سیاستمضامین

ڈاکٹر لڑکی بھی سسرال کی ہراسانی سے محفوظ نہیں؟

ہماری لڑکیوں کو انصاف عدالت سے، پولیس سے کب ملے گا۔ مجھے نہیں معلوم لیکن میرا یہ سوال ہے کہ کیا ہم اپنے آپ کو بدلنے ، انصاف کرنے، انصاف دلانے اور نبی کریمﷺ کی بتلائی ہوئی شریعت مبارکہ پر عمل کرنے تیار ہیں۔ یا نہیں ۔

محمد مصطفی علی سروری

سید احمد صاحب کی زندگی کا سب سے خوشگوار مرحلہ وہ تھا جب ان کی لڑکی نے ایمسیٹ کا امتحان لکھا اور اس امتحان میں بہترین مظاہرہ کرتے ہوئے ٹاپرس میں رینک حاصل کیا۔ سید صاحب اگرچہ سرکاری ملازم تھے لیکن ان کے لیے یہ بس سے باہر کی بات تھی کہ وہ اپنے بچوں کو بھاری فیس اور ڈونیشن دے کر ایم بی بی ایس میں داخلہ دلوائیں۔ ان کے چار بچے تھے۔ تین لڑکے اور ایک لڑکی۔ انہوں نے پہلے تو اپنے بچے سے امید باندھی تھی اور ان کا بچہ ایمسیٹ انجینئرنگ میں ٹھیک ٹھاک رینک لایا اور شہر کے مشہور مفخم جاہ انجینئرنگ کالج میں اپنا گریجویشن پاس کیا۔ اور پھر اللہ کے کرم سے امریکہ اعلیٰ تعلیم کے لیے چلا گیا۔ ایم ایس کے بعد اس کو وہیں جاب لگ گئی۔ دوسرا لڑکا بھی اپنی مرضی سے انجینئرنگ کرنے کے بعد اپنے بھائی کی طرح امریکہ چلا گیا۔ تیسری لڑکی تھی اور جب لڑکی نے ایمسیٹ میں اچھا رینک لاکر گورنمنٹ کوٹے کی سیٹ حاصل کرلی تو سید احمد صاحب بڑے خوش ہوئے کہ آخر کار ان کی لڑکی نے بھی اچھا رینک لاکر گورنمنٹ کوٹے سے سیٹ حاصل کرلی۔
دیکھتے دیکھتے دن سال گذر گئے اور پھر وہ مرحلہ بھی آگیا جب ان کی لڑکی نے باضابطہ طور پر ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرلی اور اس دن تو وہ فخر سے کانووکیشن میں بھی گئے جب اسٹیج پر ان کی بچی کا نام پکارا گیا اور کورس کے دوران بہتر تعلیمی مظاہرے کے لیے این ٹی آر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنس کی جانب سے گولڈ میڈل دیا گیا۔ وہ خوشی کے مارے آڈیٹوریم میں اپنی سیٹ سے کھڑے ہوکر تالیاں بجا رہے تھے۔ حالانکہ ان کی بیگم ان کو اپنی سیٹ پر بیٹھنے کو بول رہی تھی کہ اجی بیٹھ جائو ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ سب لوگ آپ کی طرف ہی دیکھ رہے ہیں۔
