مذہب

تاریخ جامعہ نظامیہ ….ایک تعارف

مؤرخ اعظم علامہ ابن خلدونؒ نے تاریخ کی تعریف یوں بیان کی ہے کہ ’’تاریخ دنیا کے تمام علوم و فنون کا سرچشمہ اور گزرے ہوئے زمانے کا ایسا آئینہ ہے جس میں بزرگان سلف کے حالات ‘ انبیائے کرام کی سیرتیں‘ حکمرانوں اور بادشاہوں کا طرز جہاں بانی و جہاں گیری‘ اقوام عالم کا طرز تمدن اور معلومات عامہ کو دیکھا جاسکتاہے‘‘ (مقدمہ تاریخ ابن خلدون)

قاضی ابواللیث شاہ محمد غضنفر علی قریشی اسدؔ ثنائی
صدرنشین الانصار فاؤنڈیشن

متعلقہ خبریں
مشرکانہ خیالات سے بچنے کی تدبیر
ماہِ رمضان کا تحفہ تقویٰ
چائے ہوجائے!،خواتین زیادہ چائے پیتی ہیں یا مرد؟
دفاتر میں لڑکیوں کو رکھنا فیشن بن گیا
بچوں پر آئی پیڈ کے اثرات

مؤرخ اعظم علامہ ابن خلدونؒ نے تاریخ کی تعریف یوں بیان کی ہے کہ ’’تاریخ دنیا کے تمام علوم و فنون کا سرچشمہ اور گزرے ہوئے زمانے کا ایسا آئینہ ہے جس میں بزرگان سلف کے حالات ‘ انبیائے کرام کی سیرتیں‘ حکمرانوں اور بادشاہوں کا طرز جہاں بانی و جہاں گیری‘ اقوام عالم کا طرز تمدن اور معلومات عامہ کو دیکھا جاسکتاہے‘‘ (مقدمہ تاریخ ابن خلدون)

فرہنگ کے مطابق تاریخ کا مفہوم کسی چیز یا واقعے کے ظہور کا وقت‘ کسی امر عظیم کے وقت کا تعین‘ زمانے کا عرصہ‘ اور وہ علم جس میں گزشتہ واقعات اور سیر سے بحث کی جائے۔ بادشاہوں‘ نامور ہستیوں‘ قوموں کے حالات واقعات اور حادثات کا تحریری تذکرہ‘ قصہ ہائے پارینہ کا محنت و ریاضت کے ساتھ بیان کرنا تاریخ کہلاتاہے۔

پروفیسر ڈبلیو واش لکھتا ہے کہ ’’تاریخ کا اصل مقصد ہے لوگوں کو ان کے دور کے کردار سے دوسرے دور کے کرداروں کے تقابلی جائزہ کی مدد سے واقف کروانا۔

تاریخ انسانی یادداشت کا وہ گنج گراں مایہ ہے جس کی روشنی میں انسان اپنے حال اور مستقبل کے بارے میں سوچ سکتاہے‘ اگر انسان کی یادداشت گم ہوجائے تو وہ ناکارہ ہوجاتاہے‘ اپنے ماضی سے کٹ کر بیتی ہوئی باتوں کو بھلا کر انسان اپنی زندگی بسر نہیں کرسکتا۔ قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے انبیاء علیھم السلام کے جو واقعے بیان فرمائے ہیں ان سے تاریخ کی جہات واضح ہوتی ہیں‘ تاریخ نگاری مقصدیت سے جڑی ہوتی ہے اور ایسے ہی بامقصد عزائم کے تحت یہ تاریخ ساز کتاب ترتیب دی گئی ہے جو کہ جنوبی ہند کی قدیم و عظیم درس گاہ جامعہ نظامیہ حیدرآباد کے قیام سے لے کر اس کے 125سالہ جشن تاسیس تک کے روشن ادوار کا احاطہ کرتی ہے۔ ان سوا سو سالوں کے نشیب و فراز کے ساتھ سلطنت آصف جاہی کے عہد زریں اور آزادی کے بعد ترقی پذیر زمانے میں جامعہ نظامیہ نے ارتقا کے جو زینے طے کیے ہیں اس کی مکمل تفصیل دکن کے نامور اہل قلم، مدبر و فریس دانشور‘ باکمال انشا پرداز حضرت علامہ مولانا شاہ محمد فصیح الدین نظامی کے زور قلم کا نتیجہ ہے۔

