سیاستمضامین

درویش عقل فروش کی کوتاہ ذہنی

اطہر معین

ملت اسلامیہ ہند کا یہ المیہ ہے کہ جن کے ہاتھوں میں آج ہماری بڑی بڑی ملی و مذہبی تنظیموں کی باگ ڈور ہے وہ خود کو محاسبہ سے ماورا سمجھتے ہیں اور ان کی کوتاہ اندیشی پر کئے جانے والے اعتراضات اور تنقیدوں کوحسد پر محمول کرتے ہوئے اپنے پیروکاروں کو حقیقت پسندی کی طرف مائل ہونے میں حائل ہوجاتے ہیں۔ ہمارا یہ بھی ایک المیہ ہے کہ آزادی ہند کے 75 برسوں بعد بھی ایک مسلم تنظیم نہیں ابھری جس کو یہ اعزاز حاصل ہو کہ وہ ملت اسلامیہ ہند کی نمائندہ تنظیم کہلائی جاسکے۔ آج جتنی بھی ملی، مذہبی و سیاسی تنظیمیں ہیں وہ آزادی سے قبل ہی وجود میں آئی تھیں جن کے قیام کے وقت جو مقاصد تھے ان سے وہ منحرف ہوچکی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان تنظیموں کی سربراہی بھی مخصوص خاندانوں کے ہاتھوں پہنچ گئیں جس کے نتیجہ میں یہ مخصوص خاندان، ان تنظیموں پر اپنی اجارہ داری کی گرفت کو اس قدر مضبوط کرلئے ہیں کہ اب ان تنظیموں کے ارکان میں اتنی جرأت باقی نہیں رہی کہ ان کے اقدامات اور فیصلوں پر اعترا ض نہ سہی کم از کم تحفظات کا اظہار کرسکیں۔گوکہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ جماعت اسلامی پر کسی خاندان کا تسلط نہیں ہے مگرحقیقت پسندی سے کام لیں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک مخصوص خاندان نہ سہی مگر چند خاندان کی اجارہ داری بھی یہاں قائم ہوچکی ہے۔ یہ کم ستم ظریفی نہیں ہے کہ کچھ چاپلوس قسم کے لوگ، ہماری قیادتوں کی نادانیوں، غلطیوں اور کوتاہیوں کو کارناموں کے طور پر پیش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
جمعیۃ علماء ہند کے رام لیلا میدان میں منعقدہ اجلاس عام میں مولانا سید ارشد مدنی کی تقریر پر ہوئے تنازعہ نے مسلمانوں پر طعن و تشنیع کے نئے باب کھول دئیے ہیں وہیں ملت اسلامیہ ہند میں ایک نئی بحث چھڑ گئی کہ آیا مولانا ارشد مدنی کے اس طرز تخاطب سے امت کو فائدہ پہنچا ہے یا نقصان۔ مولانا کے اس بیان کے بعد ایک مخصوص مکتب فکرکے حامل یہ باور کروانے کی کوشش کررہے ہیں کہ مولانا نے حق بیانی سے کام لیتے ہوئے باطل کے ایوانوں میں تہلکہ مچادیا ہے۔ کیا واقعی ایسا ہوا ہے یا پھر یہ بیانیہ مغلوب ذہنیت کی عکاسی تھی؟ ایک عرصہ سے یہ یہ دیکھا جارہا ہے کہ طاغوتی طاقتیں، ملت اسلامیہ کی سرکردہ شخصیتوں کو نشانہ بناتے ہوئے ان کے ذریعہ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ ان میں کچھ شخصیتیں مصائب کے خوف سے خودسپردگی اختیار کرلی ہیں تو کچھ رہنما انجانے میں ذہن سازی کا شکار ہوگئے ہیں ۔وہ اس قدرالجھا دیئے گئے ہیںکہ اپنی فہم و فراست سے مسائل کا حل تلاش کرنے کی بجائے سازشیوں کی کٹھ پتلی بن کر رہ گئے ہیں اور یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ان کے اقدامات تیر بہدف ثابت ہوں گے، ایسے میں اگر منفی پہلوؤں کو اجاگر نہ کیا جائے تو اپنے خمیدہ افکار و نظریات کی روشنی میں منصوبہ سازی کرنے لگیں گے جس کا حتمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ ملت مزید پریشانیوں اور افتار کا شکار بن جائے گی جن کی تلافی بڑی مشکل سے ہوگی۔