گھر میں اور رشتہ داروں میں خوب دعوتیں ہوئیں۔ ہر کوئی خوشی کا اظہار کر رہا تھا کہ یہ ہمارے خاندان کی پہلی ڈاکٹر ہے۔ لیکن اب سید صاحب کو دوسری فکر شروع ہوگئی تھی کہ بچی کی ڈاکٹری تو ہوگئی اب اس کی شادی بھی جلد ہوجائے تو بہت اچھا ہوگا۔ انہوں نے اپنی بچی سے بھی ذکر کرنا ضروری سمجھا اور پھر ایک دن اپنی بیٹی کو بھی بٹھاکر پوچھ لیا کہ دیکھو بیٹی یہ ماں باپ کی ہی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی شادی کریں۔ تمہاری تعلیم تو ہوگئی ہے۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ تمہاری شادی بھی ہوجائے۔ اس لیے تمہیں بھی بتلادینا چاہتے ہیں تو سید صاحب کی بچی نے کہا کہ بابا میں ایم ڈی کی اسٹڈیز کرنا چاہتی ہوں۔
تو سید صاحب نے کہا کہ چلو ٹھیک ہے تم آگے بھی پڑھائی کرلو مگر شادی کو مت ٹالو۔ بحر حال بچی تو مان گئی اب سید صاحب جب اپنی بچی کا بائیو ڈاٹا اور فوٹو لے کر رشتہ کی تلاش میں اخبارات کو چھاننا شروع کیا اور مشاطہ حضرات کے ہاں رجسٹریشن کروایا تو پتہ چلا کہ ڈاکٹر لڑکیوں کے رشتے تو بہت ہیں مگر ڈاکٹر لڑکے کم کم ہیں۔ اور ہیں بھی تو ان کے ڈیمانڈ میں امریکن اور کنیڈین امیگرنٹ لڑکیاں، پچیس تیس لاکھ کی گاڑی اور پھر جوڑے کی رقم الگ سے شامل ہے۔
سید صاحب نے امریکہ میں اپنے بچوں سے بات کی۔ ان لوگوں نے بھی وعدہ کیا کہ جو بھی ہوسکتا ہے وہ کوشش کریں گے۔ وقت گذرتا جارہا تھا لیکن ڈاکٹر لڑکے کے رشتے آتے تو بھی لڑکی پسند نہیں ہے کہہ کر چلے جاتے اور ایک ڈاکٹر رشتے کو جب انہوں نے دریافت کیا تو لڑکے متعلق صحیح معلومات نہیں ہوئیں۔
لڑکی ایم بی بی ایس کر کے ایک سال ہونے کو آرہا تھا۔ مگر سید صاحب کو موزوں رشتہ نہیں مل رہا تھا۔ بالآخر انہوں نے اپنی بچی کو غیر ڈاکٹر سے شادی کے لیے راضی کرلیا اور دور کی پہچان والوں کا ایک پوسٹ گریجویٹ لڑکا پسند کیا۔ لڑکا بیرون ملک ملازم تھا۔ بالآخر سال 2019ء میں سید صاحب کی لڑکی کی شادی ہوگئی۔
انہوں نے اپنی اور اپنی بیگم کی خراب صحت کا حوالہ دیا اور بالآخر لڑکی کو راضی کرلیا تھا۔ دولہے نے شادی کے فوری بعد ڈاکٹر لڑکی کو اپنے ساتھ بیرون ملک لے جانے کا بھی وعدہ کیا تھا۔ قسمت کو کیا منظور تھا وہ کسی کو نہیں معلوم تھا۔
لڑکا شادی کے بعد اپنی چھٹی کو بڑھاتا رہا اور پھر کویڈ 19 کی وباء نے جب عالمی سطح پر بحران پیدا کردیا تو لڑکے لیے اپنی بیگم اور سسرال والوں کو جواب دینا آسان تھا کہ بیرون ملک جہاں وہ رہتا ہے لاک ڈائون بڑا سخت ہے۔ بیرونی ممالک کی فلائٹس تو بند ہی ہیں ساتھ ہی اندرون ملک بھی لوگوں کی حمل و نقل محدود کردی گئی ہے۔
