ پہنچانے میں مگن ہے۔
٭پھرایک بار نوٹ بندی کا چمتکار سامنے آچکا ہے اورمختصر حیات پر حیرت کہ 2000کی کرنسی کا حشر 2016کی پہلی مودی نوٹ بندی کے پانچ سو اور ہزار کے نوٹوں کی طرح ہوگیا ہے؛گو تبدیلی کی معیاد 30sepتک ہے لیکن ایک ون اور ایک وقت میں صرف دس نوٹ کی تبدیلی کی تحدیدات عوام کو لائن حاضر کردے گی۔پہلی نوٹ بندی کی تباہی کا کانڈ دراصل چار ماہ بعد یوپی ریاستی الکشن سے پہلے کیا جاکر اپوزیشن کو مالی طور پر بے لباس کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا؛اور اب 30sepکے بعد مدھیہ پردیش ‘راجھستان اور چھتیس گڑھ اور اس سے متصل تلنگانہ کے ریاستی انتخابات کا نمبر ہے۔حالانکہ دوہزار کے نئے نوٹ کی پرنٹنگ بند ہوچکی ہے لیکن اس درمیان ایک لاکھ کروڑ سے زیادہ ویلیو کے نوٹ سرکولیشن سے غائب ہو کر کالے کرتوتوں والے دھنّا سیٹوں کے بڑے غاروں کا حصہ بنائے جاچکے ہیں؛یہی حال 500کی کرنسی کا ہے کہ آٹھ لاکھ کروڑ سے زائد قدر کے نوٹ سرکولیشن سے غائب کیے جاچکے ہیں۔
کیا اس طرز کے اقدامات سے عوامی مقبولیت میں اتھل پتھل اور سرکارو شہزادوں کی گھبراہٹ کا احساس اجاگر نہیں ہورہا ہے۔ان دو چار سالوں میں نہ سرکار اور نہ ہی منتری منڈل اور نہ ایک دو نمبروں کے منہ سے نوٹ بندی اور GSTکا تذکرہ سننے کا موقع ملتا رہا ہے ؛ابھی کچھ دن گزرے ہیں جب Oxfamانٹرنیشنل کی رپورٹ منظر عام پر آئی ہے کہ بھارت کی باٹم50%آبادی جملہ GSTکا 64%ادا کرتی ہے اور اوپر کے بادبانوں پر مکھن ملائی کھانے والے10%GSTدیتے ہیں۔بھارت میں ارب پتیوں کی تعداد 119ہے جب کہ 2000میں 9سے بڑھ کر2017میں 117ہوگئی ہے۔ظاہر ہے چکّی میں باریک پیسے جانے والی باٹم لائن بیچاری غریب پبلک ہے جس کو ہندوتؤ کے نام اور مذہبی منافرت کے الاؤ میں جھونکا جاکر انتخابی کامیابی حاصل کی جاتی ہے؛امیر امیر اور غریب بیچارہ غریب تر ہوتا جارہا ہے۔
٭اصل حقیقت یہ ہے کہ دیس تجربہ کار دیس پریمی سیاستدانوں کے دم خم اور نیت و نیتی سے چلتا ہے؛اور اگر بیوروکریٹس کے نرغے میں پھنس جائے تب بزنس ہو کہ دیس دیوالیہ ہونے تک لاعلم رہتا ہے یا رکھا جاتا ہے؛اور تاریخ بھی اس تاریک پہلو پر شاہد ہے؛من موہن کی کانگریس سرکار نے دنیا بھر میں چھائی کساد بازاریRecession کی پریشانی کا کامیاب مقابلہ کیا اور بھارت کو اس بھنور سے نکال آئے ؛شاید اسی لیے مودی کے ہمزاد کیجریوال نے پڑھے لکھے پی یم اور قائد کی اہمیت کو واضح کیا تھا۔