یوں تو مولانا فصیح الدین نظامی کی کئی اہم کتابیں جیسے بانی جامعہ نظامیہ کی حیات و خدمات پر مبنی ضخیم کتاب ’’مرقع انوار‘‘  سیرت پر لکھے گئے علمائے جامعہ نظامیہ کے مضامین کا مجموعہ ’’سلطانِ مدینہ‘‘ ، ’’کنزالعلوم حضرت علامہ مفتی محمد عبدالحمید صدیقی ؒ ، حیات و خدمات‘‘، ’’جلالۃ العلم۔ مرقع حیات و علمی خدمات‘‘، حضرت علامہ حاجی محمد منیرالدین ؒکی علمی خدمات پر مشتمل کتاب ’’مہر ِ منیر‘‘ ، ’’مقالات ِ طاہر‘‘ اور ’’حضرت عبداللہ قریشی الازہری حیات و خدمات‘‘ کے علاوہ درجنوں کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں اور کئی کتابیں مسودوں کی شکل میں اپنی باری کا انتظار کررہی ہیں۔ ہمارے یہاں ہوتا یہ ہے کہ کام کرنے والے اپنی آنکھوں کے چراغ جلاکر بڑا قیمتی سرمایہ ہمارے حوالے کرکے چلے جاتے ہیں اور ہم اپنی بے رغبتی اور لاپرواہی کی وجہ سے اس قیمتی سرمائے کو انسانی نسلوں کے بجائے دیمک کی نسلوں کے حوالے کردیتے ہیں اور وہ سرمایہ یوں ہی ضائع ہوجاتاہے‘ شکر ہے پروردگار کا کہ مولانا فصیح الدین نظامی کے اس عظیم علمی کارنامے کو حیدرآباد کی معروف علمی، ادبی، اصلاحی تنظیم الانصار فاؤنڈیشن نے خوبصورت کتابی جامہ پہنایا اور یہ بہت بڑی بات ہے اللہ نے چاہا تو یہ سلسلہ جاری رہے گا اور ان کی دیگر کتابیں بھی منصہ شہود پر آتی رہیں گی۔ ویسے یہ بات سبھی جانتے ہیںکہ کتاب شائع کرنا کتنا جوکھم کا کام ہوتاہے‘ خصوصاً اس دور میں جسے قحط الرجال کا دور کہا جاتاہے‘ اکثر علما‘ ادبا‘ شعرا اپنی کتابیں چھپا کر چھُپادیتے ہیں ۔

مولانا نظامی کو نثر و نظم کے دونوں میدانوں سے دلچسپی ہے مگر نثر آپ کا پہلا عشق ہے‘ فن تاریخ و سوانح نگاری سے آپ کو گہرا لگائو ہے۔زیر نظر کتاب ’’تاریخ جامعہ نظامیہ‘‘ آپ نے محنت شاقہ سے ترتیب دی ہے‘ یہ ضخیم کتاب تین جلدوں پر مشتمل مادر علمی جامعہ نظامیہ کا وہ انسائیکلوپیڈیا ہے جس کی سخت ضرورت عرصہ سے محسوس کی جارہی تھی‘ آنے والے ادوار میں جب امت مسلمہ کی جدیدو مابعد جدید نسلیں اس عظیم دانش گاہ کی عظمت رفتہ کا احوال جاننا چاہیں گی تو یہ کتاب مشعل راہ بن کر ان کی رہنمائی کرے گی۔یہ تینوں جلدیں بہت سلیقے سے ترتیب دی گئی ہیں‘ پہلی جلد جامعہ نظامیہ کے قیام سے لے کر 125سالہ جشن تاسیس تک کے احوال کا مرقع ہے‘ دوسری جلد علمائے جامعہ نظامیہ کی حدیثی خدمات پر مشتمل ہے اور تیسری جلد میں دارالافتاء و مفتیان جامعہ نظامیہ کی خدمات کا مفصل جائزہ لیا گیا ہے۔ مکمل طور پر یہ جلدیں بارہ سو (1200)سے زائد صفحات پر مشتمل ہیں۔ تمام مضامین کو عناوین کے ساتھ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے‘ میرا دل چاہتا ہے کہ میں سب سے پہلے جلد سوم کے بارے میں بات کروں۔ جلد سوم میں دو باب ہیں (1) تاریخ دارالافتاء جامعہ نظامیہ و مفتیان کرام (2)جدید فقہی مسائل اور ان کا شرعی حل۔