لڑکے کو چونکہ اندرون ملک کوئی ملازمت نہیں تھی اس لیے لڑکا گھر پر ہی رہتا اور لڑکی حاملہ ہونے کے باوجود دواخانہ میں پریکٹس کر کے کمارہی تھی۔ دو برس بعد جب لاک ڈائون میں نرمی ہوئی تو تب بھی لڑکا واپس بیرون ملک جانے کے بجائے سسرال والوں سے 15 لاکھ کا مطالبہ کردیا کہ ان کی بچی کو بیرون ملک لے جانے کے لیے یہ رقم دینا ضروری ہے۔ بس شادی کے اندرون دو سال سید صاحب کی ڈاکٹر لڑکی کی زندگی میں مسائل نے پریشانیاں پیدا کردی۔
پہلے تو اندرون ملک کاروبار کرنے کے لیے رقم کا مطالبہ ہوا کاروبار کے نام پر شیرمارکٹ میں نقصان اٹھانا پڑا۔ ہندوستان میں ڈاکٹر لڑکی پریکٹس کرتی اور لڑکی کا کریڈٹ کارڈ اس کا شوہر استعمال کرتا۔ اس دوران سید صاحب کو نواسے کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے خوشیاں دیں لیکن اس لڑکے کی پیدائش نے بھی ڈاکٹر لڑکی اور اس کے شوہر کے درمیان تعلقات میں گرم جوشی پیدا نہیں کرسکی۔ کمانے والی ہے ڈاکٹر ہے اور لڑکے کی ماں بن گئی ہے۔ مگر نہ شوہر خوش اور نہ ہی سسرال والے۔
ایک دن حالات اتنے خراب ہوگئے کہ ڈاکٹر لڑکی نے اپنی جان کو خطرہ محسوس کرتے ہوئے 100 نمبر ڈائل کیا۔ کیونکہ لڑکی سمجھتی تھی کہ اس کے والد ضعیف ہیں۔ وہ اس کی مدد کرنے آئے تب تک دیر ہوسکتی ہے۔ لیکن 100 نمبر ڈائل کرنے پر 10 منٹ میں پولیس ڈاکٹر لڑکی کے گھر تو پہنچ گئی لیکن حیدرآباد سٹی پولیس کی مدد بھی لڑکی کی زندگی میں خوشیاں نہیں لاسکی۔ لڑکی کی جان تو بچ گئی مگر ڈاکٹر لڑکی کی شادی خطرے میں پڑگئی۔ نہ تو جہیز ہراسانی کا کیس سکون دلاسکا نہ ہی Maintenence کے کیس سے کوئی راحت ملی۔ آل ویمنس پولیس اسٹیشن کی مدد بھی کام نہ آئی۔ نامپلی کریمنل کورڈ سے بھی لڑکی کو کوئی راحت نہیں ملی۔
اب تو لڑکے سے جھگڑا اس قدر بڑھ گیا کہ سید صاحب کی بچی انہی کے گھر اپنے دو سال کے بیٹے کے ساتھ رہنے لگی۔ سید صاحب نواسے کے ساتھ کھیل کر خوش ہوتے صرف وہی نہیں بلکہ اس چھوٹے سے بچے کو دیکھ کر گھر کا ہر فرد خوش ہوجاتا۔ مگر تھوڑی دیر میں ہی یہ سونچ کر سب کی خوشی غائب ہوجاتی کہ اس بچے کا مستقبل کیا ہوگا۔ اس کی ماں کا کیا ہوگا۔
کیا سید صاحب کا داماد اب ان کی بیٹی کے ساتھ صلح و صفائی کر کے دوبارہ خوشگوار حالات میں رہے گا یا نہیں۔ یہ اور ایسے ہی سوالات سب کے ذہنوں میں گردش کرتے۔ ڈاکٹر لڑکی اپنے بچے کو نانا، نانی کے ہاں چھوڑ کر میڈیکل پریکٹس کرنے دواخانہ جاتی۔ اپنے ماں باپ کو دلاسا دیتی کہ آپ لوگ پریشان نہ ہوں۔ میں اپنے لیے نہیں بلکہ اپنے بچے کو انصاف دلانے کے لیے لڑوں گی۔ بچے کا چھوٹا ماموں کہتا باجی میں آپ کے ساتھ ہوں۔ باہر والے بھائی کہتے بہن تو پریشان مت ہو ہم لوگ ہیں نا۔