بلکہ دلّی اسمبلی میں ان کی ایک کامل تقریر کا لب لباب ہی یہ تھا کہ بابوؤں کے بھروسے اور بیوروکریٹس کے سہارے پر حکومت سے ایک نہ ایک دن ڈھول کا پول کھل جاتا ہے جیسا دیس اور دنیا نےTelePrompterکے تجربے کو من کی آنکھوں سے دیکھا اور سنا تھا اور دیس واسی اور دیس نوٹ بندی اور GSTکو جھیل رہا ہے۔اس مندی کی آفت کو من ریگا ‘چھٹا پے کمیشن کی اجرائی کے علاوہ خود اپنی زراعت پر مکتفی بھارت کی حقیقت کو سمجھنا ہے؛جب کہ میک ان انڈیا کا حاصل یہ ہے کہ اکسپورٹ میں گراوٹ اور برآمدات میں بے انتہا اضافہ نے بھارت دشمن چین کے آگے ملک اور قیادت کو چیں بہ جبیں کرکے منہ پر قفل ڈال دیا ہے۔یقینا یہ من موہن جیسے ماہر معاشیات کا کمال تھا جس کو بعد کے غارتگروں نے ہر محاذ پر اس طرح ناکام بنایا کہ چنندہ کارپوریٹ کے دولت و وسائل میں بڑھوتری میں بڑھاوا نیز82کروڑ سے زاید(58%)کو 5kgکی خیراتی تھالی تھمادی کہ منوواد کا فلسفہ انہی نتائج وَ فطرت کاغماز ہے۔
٭ساؤتھ انڈیا کے پرویش دوار کرناٹک کی ٹانک نے کانگریس کی قوت فکر و عمل میں مہمیز کا کام کیا ہے؛کرناٹک کی224جملہ سیٹس میں42.9%حمایت سے 2018کے مقابلہ میں55نئی سیٹس(جملہ135) پرکانگریس کامیابی ہوئی ہے؛ بھاجپا کو104کے مقابلہ میں38حلقوں میں محرومی کا سامنا کرتے ہوئے 66پر اکتفا کرنا پڑا ہے۔لنگایت اور ووکّا لنگا طبقہ کے علاوہ کنڑ مسلم ووٹ کی کانگریس کے حق میں اجتماعی رائے دہندگی اور جنتا دل پر عدم اطمینان اس عظیم اکثریتی کامیابی کی اصل وجہ اور بھاجپا کی کراری ہار کا باعث بنی ہے۔کرناٹک نے دیس بھر کو واضح پیام دیا ہے کہ بنی نوع کے درمیان نفرت و منافرت اور مذہب کے نام پر تقسیم اب ناقابل قبول ہے ۔کرناٹک قیادتوں میں اتحاد(سدا رامیا شیوکمار)مددگار رہا ہے
سب سے زیادہ نقصان تومودی فیکٹر کا ہوا ہے اور مودی ناقابل تسخیر نہیں رہے ہیں؛مودی کے زیر قیادت BJPجملہ ریاستی الکشن میں سے آدھے پر ناکامی کی مہر لگ گئی ہے۔کرناٹک کے جملہ 224میں 48سیٹس پر بھاجپا تیسرے اور چوتھے مقام سے آگے نہ بڑھ پائی ہے؛بلکہ 20سے زاید مقامات پر ضمانت کو ضبط کرنے کے سوا کوئی چارہ کارچھوڑا نہیں ہے۔یہی حال جلندھر کی پارلیمانی سیٹ کا ہے جہاں AAPنے بھاجپا کی ضمانت ضبط کرادی ہے۔تاریخ و جغرافیہ میں 9کا چمتکاری ہندسہ انقلابی اور کایہ پلٹ بھی واقعہ ہوا ہے؛اسی عرصہ میں اس دنیائے فانی میں مستقبل کا فنا سے ہمکنار ہونے والا جنم لیتا ہے ؛چنانچہ ان 9مودی سالوں میں عروج زوال کی طرف گامزن دکھائی دیتا ہے؛تبھی تو ہماچل کے بعد کرناٹک میں مودی کو منہ کی کھانی پڑی ہے؛اور پپّو بنایا گیا اب پپّا بن کر عددی اضافہ کا سبب بنتا جارہا ہے۔
