سیاستمضامین

غافل! اب تو خود پہ آپڑی ہےمـتـــوقـــع ریاسـتـی انـتــخـــابـــــات

ایک مجبوریTRSکی یہ بھی رہی کہ اُس نے درونِ خانہ (پارٹی)داخلے کی دعوت عام کا فلڈ گیٹ کھول کر ہر چھٹانک پاؤسیر کو داخل زنداں کرلیا لیکن کورؤں کی اس نو من فوج کو اڈجسٹ اور Settleکرنے میں ناکام رہی ؛جس کا خمیازہ وہ تا دَمِ تازہ بھگت رہی ہے۔مسلم سماج کی نسبت سے اس کی پریشانی یہ رہی کہ وہ اپنے سیاسی پکوان(پارٹی کی وسعت وَمضبوطی) کی خاطر ترکاری دال بھات اور دودھ دہی اور سگریٹ پان تمباکو ہی کو نہیں بلکہ لحم تازہ وَباسی کو لابسایا تاہم اس طرز و طریقے کی وجہ سے قابل‘ عوامی نفوذ کے حامل‘پُر وَقار مسلم رہنماؤں کی شمولیت سے نہ صرف محروم رہی بلکہ مسلم سوسائٹی کا کلّی اعتماد حاصل کرنے میں کما حقہ کامیابی حاصل نہ کرسکی

ظفر عاقل

ایک مجبوریTRSکی یہ بھی رہی کہ اُس نے درونِ خانہ (پارٹی)داخلے کی دعوت عام کا فلڈ گیٹ کھول کر ہر چھٹانک پاؤسیر کو داخل زنداں کرلیا لیکن کورؤں کی اس نو من فوج کو اڈجسٹ اور Settleکرنے میں ناکام رہی ؛جس کا خمیازہ وہ تا دَمِ تازہ بھگت رہی ہے۔مسلم سماج کی نسبت سے اس کی پریشانی یہ رہی کہ وہ اپنے سیاسی پکوان(پارٹی کی وسعت وَمضبوطی) کی خاطر ترکاری دال بھات اور دودھ دہی اور سگریٹ پان تمباکو ہی کو نہیں بلکہ لحم تازہ وَباسی کو لابسایا تاہم اس طرز و طریقے کی وجہ سے قابل‘ عوامی نفوذ کے حامل‘پُر وَقار مسلم رہنماؤں کی شمولیت سے نہ صرف محروم رہی بلکہ مسلم سوسائٹی کا کلّی اعتماد حاصل کرنے میں کما حقہ کامیابی حاصل نہ کرسکی۔کسی بھی سماج و سوسائٹی کے قابل تکریم ذی اثر اور قابل اعتماد رہنماؤں اور لیڈر شپ کی وجہ سے متعلقہ عوام کوہمنوا بنائے رکھنے اور ان پر انتخابی گرفت مضبوط و مفید رکھنے میں آسانی اور کامیابی حاصل ہوتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تلنگانہ میں بر سر اقتدار TRSنے مسلمانوں کو مایوس ضرور کیا ہے۔مسلمانوں کی جانب سے باضابطہ مخالف ماحول سرگرم نہ ہونے کی وجہ TRSکا مجلس سے سیاسی بھائی چارہ ہے؛جب کہ اُونچے ستواں ناک جیسے انتخابی وعدے عملی میدان میں کھرے نہ اُتر سکے ہیں۔راج شیکھر ریڈی کی جانب سے دیے گئے مسلم تحفظات کو 4%سے بڑھا کر 12%کردینے کے KCRجھوٹ اور مودی کی جانب سے ہر ایک کے کھاتے میں پندرہ لاکھ دونوں ایک سیاسی جملہ ہی ثابت ہوئے ہیں۔نظام سرکار کی دہائی اور اچھائی کا تذکرہ بھی جذباتی مسلم ووٹ بٹورنے کا جملہ ہی بن کر رہ گیا ہے کیونکہ سارے سیاسی نظام میں مسلمانوں کی کیا حصہ داری ہے جگ ظاہر ہے۔