پھر ایک دن سید صاحب کو انہی کے جاننے والوں نے بتلایا کہ ان کا داماد تو دوسری شادی کرلیا ہے اور آج تو اس کا ولیمہ ہے۔ مارے غصے کے سید صاحب کا بلڈ پریشر بڑھ گیا۔ معلومات کیے تو پتہ چلا کہ واقعی ان کے داماد نے ان کی بچی کو نہ تو طلاق دیا نہ ہی بچی نے خلع لیا اور نہ ہی کسی طرح کی کوئی اطلاع اور جو داماد عدالت میں Maintenence کیس کے جواب میں یہ حلف نامہ داخل کیا تھا کہ بیرون ملک نوکری چلے جانے سے وہ معاشی طور پر اس قابل نہیں کہ بیوی، بچے کا خرچ ادا کرسکے۔ وہ بڑی دھوم دھام سے دوسری شادی کر رہا ہے۔
سید صاحب کا چھوٹا لڑکا اپنی بہن کے ساتھ دوبارہ پولیس میں شکایت درج کرواتا ہے کہ ان کی بہن کو نہ تو طلاق ملی اور نہ خلع اور اس کا بہنوئی ان کے علم و اطلاع کے بغیر دوسری شادی کر رہا ہے۔
قارئین مندرجہ بالا قصے میں سید صاحب کا نام ہی تو فرضی ہے لیکن واقعات نہیں۔ مسلم سماج کو دو طرفہ چیالنجس کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک چیالنج تو کھلے دشمنوں اور شیطانوں سے ہے جس کے متعلق مسلم کمیونٹی کا بچہ بچہ آواز اٹھا رہا ہے۔ دوسرا چیالنج باہر سے نہیں بلکہ خود مسلم کمیونٹی کے اندر سے بلکہ قوم کو آپس سے ہی ہے۔ یہ جو سسرال والے ہوتے ہیں سب کہتے ہیں کہ بڑے ظالم ہیں۔ یہ جو لڑکے ہیں محنت نہیں کرتے، گھوڑے جوڑے کی رقم لیتے ہیں۔ گھر پر بیٹھ کر بیویوںکی کمائی کھانے کو پسند کرتے ہیں۔ یہ سب کے سب لوگ مسلم کمیونٹی سے ہی ہیں اور مسلمان ہیں اور سسرال والے جب ظالم ہیں۔ لڑکا ظالم اور بے حس ہے تو یہ سبھی مسلمان ہیں اور ہماری اپنی مسلم قوم سے ہیں۔ ان کی شکایت کس سے کریں۔ ان کو ظلم سے کیسے روکیں۔
بظاہر ایک ڈاکٹر لڑکی کا پولیس اور میڈیا سے رجوع ہوکر مدد طلب کرنا اشارہ ہے کہ ہم مسلمان اپنے سماج میں آپس میں انصاف و بھائی چارہ کے ساتھ نبیؐ کی تعلیمات کی روشنی میں زندگی گذارنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔
ضرورت ہے کہ اس حوالے سے مسلم دانشور، علمائے کرام، خطیب حضرات اور سرپرست ہی نہیں ہر ذی شعور سونچے کہ کیا روزِ محشر ہم سے سوال نہیں ہوگا؟
ہماری لڑکیوں کو انصاف عدالت سے، پولیس سے کب ملے گا۔ مجھے نہیں معلوم لیکن میرا یہ سوال ہے کہ کیا ہم اپنے آپ کو بدلنے ، انصاف کرنے، انصاف دلانے اور نبی کریمﷺ کی بتلائی ہوئی شریعت مبارکہ پر عمل کرنے تیار ہیں۔ یا نہیں ۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)۔sarwari829@yahoo.com
۰۰۰٭٭٭۰۰۰