٭No One killed Jesicaطرز پرٹینی مہاراج زاید از بیس سال سے چل رہے مقدمے میں قتل سے مکتی پاچکے ہیں؛مقدمہ قتل کا یہ طویل دورانیہ جب کہ باہو بلی پر پانچ پانچ برس تک فیصلہ ریزرو کردیا جائے جب کہ چھ ماہ میں اس کو ڈیلیور کردینا چاہیے کیا عدلیہ پر عوام کا عدم اطمینان و بھروسہ کا سوال کھڑا نہیں کرتا ہے؛اور ان پر اوپری عدلیہ کوئی تادیبی عرض و معروضہ سے بھی بری رہتی ہے تب لازم ہے کہ اس طرز کو تبدیل کرنا حقیقی انصاف قائم کرنے کامترادف ہوگا ورنہ یہ فریقین پر ظلم وَناانصافی ٹہرے گی۔گویائی مہر بہ لب ہوجاتی ہے جب کوئی گوگوئی مہاراج آنکھ و ضمیر کے پانی کو مردہ کیے عدل وانصاف کو پرے کیے داخل پارلیمان ہوجاتے ہیں؛دوسری جانب جج لوہیا کی مشکوک موت ہنوز معمہ بنی ہوئی ہے۔اصل مسئلہ ججوں کے مناصب نہیں ہیں بلکہ ان کرسیوں پر جو وارِد ہوتے ہیں ان کی اُٹھان پرورش اور فکری و ذہنی ساخت وترویج پر بات آٹکتی ہے؛جس رنگ کا چشمہ زیر استعمال ہوگا دنیا اور واقعات اور مقدمات کے حتمی اختتامی نتائج اسی رنگ و روغن کو ثبوت فراہم کریں گے۔
٭نئی نسلوں کی فکری وذہنی اجزائے ترکیبی کانتیجہ وَ حاصل نہ صرف انتظامیہ وَبیوروکریسی بلکہ نظام عدل و انصاف پر لاگو ہوتا دیکھا جاسکتا ہے ۔چنانچہ بابری مسجد کی ملکیت اور زمین کادیوانی مقدمہ ہو یا اسی طرز کے زعفرانی احاطہ کے معاملات کیوں نہ ہوں نتائج کا رنگ اور اقدامات کاڈھنگ بھگوا بیزار ی سے پرے۔۔۔ اضافی زعفرانی چمتکار وَہلاکت خیز چانکیائی کا ہم معنی ہوگا ۔چنانچہ اسی قبیل کے ایک اور ادارے الکشن کمیشن پر حیرت کرنا وقت اور توانائی کی بربادی قرار پائے گی؛چاہے تحقیقاتی خود مختار ادارے و ایجنسیز ہوں کہ بکاؤبے ضمیر میڈیا کا کردار کا سوال ہو دیکھا یہی جائے گا کہ وہ ملک کی خدمت حقیقی کی بجائے ہز ماسٹر س وائس بنے رہنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ محافظ دستور عدلیہ کو خود اپنے دامن میں اور ملک کے میڈیا کی زہرناک گلفشانیوںپر کڑے اقدامات کے ما سوا کوئی چارہ کار بچا نہیں ہے۔وزیر قانون کرن رجیجو کی تبدیلی ہوسکتا ہے کہ عدلیہ کے ریڑھ کی ہڈی کی مظبوطی کا سبب ہو یا پھر ملک کے بدلتے ماحول کی ہیبت ناکی کا مظہر ہو بحر حال خوش آئند ہے۔