یہ سارے مضامین تاریخ‘ سوانح‘ مسائل‘ تعارف‘ لسانیات‘ درسیات‘ فتاویٰ اور ایسے ہی کثیر الجہات دینی موضوعات سے جڑے ہوئے ہیں جن کا راست تعلق جامعہ نظامیہ کی تاریخ سے ہے‘ یہ لگ بھگ 133مضامین ہیں جن میں معاشرے میں علماء کی ضرورت‘ طریقہ تدریس میں تبدیلی کی ضرورت‘ شان علما‘ استفتا اور فتویٰ کا تاریخی تسلسل‘ خدمت افتا اور جامعہ نظامیہ‘ فتوی اور شیخ الاسلام بانی جامعہ نظامیہ‘ غیر مقلدین کی مسجد کا حکم؟‘ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے مساوی‘ میڈیا کی اہمیت اور عصر حاضر اس کے علاوہ کئی جدید فقہی مسائل جیسے برائلر مرغی کا استعمال‘ انٹرنیٹ اور فون پر نکاح‘ ہیلت انشورنس کا حکم‘ شیئر مارکٹ‘ ٹیلی ویژن‘ تین طلاق‘ جوڑے کی رقم‘ اسقاط حمل‘ بین مذاہب شادیوں کا حکم ایسے کئی حساس مسائل پر قرآن و حدیث کی روشنی میں بہترین انداز میں گفتگو کی گئی ہے۔ یہ جامعہ نظامیہ جیسی عظیم دانش گاہ کی سوغات ہے۔

واقعی جامعہ نظامیہ ملک و ملت کا وہ سرمایہ ہے جس پر ملت اسلامیہ رہتی دنیا تک فخر کرتی رہے گی۔ بالخصوص دارالافتاء کی خدمات پر دفتر کے دفتر سیاہ کیے جاسکتے ہیں۔

’’تاریخ جامعہ نظامیہ‘‘ کے مقدمے میں مولانا نظامی رقم طراز ہیں کہ :

’’برصغیر ایشیا کی عظیم دانش گاہ جامعہ نظامیہ اسلامیہ حیدرآباد کے قدیم دارالافتاء کا شمار وطن عزیز ہندوستان کے عظیم فقہی و اجتہادی اداروں میں ہوتاہے ۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں مستند و مدلل فتاوی جاری کرکے ملت اسلامیہ کی رہنمائی‘ متوازن اور ثقہ فتاوی کے ذریعے قوم و ملت کے عقیدہ و عمل کا قبلہ صحیح رکھنے کا گراں قدر فریضہ انجام دینے والے اس تاریخ ساز ادارہ کے مفتیان کرام کے تذکرے سے حیدرآباد ہی نہیں تاریخ جامعہ نظامیہ بھی خاموش دکھائی دیتی ہے‘ ایک صدی سے زائد عرصہ گزرجانے کے بعد بھی اس موضوع پر ایک مقالہ‘ رسالہ یا کتابچہ ہی سہی منظر عام پر آیا نہ اس کو مرکزی موضوع قرار دے کر اندرون جامعہ و بیرون جامعہ کچھ لکھا گیا‘‘

’’تاریخ جامعہ نظامیہ‘‘ کی دوسری جلد سات ابواب پر مشتمل ہے اس جلد میں انتہائی اہم مشمولات ہیں‘ حدیث کی ضرورت اور دکن میں ترویج و اشاعت‘ جامعہ نظامیہ اور علم حدیث‘ محدثین عالم‘ محدثین ہند‘ محدثین دکن‘ حضرت شیخ الاسلام کی علم حدیث میں اشاعتی خدمات‘ علم حدیث کی مشہور کتابوں کا تعارف عربی متن اور اردو تراجم کی خوش سلیقگی کے ساتھ پیشکش یہ مولانا نظامی کا ہی حق ہے۔ مشاہیر قوم و ملت نے اسلامی ورثے کے تحفظ کے لیے سر دھڑ کی بازی لگادی تھی اور مولانا نظامی نے اس روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنے حصے کا چراغ روشن کیا ہے۔ بانی جامعہ نظامیہ شیخ الاسلام حضرت انواراللہ فاروقی کی ذات والاصفات سے انہیں گہری عقیدت و محبت ہے۔ اس ضمن میں مولانا نظامی رقم طراز ہیں :

