خلع سے متعلق مدراس ہائیکورٹ کا اہم فیصلہ
11جنوری کو سنائے گئے ایک فیصلہ میں مدراس ہائیکورٹ کے جسٹس سی شراونن نے 2017میں ٹاملناڈوسوسائٹیزرجسٹریشن ایکٹ 1975کے تحت رجسٹرڈ شریعت کونسل کی طرف سے ایک خاتون کوجاری کردہ خلع سرٹیفکٹ منسوخ کردیاتھا۔

چینائی:مدراس ہائیکورٹ نے کہاہے کہ جب ایک مسلم خاتون کو خلع کے ذریعہ اپنی شادی کوختم کرنے کاناقابل تنسیخ حق حاصل ہے جوکہ مسلم پرسنل لا کے تحت یکطرفہ طلاق دینے کااختیارہے تو اس طرح کی طلاق کاحکم صرف خاندانی عدالت ہی دے سکتی ہے کوئی نجی یا ماورائے عدالتی ادارے جیسے شریعت کونسل کی طرف سے ایسا حکم نہیں دیاجاسکتا کیونکہ شرعی کونسل‘ برادری کے محض چندارکان کی نمائندگی کرتی ہے۔
11جنوری کو سنائے گئے ایک فیصلہ میں مدراس ہائیکورٹ کے جسٹس سی شراونن نے 2017میں ٹاملناڈوسوسائٹیزرجسٹریشن ایکٹ 1975کے تحت رجسٹرڈ شریعت کونسل کی طرف سے ایک خاتون کوجاری کردہ خلع سرٹیفکٹ منسوخ کردیاتھا۔
ہائیکورٹ نے کہاکہ ایک مسلم خاتون مسلم پرسنل لا(شریعت) پبلکیشن ایکٹ1937کے تحت مسلمہ شادی کی خلع کے ذریعہ تنسیخ کے اپنے حق کا خاندانی عدالت سے رجوع ہوکر استعمال کرسکتی ہے لیکن یہ کام کسی خودساختہ ادارہ کے سامنے نہیں ہوسکتاہے جوجماعت کے چند ارکان پر مشتمل ہو۔ درخواست گزارشوہر نے دلیل پیش کرتے ہوئے کہاکہ فتویٰ یا خلع سرٹیفکٹ جیسے ماورائے عدالت حکم نامہ کوکوئی قانونی منظوری حاصل نہیں ہے اورنجی افراد یا اداروں کے ذریعہ اسے نافذ نہیں کیاجاسکتا ہے۔
بہرحال شریعت کونسل کے وکیل نے کیرالاہائیکورٹ کے2020کے فیصلہ کاحوالہ دیا جس میں ایک مسلم خاتون کے خلع کیلئے ماورائے عدالت طلاق کی کاروائی کا سہارالینے کے حق کوبرقرار رکھاگیا تھا۔ شریعت کونسل نے استدلال کیاکہ کیرالا ہائیکورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں موجودہ رٹ درخواست قابل سماعت نہیں ہے۔
تاہم مدراس ہائیکورٹ نے کہاکہ کیرالا ہائیکورٹ کے فیصلہ نے صرف مسلم خواتین کوخلع کے ذریعہ یکطرفہ طلاق حاصل کرنے کے حق کو برقراررکھاہے۔
اس نے شریعت کونسل جیسے نجی اداروں کی شمولیت کی توثیق نہیں کی ہے۔ نجی ادارے جیسے شریعت کونسل یا دوسراجواب دہندہ خلع کے ذریعہ نکاح کوختم کرنے کا اعلان یا تصدیق نہیں کرسکتا۔ لہذا عدالت نے اس خلع سرٹیفکٹ کومنسوخ کردیا۔ درخواست گزار شوہر اوراس کی ناراض بیوی کوحکم دیاکہ وہ تنازعہ کی یکسوئی کیلئے ٹاملناڈو لیگل سرویسس اتھاریٹی یافیملی کورٹ سے رجوع کریں۔