اصطبل میں چار پایوں کو چارہ تو ڈالا ہی جاتا ہے اسی طرح ہر ایک سرکار کی جانب سے چند ایک دوپایہ کو بھی دان پُن اور سیاسی چارہ ڈالا ہی جاتا ہے چنانچہ مسلمانوں کے ووٹوں کے عوض راج سنگھا سن پر آسن گرہن کیے TRS کی کیا خصوصیت رہ جاتی ہے اور اس پر تو حمام والا محاورہ مناسب محسوس ہوتا ہے۔یہ کام کسی نہ کسی درجہ میں۔۔۔ پیروں کی جوتی کی مدد سے دی جانے والی ۔۔۔سیاسی خیرات بھاجپا بھی بظاہر کرتی آئی ہے۔
منوکا سسٹم بھی پیروں سے نسبت دے کر نچلی طبقات کوشدر قرار دیتا ہے لیکن زندہ رہنے اور خدمت لینے کے لیے روٹی کے ٹکڑے ضرور ڈالتا ہے۔تب TRSکو کونسے سرخاب کے پر لگے ہیں جو وہ اپنے سر پر سجا کر مسلمانوں کے سامنے آئے گی۔جب کہ مسلمانوں کی مساجد کا انہدام اور عدم کاروائی کا داغ اسی کے دامن کا حصہ ہے۔مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لیے شیروانی پہننے سے کام کب تک چل سکتا ہے۔لیکن مسلمانوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ سیاسی رونا روتے رہنے کے ہمراہ سیاسی پارٹیوں کی مسلم قیادتوں کی عدم کارکردگی پرگرفت کریں ۔قوم فروشوں سے بار بار ڈسے جانا خود کی غلطی ہے کیونکہ سانپ کی فطرت تو پھن پھیلانا ‘پھنکاریں مارنا اور ڈسے جانا ہے اور وہ اپنا کرتویہ نبھا ہی رہا ہے۔ملت کی غفلت سے ہم نشینی مستقبل کوتاریک تو بناتی ہی ہے اور یہ کونسی نئی بات ہے۔
Anna(بڑا بھائی) کے ایں قد چمچوں اور ۔۔۔کال مُکتا دورا ۔۔۔ٹائپ کی فوج پر بھاری قیادت جو خود اپنے ذاتی اثرات سے چھوٹے موٹے پولیس اسٹیشن سے بھی اپنی ایما پر کوئی ہل چل پیدا کرنے ‘مسائل حل کرنے یا کسی فر د بشر کو چھڑانے کی سکت و ہمت سے قاصر ہے کیونکہ ان سیاسی قصیدہ کاروں کا وظیفہ اثر انتہائی مختصر محیط ہونے کے علاوہ پاؤں کی جوتیاں سیدھا کرنے سے سوا ہو بھی نہیں سکتا ہے۔TRSکا ایک نقص یہ بھی رہا ہے کہ وہ مسلم مسائل کی نسبت زبانی جمع خرچ کر نے میں نیز اپنے انتخابی وعدوں کی تکمیل میں ناکامی کا سہرا پر سجانے کی بدہضمی کا شکار بھی ہے اسی لیے یک گونہ بیزاری اور لا تعلقی کامسلم سوسائٹی میں پایا جانا کوئی عجب نہیں ہے ۔
دوسری جانب ملک بھر میں چھ دہوں تک راج کرنے والی کانگریس اپنے لیڈر وَکیڈرکی صفوں میں بوڑھے نحیف ونزار دانت ٹوٹے کھادی پوش شیروں کو انتخابی رنگ میںسجا سنوار اور کرتب دکھا کر سمجھ بیٹھی ہے کہ سرکس کے ناظرین(ووٹرس) سحر زدہ ہوجائیں گے اور مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق اپنے حق میں ووٹ کاسٹ کرانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ اب جبکہ ملک گیر واحد اپوزیشن کانگریس کے صف اول قیادتوں پر راست وار اور EDچمتکار ہونے لگا ہے تاکہ بھاجپا کا کوئی مدّ مقابل باقی نہ رہے ۔