٭جنتر منتر پر دھرنے پر بیٹھی خواتین اتھیلیٹس اپنی عزت کی محافظت اور ناموس کی برقراری پر احتجاج مجسم بنی ہوئی ہیں اور سرکارکسانوںکے دھرنے کی مانند عدم پذیرائی و اہنکار کا مربہّ بنی ہوئی ہے؛کیا یہ رویہ بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ سے میل کھاتا ہے؛اور کیا کیرالا کی بیٹیاں دیس کی بیٹیاں نہیں ہیںکہ 32000کی کیرالا اسٹوری اور ان کی عزت نفس کو سودا چھوٹے اور بڑے جادوگر نے اپنی تقاریر میں موردِ الزام ٹہرایا ہے؛اور کیا کیرالاکی ریاست بھارت کا انگ نہیں ہے کہ اس کا اور پبلک کا خیال رکھا جائے۔گہرائی و گیرائی سے غوروفکر اس نتیجہ پر پہنچا تا ہے کہ اس ماحول نامطلوب کی آبیاری میں تمام عوام کی حصہ داری ہے؛کیونکہ جمہور کی مرضی وَرائے دہندگی سے اونچے مناصب پر فروترلوگوں کو بٹھایا گیا ہے بھارتی مسلم سماج ایسے مسموم و منافرت گزیدہ ماحول میںاپنی مومنانہ حکمت بالغہ‘یکجہتی‘اتحاد و فراست سے اپنی اور آئندہ نسل نو کے تحفظ کی تدابیر اختیار کرتی ہوئی کامیابی سے ہمکنارنیز ملک و ملت کی خدمت کر پائے گی۔
٭بہار میں باباؤں کی دھوم چوکڑی بھاجپا کی بوکھلاہٹ وَتلملاہٹ کی حقیقت واضح کررہی ہے۔بھاجپا شاید جھنجھلاہٹ میں بھول بھال گئی ہے کہ اس کے ماقبل ترپ کے پتوں میں گرمیت اور آسارام کا انجام عوام کے سامنے عین سر پر سورج کی طرح واضح ہے اور اب نفرت کے بازاروں کے بند ہونے اور محبت کے مآل کھولنے کا وقت آن پہنچا ہے؛اس پس منظر میںجب کہ کارکردگی کے نام پر دھوکہ فریب ڈھکا چھپا نہیں رہ گیا ہے بلکہ جھولا لے کر جانے کا وقت صاف دکھائی دے رہا ہے تبھی تو آخری کوشش کے طور پر بابا باگیشور(دھیریندر شاستری)کی چرن وندنا چھوٹے نھنوں سے لے کر بڑے برانڈمثلامرکزی وزیر گیری راج سنگھ‘MPکرپال سنگھ وَمنوج تیواری جٹے ہوئے ہیں؛
RJD/JDUکے ملاپ اور کانگریس کے ساتھ نے بھاجپا کو نہ صرف اسمبلی الکشن بلکہ 24کے مرکزی انتخابات میں متفکر کردیا ہے؛اور اس طرز کا گٹھ بنددھن مہاراشٹر میں بھی بھاجپا کی کھجلی میں اضافہ کا سبب ہوگیا ہے جہاں پر مہا اگھاڑی اتحاد نے اقتدار میں رہنے کے علاوہ آپریشن کنول کی ڈاکہ زنی کے بعدبھیبرقرار ہے؛ جب کہ ان ماہ و سال میں کانگریس اور شیوسینا کی انتخابات میں بھاجپا کے مقابل کامیابی کے علاوہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں گورنرکوشیاری کی کوششوں پر حرف گیری یقینا کرب کا باعثہے‘ اور شنڈے شیوسینا اور پھڈنویس بھاجپا گٹھ بندھن کی سرکار کو غیر دستوری قرار دیا ہے؛بہار کے 40اور مہاراشٹرا کے 48یعنی 88کی تعداد پر تلوار لٹکی ہوئی ہو تب آخری بھاجپائی حربہ ہندو مسلم اور نفرت و منافرت کے فروغ کے لیے اس طرز کے سماج کو پھاڑنے چیرنے والے باباؤں کا سہارا لینے کے علاوہ کوئی اور چارہ کار BJP/RSSکے لیے بچا نہیں رہ جاتا ہے؛لیکن جب برا وقت آتا ہے تو آتا ہی جاتا ہے اور پاتال تک پہنچا تا ہے۔