’’خانوادئہ فاروقی کی ممتاز شخصیت مصلح قوم و ملت‘ معمار زبان و ادب‘ صوفی و شاعر‘ مفکر ومجدد‘ شیخ الاسلام امام الشاہ محمد انواراللہ فاروقی الملقب بہ فضیلت جنگ طاب اللہ ثراہ نے 19ذی الحجہ1292 ہجری مطابق 1875ء میں اس عظیم دانش گاہ کی بنام خدا توکل و اخلاص پر اساس رکھی اور خون جگر سے 40سال سے زائد عرصے تک سینچا‘ پودے کو شجر‘ قطرہ کو گہر بنایا‘ شب و روز اس کی ترقی و ترفع اور اس کے معیار و مستویٰ علمی کو بلند سے بلند تر کرنے میں اپنی ساری توانائیاں صرف فرمادیں۔ دنیا بھر کے تشنگان علم و معرفت کی سیرابی کے لیے اس کے دروازے کھول دیے اور اپنی مسند علم و فضل پر رونق افروز ہوکر بلا تخصیص رنگ ونسل‘ علاقہ و زبان علم و ادب کی دولت بے بہا بانٹنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے تفسیر‘ حدیث‘ فقہ‘ رجال‘ سیرت‘ تاریخ‘ ادب‘ ریاضی‘ الجبرا‘ شریعت‘ طریقت‘ معرفت‘ حقیقت حکمت‘ منطق‘ فلسفہ‘ کلام‘ عقائد‘ تصنیف و تالیف‘ تحقیق و تعلیق‘ فیصلہ و فتوی‘ تعلیم و تدریس‘ تبحر و تفحص کے میدان میں بہار آگئی‘‘۔

اسی طرح آپؒ کے جید تلامذہ کا تعارف بھی مولانا نظامی نے دوسری جلد میں شامل فرمایا ہے۔ اور علم حدیث کے باب میں مکمل توضیحات و تشریحات کے ساتھ مضامین رقم فرمائے ہیں‘ یوں سمجھئے کہ دریا کو پیالے میں قید کردیا ہے۔ ا س طرح اکمل واجمل طریق سے تحقیق کا حق ادا کرنا بس مولانا نظامی کا ہی حق ہے ۔ قارئین کی دلچسپی میں اضافہ کرنے کے لیے میں نے اس کتاب کی تینوں جلدوں پر معکوس تبصرہ کیا ہے پہلے تیسری جلد کے بارے میں پھر دوسری جلد کے بارے میں اور سب سے آخر میں جلد اول پر آیا ہوں‘ ٹھیک اسی طرح جیسے اکثر انعامی تقریبات میں انعام اول سب سے آخر میں دیا جاتاہے۔ سارا لب لباب‘ علم و تحقیق کا نچوڑ اور اول و آخر کا مکمل جائزہ تاریخ جامعہ نظامیہ‘ تاریخ دکن‘ حضرت شیخ الاسلام کے علمی کارناموں کا مفصل ذکر‘ ہندوستان میں اسلام کا رول‘ نظامیہ کی پہلی کھیپ کے عظیم صاحبان علم و دانش کا تعارف‘ جامعہ نظامیہ کے قیام سے پہلے کا تاریخی پس منظر‘ اسباب تاسیس جامعہ نظامیہ‘ سلطنت آصفیہ کی علمی سرپرستی‘ پولیس ایکشن سے پہلے اور پولیس ایکشن کے بعد‘ عصر حاضر کے علما و مفکرین مفتیٔ اعظم حضرت علامہ مولانا مفتی محمد عظیم الدینؒ اور مفکر اسلام زین الفقہاء حضرت علامہ مفتی خلیل احمد مدظلہ کے اذکار روشن کے علاوہ متعدد علماء و اساتذہ کے تذکرے‘ تاریخ نویسی کی اہمیت و افادیت‘ کتب خانہ جامعہ نظامیہ کا تذکرہ جس میں ہزاروں مطبوعات اور نادر مخطوطات موجود ہیں۔ دستاویزات ، فرمانات اور اسناد کے عکس کے علاوہ متنوع تاریخی رشحات اس کتاب میں موجود ہیں۔ یعنی سوا صدی کا لیکھا جوکھا جلد اول میں سمایا گیا ہے جو تینوں جلدوں میں سب سے زیادہ ضخیم ہے۔ مولانا نظامی نے جامعہ نظامیہ کی ناقابل فراموش تاریخی خدمات کو چار ادوار میں تقسیم کیا ہے‘ جامعہ کا پہلا دور1292 ھ تا1336 ہجری کا ہے یہ 42سالہ دور مؤسس جامعہ حضرت ابوالبرکات انواراللہ فاروقی کا عہد بابرکت ہے‘ دوسرا دور 1336ہجری تا1370 ہجری کا ہے یہ 34سالہ دور موسس جامعہ کے وصال کے بعد آصف سابع نواب میر عثمان علی خان کی شاہانہ سرپرستی کا دور ہے۔ جامعہ نظامیہ کا تیسرا دور 1371ھ تا1398 ھ کا ہے، 24سالہ دور جامعہ کے قومی ہونے کا ہے (یعنی شاہی سرپرستی کے اختتام پر عوامی ہونے کا ہے) 1948 ء کے بعد سے جامعہ نظامیہ عوامی عطیات اور اعانتوں کی اساس پر اپنے اخراجات کی پابجائی کررہا ہے۔ اس دور میں کئی نشیب و فراز آئے لیکن جامعہ کے عزم سفر میں کوئی فرق نہیں آیا۔ جامعہ کا چوتھا دور1398 ھ تا1418 ھ کا ہے جو 125سالہ جشن تاسیس پر ختم ہوتاہے۔