کانگریس اور راہول گاندھی کا کہنا ہے کہ ملک کے لوک تنتر نہیں بچا ہے۔ مہنگائی بیروزگاری اورسماجی یکجہتی کو عنوان بناکر کانگریس سڑک اور سنسد پر میدان عمل میں ہے۔اور یہی کانگریس کا واحد سہارا ہے جس پر اس کی نشاۃ ثانیہ ممکن ہے چنانچہ منظم اور طویل گلّی تا دلّی عوامی احتجاج کو بنیاد بنانا ہوگا۔پارٹی صدر منصب پر تعیناتی کے علاوہ دوسرے ان تمام لیڈروں پر جن پر EDکے امکانات قوی تر ہیں اور وہ بھی جو G23نام کا راہ کا روڑا ہیں ان کوسائیڈلائین کرکے نئی تازہ دم جوان قیادتوں کو مواقع دینا ہوگا۔
BJPعموما ہر چھوٹے بڑے الکشن کے لیے انتہائی سنجیدہ ہوتی ہے ؛اس کا ہدف واضح ‘متعین اور کارکردگی و تیاری انتہائی منظم اور سر تا پیرسارے سیاسی و انتخابی بدن کو گھیرے میں لیے ہوتی ہے ؛چنانچہ پنّا پرمُکھ سے لے کرہر چھوٹے بڑے لیڈر کاٹاسک واضح ہوتا ہے۔اور RSSجیسی نظریاتی مدر تنظیم کا تعاون اور مدداس کو حاصل ہوتی ہے۔زاعفرانی نظریاتی کھیتی اور باغبانی کا مسلسل ورک اور متاثر ہونے والے افراد وَ ادارے اور ان کی مدد سے بنائے جانے والا ہمہ رخی ماحول مددگار ہوتا ہے۔یہ سارے عوامل بھارت میں کسی پارٹی کو عملاًحاصل نہیں ہیں؛حتیٰ کہ کمیونسٹ پارٹیاں بھی مقابلتاً پیچھے رہ گئی ہیں۔پارلیمانی الکشن2019میں مودی گورنمنٹ کو حاصل ہوئی دوسری جیت کے بعد تلنگانہ میں یہ پہلا ریاستی لکشن ہوگا۔حالیہ ریاستی الکشن میں ملی جیت نے بھی بھاجپا کے حوصلے بڑھا دیے ہیں جب کہ پڑوس کے کرناٹک اور مہاراشٹرا میں کایا پلٹ کا اثر ابھی قوی ہے جب کہ جنوب کی جانب پیش قدمی کے لیے تلنگانہ بھگوا کے ٹارگٹ پر لایا جاچکا ہے۔تلنگانہ میں قبائلی ووٹ بنک پر صدر جمہوریہ کا شیڈول ٹرائب سے ہونا بھی رنگ لائے گا۔ دیہی سطح تک فسطائی مسلم دشمنی کا زہریلا اثر ثرایت ہوتا محسوس ہورہا ہے؛جب کہ شہری ماحول عموماً بھگواکے حق میں ہوتا ہی ہے۔اور TRSکی مقبولیت میں یک گونہ کمی اور برسر اقتدارہونا بھی کارکردگی کو عنوان بنادے گاجب کہ خاندانی اجارہ داری کا Tagبھی دم چھلّا بنا ہوا ہے۔چنانچہ مسلم سوسائٹی اور سیکولر فرد وَفورسیس کو لازم ہوجاتا ہے کہ وہ فکر مند ہوں اور مناسب کاروائی کا لائحہ عمل بنے اور میدان میں موجود رہا جائے نہ کہ اتر پردیش سماج وادی پارٹی کے اکھلیش یادو کی طرح دو چار مہینے قبل نیند توڑ کر ٹرک پر سوار ہوکر سڑکیں ناپی جائیں۔
