طنز و مزاحمضامین

تم مرے پاس….

ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

اردو شاعری خاص طور سے اردو غزل کا اپنا ہی اندازہے۔ اس کے مقبول عام اشعار میں جن جذبات کا اظہار ہوتا ہے باذوق لوگ ان اشعار کو مختلف مواقع پر استعمال کرتے ہوئے اپنے جذبات کی ترسیل کی کوشش کرتے ہیں۔ اردو غزل اس قدر مقبول ہے کہ اردو زبان کا تھوڑا سا ذوق رکھنے والے بھی اس کے اشعار پر سر دھنتے رہتے ہیں ۔ ہمارے سیاست دان بھی کچھ پیچھے نہیں پارلیمنٹ میں بجٹ کی پیشکشی اور مباحث کے دوران اردو کے اشعار بھی پارلیمنٹ میں گونجتے ہیں۔ وزیر اعظم پر تنقید کرتے ہوئے ایک رکن پارلیمنٹ نے یہ شعر پڑھا تھا:
تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تری رہبری کا سوال ہے
بات جب اردو شاعری اور اظہار جذبات کی چلی تو سن لیجئے۔ ایک عاشق اور معشوق کا فسانہ۔ ہوا یوں کہ ایک ایم اے اردو کامیاب لڑکی کی منگنی ایک میکانک قسم کے لڑکے سے ہوئی جو زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا، لیکن کچھ حد تک اردو پڑھنا لکھنا جانتا تھا۔ منگنی کے بعد ایک دن لڑکی نے اپنے ہونے والے شوہر کو پیار بھرا خط لکھا اور آخر میں اس سے اظہار محبت کرتے ہوئے مومن کا یہ شعر لکھ دیا کہ
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
لڑکی نے اپنے کسی عزیز کے ذریعے اپنے منگیتر کو خط بھیجا۔ منگیتر میکانک لڑکے نے اپنی ہونے والی بیوی کی جانب سے بھیجا گیا نامہ محبت کھولا اور آخر تک خط پڑھنے کے بعد چونک پڑا اور بار بار شعر پڑھتا رہا۔ اس کے بعد اس نے اپنی ذہنی سوچ کے مطابق اندازہ لگایا کہ جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا تب میں اسے یاد آتا ہوں ضرور اس کا کوئی دوسرا معشوق بھی ہے۔ اپنی منگیتر کو خط کے جواب سے جھٹکا دینے کے لیے میکانک لڑکے نے اپنے کسی اردو داں دوست سے خط کا جواب لکھوایا اور آخر میں مومن کا وہی شعر کچھ رد و بدل کے ساتھ اس طرح لکھا۔
تم مرے پاس ہوتی ہو گویا
جب کوئی دوسری نہیں ہوتی
اب اپنے پیار بھرے خط کا یوں جنازہ نکلتے دیکھ کر لڑکی کا کیا حال ہوا ہوگا، اس کا اندازہ آپ اور ہم اچھی طرح لگا سکتے ہیں۔ لوگوں کو اردو شاعری تو پسند ہے لیکن اردو شاعری کا جنازہ نکالنے میں کئی لوگ ایک دوسرے سے سبقت لے جاتے ہیں۔ ایک اردو کے امتحان میں سوال پوچھا گیا کہ میر کے اس شعر کی تفہیم کیجئے۔ شعر یوں تھا
میر ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
ایک منچلے لڑکے نے جس نے کبھی شاعری کی کلاس میں شرکت نہیں کی تھی اور اسے اظہار خیال پر عبور تھا، اس نے اس شعر کی تشریح یوں کی کہ میر کے گھر میں ایک نیم کا پیڑ تھا ،ایک دفعہ ایک باز اڑ کر ان کے گھر میں آیا، پاس میں ایک ٹوٹی ہوئی شراب کی بوتل تھی جس میں کچھ بچی ہوئی شراب باز پی گیا اور اڑ کر نیم کے پیڑ پر جا بیٹھا اور شراب کے نشے میں اس کی آنکھوں میں جو خمار تھا شاعر نے اس کی عکاسی کی ہے۔ اردو شاعری کا جنازہ نکالنے میں طلباءتو طلباءاساتذہ بھی کچھ کم نہیں ایک استاد نے بورڈ پر لکھا کہ یہ شعر غزلے غالب سے لیا گیا ہے۔ اب یہ کونسی غزلے ہے وہ ماہر استاد ہی جانیں۔اردو کے مشہور شاعر راز الہ آبادی زور دار آواز میں شعر پڑھا کرتے تھے ۔ نظام آباد کے مشاعرے میں انہوں نے جو غزل سنائی تھی اس کا مطلع تھا
لذت غم بڑھا دیجئے
آپ پھر مسکرا دیجئے
یہ غزل اس قدر مقبول ہوئی کہ بعد میں اس پر پیروڈیاں بھی بننے لگیں اور مقبول ہوئیں۔ایک منچلے نے راز صاحب کی غزل پر کچھ یوں پیروڈی لگائی
مجھ پر اتنا کرم کیجئے
میری شادی کرادیجئے
غزل لکھنا مشکل کام ہوتا ہے، لیکن مزاحیہ شاعر چکر نظام آبادی نے غزل لکھنا آسان کردیا۔ انہوں نے ایک مشاعرے میں اپنی مزاحیہ غزل یوں شروع کی ۔مل گئی مل گئی مل گئی مل گئی ۔ سامعین میں کئی منچلے جواب دینے لگے کیا ملی کیا ملی تو چکر نے کچھ دیر بھی کہا ۔نوکری نوکری نوکری نوکری۔پھر انہوں نے کہا کہ کھو گئی کھوگئی کھو گئی کھوگئی۔پھر اس کا جواب یوں دیا اٹھنی اٹھنی اٹھنی اٹھنی۔ بہرحال اردو شاعری جس طرح اپنے اندر بھرپور جذبات رکھتی ہے، اگر اس کا غلط مفہوم نکالا جائے تو کیا سے کیا ہوجاتا ہے۔ اللہ کرے ہمارے اردو اساتذہ اردو اشعار کا درست مفہوم سمجھاتے رہیں ورنہ دوسرا کی جگہ دوسری کا سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا اور ہم مذاق بنتے جائیں گے۔
٭٭٭