اس کتاب کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟ اس نکتہ پر بھی دیانت دارانہ انداز میں لکھا گیا ہے‘ مولانا نظامی رقم طراز ہیں کہ

’’میں نے بڑی جرأت و جسارت سے کام لیا‘ اس کتاب میں میں نے مولانا شاہ ابوالخیر کنج نشیں جنیدیؒ فاضل نظامیہ و مدیر مجلہ نظامیہ کی تحریروں سے بے پناہ استفادہ کرتے ہوئے اور انہیں کی قائم کی ہوئی بنیادوں پر جامعہ کے تاریخی حقائق کو مبسوط انداز میں آگے بڑھانے کی ایک حقیر سی کوشش کی ہے۔‘‘

مولانا نے یہ بھی لکھا ہے کہ

’’ہندو بیرون ہند کی ہر بڑی جامعہ و مدرسہ کی تاریخ دستیاب ہے لیکن مادر علمی جامعہ نظامیہ کو قائم ہوئے ڈیڑھ سو سال کا طویل عرصہ گذرجانے کے باوجود کسی بھی فرد بشر کا دھیان اس جانب نہ گیا‘‘۔

مولانا نظامی نے بہت سارے اسباب کا ذکر کرتے ہوئے مقصد تالیف کو اُجاگر کیا ہے۔ بہرکیف جلد اول کا مقدمہ خاصے کی چیز ہے۔ قارئین سے التماس ہے کہ آپ بہ نفس نفیس اس کا مطالعہ کرتے ہوئے اپنے علم اور عشق میں اضافہ کریں۔

یہ بھی ایک سچائی ہے کہ مولانا فصیح الدین نظامی کی لکھی ہوئی کتابوں میں تاریخ جامعہ نظامیہ ایک معرکۃ الآرا کتاب ہے جو تاریخ کا حصہ بننے جارہی ہے اور آنے والی نسلیں دیکھیں گی کہ مستقبل کا مؤرخ یہیں سے مواد اخذ کرکے کار تحقیق انجام دے گا ‘ محققین کے لئے یہ ایک تاریخی دستاویز اور حوالہ کی کتاب بن جائے گی۔ ریسرچ اسکالرز شواہد کی تلاش میں نکلیں گے تو یہ کہیں گے کہ ’’تاریخ جامعہ نظامیہ‘‘ کی فلاں جلد کے فلاں صفحے پر یہ لکھا ہے‘ فلاں سطر میں وہ لکھا ہے وغیرہ وغیرہ!