ملک کی صورتحال پر نقد و احتساب اور سود وَزیاں کی گفتگو بھلے ہی ریاستی عوام اور ریاست و حکومت پر کوئی راست اثر نہ ڈالے لیکن اس سے اغماض برتنا مناسب نہیں ہے ۔تاہم مستقبل قریب میں جو مرحلہ اور قضیہ درپیش ہوگا وہ ہماری زندگی کے ہر شعبہ اور سماجی و تہذیبی و مذہبی گنجائشوں پر ضرور اثر ڈالے گا۔یاد ہوگا کہ تلنگانہ اسمبلی الکشن شیڈول کے اعتبار سے 2023میں ہونے ہیں؛لیکن لگتا ہے اقتدار کے لیے ظاہری اور پس پردہ سرگرمیاں شروع کی جاچکی ہیں ۔لہذا لازم ہوجاتا ہے کہ اس پر سنجیدہ غور وَفکر ہو اور ممکنہ راہیں اور لائحہ عمل مرتب کیا جائے۔ بھگوافسطائیوں کے سوا ہر کوئی جانتا ہے کہ ملک کی ساکھ‘اس کی گنگا جمنی متنوع سنسکرتی کو گہرا نقصان پہنچتا جارہا ہے ۔سرکاری ایجنسیوں کا غلط نیز حزب مخالف استعمال کا خوف پارٹی بدلنے کا بہانہ بن چکا ہے۔ حکمرانی اور تخت مملکت پر قبضہ کا زاعفرانی نشہ ہی اتنا گہرا وَجنونی ہے کہ کسی کا یارا بچا نہیں ہے کہ وہ اپنی احتجاجی آواز بلند کرسکے ؛یاحاشیہ پر لاپٹک دئے گئے مظلوم فرد و اجتماعیت کاساتھ دے سکے۔اس طرح کی مسموم اور زہریلی حالت ہلکے درجہ میں پولیس اسٹیٹ اور وسیع احتسابی تناظر میں آمریت کا شاخسانہ ہوا کرتی ہے؛ اور اس کو نہ کوئی پسند یا مدح سرائی کرسکے گا۔ظاہر ہے کہ کون ہٹلر مسولینی اور ماؤصفات کا علمبردار مشہور ہوکر بین الاقوامی حقارت کا نشانہ بننے کو آمدہ پیکارہوگا۔دنیا بھر میں بسے بھارتی کے سر فخر سے سر بلند ہونے کی بجائے شرم سے سرجھکے رہیں گے۔اگر تلنگانہ ریاست کے رنگ ڈھنگ ست رنگی دھنک کی بجائے گیروا ہوجائیں تب اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ زندگی کتنی محال ہوجائے گی۔
مسلمانوں اور ان کی جماعتوں کے اداروں ‘انجمنوں کی کارکردگی(بہ استثناء) بھی دھوکے کی ٹٹّی کے ماسوا کچھ اور ہے ثابت کرنا ایک ذمہ داری اور مقروض جواب وہی ہے۔قیادتوں کی قربانیاں انسانی رزم گاہوں کی بنجرمٹی سے نئے کونپل نکالنے میں کامیاب ہوتی ہیں تو عندالناس اور عنداللہ بری الذمہ قرار پاتی ہیں؛ اور اجر کی مستحق بھی۔لیکن ان کی چہل پہل اگر لفّاظی اور فوٹو سیشن بن کر رہ جائیں تو یہ المیہ بھی ہوگا اور غلط راہ بھی۔معاشی تعلیمی سماجی جہد کاری یا شعبہ حیات کے اور میدانوں کی کارکردگی عموماً بے چینی و بیقراری اور یک گونہ مایوسی پیدا کرنے کو موجب بنتی آئی ہے۔اہل نظر و فکر پر عیاں ہے کہ ملت عرصہ دراز سے عموماً جذباتی ‘لچھے دار اور بھڑکاؤ بھاشن کے امرت گھونٹ پی کر خوش بھی ہوتی ہے اورتالی بھی پیٹتی ہے نیز۔۔۔حق تو یہ ہے کہ حق ادا ہوگیا ۔۔۔مان کر سو بھی جاتی ہے۔
تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ سیاست یا سیاسی میدان بنجر چٹیل میدان کو پاٹ کر زرخیزی لانے سے عبارت ہے؛اور خاص طور پر موجودہ مادّیت گزیدہ ماحول میں ہر کسی کے بس کی بات بھی نہیں ہے۔لیکن ملت کو موزوں‘متحرک و فعال مرد میدان کھوج کر لانے میں نیز ملت کو جگاتے رہنے کی کوشش کی نسبت سے سماجی جہد کاری اولین وَابتدائی قدموں سے عبارت ہے۔اسی طرح علمی و تعلیمی میدان میں ۔۔۔(کہ جہاںملت کا مستقبل بندھا اور مئیسر رہتا ہے)۔۔۔روزی روٹی کے حصول کی خاطر ہی سہی ایک معتد بہ تعداد منسلک ہے؛لیکن ان کا نقد و احتساب کا حاصل بھی خوش آئند ثابت نہیں ہوسکا ہے۔فطرت کے بگاڑ کی ایک بیماری ۔۔۔شعوری وَلاشعوری۔۔۔کرسی کی چاہ رہی ہے اور ان ماہ و سال میں تو یہ منظم ہوکراپنے اپنے دائروں کی اجارہ داری میں ڈھل گئی ہے۔اور کیا سیاسی ‘سماجی‘مذہبی یا تعلیمی غرض کوئی بھی میدان فکر و عمل رہا ہو ہر کوئی کسی نہ کسی اعتبار اور درجہ میں اس وِش کنیا کا ڈسا ہوا ہے۔اور بہت ہی کم ہیں جو نفس بیمار کو مار کوٹ کر سیدھا کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
بھگوا برگیڈیرجب چہار جانب رتھ(تخت حکومت) پر سوار ہندو مسلم نفرت اور اسلام دشمنی کو بنیاد بنا کر ہندو ووٹ حاصل کرتے ہوئے یکے بعد دیگرے اقتدار کے دائرے(ریاستیں) بڑھا رہا ہے؛ ملک میں مسلمانوں کا جینا مشکل تر بنادیا جارہا ہے۔حکومتی ادارے اور ایجنسیاںاپوزیشن کی جڑیں کاٹنے میں مددگار انتہائی چوکس اور ٹارگٹ چھاپوں کی مدد سے حزب اختلاف کو کرپٹ اور بے اعتماد بنانے میں جٹی ہوں تب۔۔۔ ملت کا غیر حکمتی نقصان رساں انتخابی اتحادوَ یکجہتی۔۔۔ نتائج کے اعتبار سے ناکام بلکہ ہندو رائے دہندگان کو جواباً متحد و مؤثر کر رہا ہو نیز کامیابی سے ہمکنار کررہا ہوتب نئی حکمت عملی کی ضرورت حد درجہ بڑھ جاتی ہے۔
مسلم ملت نے فسطائیت کے خلاف انتخابی گول بندی کی عملی شروعات سیکولر‘فسطائیت کوشکست دینے والے‘اور مضبوط امیدوار کو جتانے کی سعی سے کی تھی۔اس کے فوائد بے شک حاصل ہوئے تھے لیکن بعد میںاس حمایت کو فرد کی بجائے سیکولر پارٹی کی طرف موڑدیا گیا (بہ استثنائ) ۔اس مثبت عمل کا معکوس و منفی ردّعمل زاعفرانی چانکیاؤں نے اپنایا اور ہندو ووٹ گیروںکی مسلم مخالف گول بندی میں کامیاب بھی ہوئے اور اقتدار بھی حاصل کرتے گئے۔خاص طور پر جب سیکولر مسلم مضبوط امیدوار سامنے ہو تو مسلم دشمنی کی ہون کنڈ میں آتش فشاں دہکایا گیا ۔