چونکہ مولانا نظامی تاریخ نویسی کے میدان کے شہسوار ہیں اس لیے انہوں نے اصول تحقیق کے مطابق قارئین کی آسانی کے لیے حوالہ و حواشی کا بھی بغایت اہتمام کیا ہے۔ میں آخر میں بانی جامعہ نظامیہ شیخ الاسلام ؒکو خراج عقیدت پیش کرتا ہوںاور مولانا شاہ محمد فصیح الدین نظامی کی خدمت میں تاریخ جامعہ نظامیہ کی اشاعت پر ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں۔

تاریخ جامعہ نظامیہ کی رسم رونمائی کا تاریخ ساز اجلاس الانصار فاؤنڈیشن حیدرآباد کے زیر اہتمام بحسن سرپرستی مفکر اسلام زین الفقہا حضرت علامہ مفتی خلیل احمد مدظلہ شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ، رکن معزز مسلم پرسنل لاء بورڈ و امیر شریعت تلنگانہ و آندھراپردیش یک روزہ عظیم الشان کل ہند سیمینار ’’شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی شخصیت اور شناخت‘‘ کے زیر عنوان اتوار 12؍مارچ کو صبح 30-9 تا 6 بجے شام ریڈ روز پیالیس متصل حج ہاوس، نامپلی، حیدرآباد منعقد ہو گا۔ نور القراء مولانا حافظ و قاری محمد نور نقشبندی کی تلاوت قرآن پاک سے سمینار کا آغاز ہو گا۔ قاری سید عمران مصطفٰی حسینی نعت پاک اور شاعر خلیج جناب جلیل نظامی ترانۂ انوار پیش کریں گے۔ ممتاز علمائے کرام، مشائخ عظام اور دانشور حضرات بحیثیت مہمانان خصوصی و اعزازی شرکت کریں گے اور تاریخ جامعہ نظامیہ کی تین جلدوں کی رسم اجرا انجام دیں گے۔ ہندوستان کے صف اوّل کے محققین، ناقدین اور اسکالرز علامہ ڈاکٹر ظہیر احمد باقوی راہی فدائی سابق صدر شعبۂ عربی انسٹیٹیوٹ آف ہائر لرننگ بنگلور، پروفیسر ڈاکٹر احمد محفوظ صدر شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی، پروفیسر ڈاکٹر غلام یحی انجم صدر شعبۂ اسلامیات ہمدرد یونیورسٹی دہلی، پروفیسر ڈاکٹر محمد سجاد صدر شعبۂ تاریخ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی علیگڑھ، پروفیسر ڈاکٹر عین تابش صدر شعبۂ انگریزی مرزا غالب کالج مگدھ یونیورسٹی گیا، بہار، علامہ ڈاکٹر نفیس احمد مصباحی شیخ الادب جامعہ اشرفیہ مبارکپور، یو پی، علامہ محمد قمر الدین اشرفی صدر المدرسین جامعہ اشرف،کچھوچھ، یوپی، پروفیسر ڈاکٹر عبدالحمید اکبر صدر شعبۂ اردو و فارسی خواجہ بندہ نواز یونیورسٹی گلبرگہ، کرناٹک، علامہ ڈاکٹر بشیر الحق آل قریش شیخ التفسیر دارالعلوم لطیفیہ، ویلور، ٹمل ناڈو، مولانا ڈاکٹر سراج احمد قادری مدیر اعلی دبستان نعت، سنت کبیر نگر، یو پی، مولانا شاہ عالم گورکھپوری نائب ناظم تنظیم ختم نبوت، سہارنپور، یو پی کے علاوہ مقامی علماء اور اسکالرز علامہ مفتی ڈاکٹر سید ضیاء الدین نقشبندی شیخ الفقہ و صدر مفتی جامعہ نظامیہ، پروفیسر ڈاکٹر محمد نسیم الدین فریس، سابق صدر شعبۂ اردو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد، پروفیسر ڈاکٹر سید علیم اشرف جائسی، صدر شعبۂ عربی مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد، مولانا ڈاکٹر سید وحید اللہ ملتانی، لکچرر ہنری مارٹن انسٹیٹیوٹ، حیدرآباد اور مولانا ڈاکٹر سید من اللہ علوی، وائس پرنسپل ممتاز کالج حضور شیخ الاسلام بانئ جامعہ نظامیہ علیہ الرحمہ کی شخصیت اور شناخت کے مختلف پہلوؤں کا اپنے مقالات میں احاطہ کریں گے اور تاریخ جامعہ نظامیہ کے مؤلف مولانا شاہ محمد فصیح الدین نظامی کی شخصیت اور خدمات پر مقالہ پیش کریں گے قارئین سے التماس ہے کہ اس عظیم الشان تاریخی سیمینار میں شرکت فرمائیں۔
٭٭٭