چنانچہ اس سال دو بڑی ریاستوں میںنئی حکمت عملی اپنائی گئی اور ایک میں کامیابی اور دوسرے میں ناکامی ہاتھ لگی۔بنگال کامیاب رہا اور اتر پردیش ہار گیا اور بھاجپا پھر سے سرکار بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ان میں کامن غیر اعلانیہ یک طرفہ رائے دہندگی تھی‘غیر جذباتیت تھی؛ردّعمل کی ہر کوشش جواب نہ دے کر ناکام کردی گئی۔مسلم جذباتیت کوآلاؤ دکھانے والی‘اور جہاں تہاں سیاسی منہ مارنے والی سیاسی کوششوںاور مسلم پارٹی پر مثبت خاموشی اپنائی گئی تاکہ مضبوط ریاستی سیاسی سیکولر پارٹی کمزور نہ پڑ جائے۔چنانچہ ان تجربوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مناسب ہوگا کہ ٭کسی ایک سیاسی پارٹی کی اندھی حمایت و عقیدت سے کنارہ کشی کی جائے٭مقامی تھقیق و تجزیہ کی بنا پرفسطائی کینڈیڈیٹ کو ہراسکنے والے مضبوط سیکولر کردار امیدوار کی یک جٹ حمایت کی جائے٭چند ایک امیدوار آزاد بھی ہوسکتے ہیں لیکن کوشش ہو کہ دو چار سیکولر پارٹیوں میں سے امیدواروں کو چنا جائے اور باضابطہ ان سیکولر پارٹیوں سے ربط پیدا کیا جائے ٭مسلم سیاسی پارٹی کے سابقہ کامیابی کے مقامات کو نہ چھیڑا جائے٭کسی ایک جماعت یا ادارے کی بجائے موثر ونمائندہ اجتماعی جماعتوں اوراداروں کا فورم اس کاز کو اپنے ہاتھ میں لے۔وغیرہ
2018کے ریاستی الکشن میں BJPکو7.1%اور TDPکو3.5%نیز کانگریس کو28.4% اور TRSکو46.9%حاصل ہوئے تھے اور TRSکو 119کے منجملہ88پر کامیابی حاصل ہوئی تھی۔تلنگانہ کے سیاسی میدان میں مقامی مسلم پارٹی اور BJPکے علاوہTRS اور Congresقابل ذکر ہیں اور آخری تین پارٹیاں حکومت تشکیل کرسکتی ہیںتاہم مسلم ووٹ کی حمایت ضروری ہے ۔آزادی کے بعد سے تادم تحریر کوئی قابل ذکر اجتماعی بھلائی اور انقلابی کام کا سہرا کسی بھی پارٹی بشمول مسلم پارٹی کے سر پر سجتا نہیں ہے۔حتیٰ کہ اوقاف بھی آج تک کوہ قاف ہی بنا رہا ہے اور اس کی حالت ۔۔غریب کی جورو والی ہے چہ جائیکہ کہ صیانت و تحفظ اوقاف کے مؤثر اقدامات کیے جاتے یامستحق ملت کے لیے مالی منفعت کا ذریعہ بنایا جاتا۔اندھ بھکتی اور مُخ ما فی کردار وں پر صرف بھاجپا کے مودی ہی کیMonopolyنہیں ہے بلکہ اس معاملے میں ملت بھی فوقیت کا تمغہ گزشتہ سات دہائیوں سے سینے پرسجائی ہوئی ہے۔ان حالات میں TRS اور Congresہر دو پر مسلم ووٹرس کی توجہ مبذول رہے۔البتہ یہ شک ہے کہ واضح اکثریت کے عدم حصول پر TRS کانگریس کی بجائے BJPکی طرف مائل ہوسکتی ہے۔سچائی اور حقیقت مستقبل کے کشکول کا حصہ ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