مولانا ارشد مدنی نے جس انداز میںیہ باور کروانے کی کوشش کی تھی کہ ملت اسلامیہ ہند اس سرزمین پر اجنبی نہیں ہے بلکہ ازل سے اس خطہ زمین سے ان کا تعلق رہا ہے چونکہ ہندو سماج، دنیا میں بھیجے جانے والے جس پہلے بشر کو منو مانتا ہے وہی اسلام کے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور وہ ہندو مذہبی پیشواؤںکے مطابق ’اوم ‘ کی عبادت کرتے تھے جو ایک ہواہے جس کی کوئی شبیہ ، تصویر یامورت نہیں ۔ انہوں نے اپنی طویل ترین تقریر میں یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ ہندؤں کے نزدیک جو منو ہیں اور جن کو ہم آدم علیہ السلام کہتے ہیں ایک ہی رب کی عبادت کیا کرتے تھے۔ مولانا کی ان تاویلات نے جو ماحول پیدا کیا ہے اس سے نہ صرف سادہ لوح عام ہندو برانگیختہ ہوگئے ہیں بلکہ ہندؤں کے وہ طبقات جو عدم مساوات کے باعث ہندو مت سے بیزار تھے وہ بھی اسلام اور مسلمانوں سے بدظن ہوگئے ہیں۔ مولانا کے اس بیانیہ پر مسلمانوں کا ایک گوشہ بھی تحفظات رکھتا ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کی قیادتوں کے ساتھ جمیعۃ العلماء کی بڑھتی قربتیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ کہیں یہ سب کچھ ملک کے سیاسی ماحول کو گرماتے ہوئے ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی کوششوں کا حصہ تو نہیں ہے۔عوامی پلاٹ فام سے جب اس طرح کے بیانات جاری کئے جاتے ہیں تو ہم بہت سے پہلوؤں کو پیش نظر رکھنا پڑتا ہے۔ ہمیں یہ بھی دیکھناہوتا ہے کہ جو پیرایہ اختیار کیا جارہا ہے اور جو الفاظ استعمال کئے جارہے ہیں ان کی تعبیرات کیا ہوسکتی ہیں اور مخالفین ان کا کس طرح منفی پروپگنڈہ کے لئے استعمال کرسکتے ہیں۔ مولانا کے بیان سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے ہند میں ازدواجی زندگی بسر کی ہے اور ان کی اولادیں یہاں بس گئیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مولانا ارشد مدنی اپنے اس مفروضہ کو مستند تاریخی حوالوں سے ثابت کرسکتے ہیں؟ اگر وہ مسلمانوں کو ہی یہ قائل کروانے سے قاصر رہ جائیں کہ سرزمین ہند پر آدم و حوا علیہما السلام نے یہاں یکجا زندگی بسر کی ہے تو پھر اغیار کو قائل کروانا تو بہت ہی مشکل ہوجائے گا۔ ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بالفرض مولانا کی اس تاویل کو تسلیم بھی کرلیں تو کیا وہ توحید کی طرف لوٹ آئیں گے۔ اگر نہیں تو پھر یہ تمام تر کوششیں محض اس لئے کی گئیں کہ ہند میں مسلمانوں کو حملہ آور نہیں بلکہ ملکی ثابت کیا جائے؟ اور اگر ابنائے وطن ، مسلمانوں کو یہیں کے باشندے تسلیم کربھی لیں تو کیا ان کے رویوں میں فرق آئے گا۔ حقیقت تو ہے کہ جن کو ہندؤ باور کروایا جاتا ہے انہیں ہی مساوی مقام عطا نہیں کیا گیا ہے تو کیا مسلمانوں کے ساتھ بھائی چارگی کا مظاہرہ ہوگا؟
ہمیں آنے والے حالات کو سمجھنے کے لئے ملک کے موجودہ حالات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مسلمانان ہند کے ساتھ پیش آنے والے واقعات ، ان کے تئیں اختیار کی جانے والی پالیسیوں اور ان کے بارے میں اظہارکئے جانے والے خیالات کے علاوہ ہمیں دیگر ابنائے وطن کے ساتھ رونما ہونے والے واقعات ، ان کے ردعمل اور ان کی ملت اسلامیہ ہند سے توقعات کو بھی سمجھنا چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ حکومت کی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے والی تنظیم کے منصوبے اور مقاصد کیا ہیں۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ ہمارا سامنا ایک ایسے گروہ سے ہے جو چالبازیوں اور مفاد پرستی میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا۔ یہ گروہ یہودیوں کی طرح اپنے اصل اہداف کا افشاء ہونے نہیں دیتا تاکہ اس کا شکار بننے والے غفلت کا ہی شکار رہیں۔ ہمیں یہ بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اس ملک میں صدیوں سے اقلیتوں کے ایک طبقہ نے اپنے ہی ہم مذہب نفوس کو ذاتوںکی اساس پر تقسیم کرتے ہوئے 85 فیصد آبادی کو اپنا غلام بنائے رکھا ہے اوریہ 85 فیصد اکثریت، آزادی کے بعد اس غلامی کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے مخصوص ذہنیت کے تسلط سے نکل باہر آنا چاہتی ہے جس میں انہیں ہنوز کامل کامیابی نہیں ملی ہے۔ منڈل کمیشن کے بعد ان کچلے ہوئے طبقات کو تحفظات کے فوائد سے محروم کرنے کے لئے بابری مسجد کے قضیہ میں اچانک بھونچال پیدا کردیا تھا اور اڈوانی کی رتھ یاترا کے ذریعہ ملک کے سیاسی و سماجی حالات کا رخ موڑ دیا تھا ۔ اس کے ایک عرصہ تک ملک کا ماحول گرمایا ہوا رہا ہے اور آخر کار بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر وجود میں آرہی ہے۔
سوشل میڈیا کے عام ہونے کے بعد حاشیہ بردار ذاتوںسے تعلق رکھنے والوں نے اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں اور مظالم کو پیش کرتے ہوئے اپنا نقطۂ نظر پیش کرنا شروع کردیا تھا اور حالیہ دنوں میں ان کے قائدین اور صحافیوں نے منظم انداز میں ایک تحریک شروع کی تھی جس کے حصہ کے طور پررام چرت مانس کے چند مصرعوں پر اپنا اعتراض درج کرواتے ہوئے ملک میں ایک نئی بحث چھیڑ دی تھی کہ اس مقدس کتاب سے وہ باتیں حذف کی جانی چاہئے جن میں نچلی ذاتوں اور عورتوں کی توہین کی گئی ہے ۔ اس تحریک کا دفاع کرنے میں برہمنیت کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا تھا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ آر ایس ایس سربراہ کو یہ کہنا پڑا تھا کہ ذاتوں کا نظام پنڈتوں کا بنایا ہوا ہے جس پر تاریخ میں شائد پہلی مرتبہ برہمن برادری نے برسرعام آر ایس ایس سربراہ کے خلاف برسرعام اظہار خیال کیا تھا ۔
مولانا ارشد مدنی کے بیانیہ کے محرکات مزید واضح ہوجاتے ہیں جب ہم آر ایس ایس کے نظریہ ساز رام مادھو کے آٹھ ماہ قبل کئے گئے اس مطالبہ پر غور کرتے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا ’’مسلمانوں کو بھارتی معاشرہ میں مدغم ہونے کے لئے تین محمولات’ کافر، امہ اور جہاد‘ کو ترک کرنا ہونا ہوگا۔‘‘ آر ایس ایس ایک عرصہ دراز سے یہی کہتی آرہی ہے کہ بھارت میں بسنے والے سبھی باشندوں کا ڈی این اے ایک ہی ہے اور سبھی ہندو ہیں۔ آر ایس ایس کے اس دعویٰ سے ایک عام تاثر یہی پیدا ہوتا ہے کہ وہ یہ باور کروانا چاہتی ہے کہ بھارت کے مسلمانوں کے آبا و اجداد بھی ہندو ہی تھے مگر جب ہم اس کی گہرائی کا جائزہ لیں تو یہ بات آسانی سے سمجھ آتی ہے کہ دراصل آر ایس ایس مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی آڑ میں ان 85 فیصد بھارتی باشندوں کو نشانہ بنارہی ہے جو خود کو مول واسی اور برہمنوں کو آریائی نسل سے ثابت کرتے ہوئے خود کو اس ملک کے اصل باشندے اوربرہمنوںکو مداخلت کار قرار دیتے ہیں۔ ہندو مت کودنیا کے قدیم ترین مذہب قرار دینے کے پس پردہ بھی یہی منشاء کارفرما ہے کہ آریائی نسل کو بھارتی نسل ہی ثابت کیا جائے۔ ایسے میں مولانا ارشد مدنی کا یہ ثابت کرنے کی کوشش کہ اوم ہی اللہ اور منو ہی آدم ہے‘ آر ایس ایس کے اس دعویٰ کو تقویت پہنچاتا ہے کہ ہندؤں اور مسلمانوں کا ڈی این اے ایک ہی اور ان کے معبود بھی جدا نہیں ہیں۔
جہاں تک جینیوں ، بدھسٹوں اور سکھوں کا جمعیۃعلماء ہند کے اسٹیج سے بائیکاٹ کا معاملہ ہے وہ ایک فطری ردعمل ہی ہوسکتا ہے۔ ہمیں ان کے اس مؤقف کو سمجھنا ہوگا کہ وہ ایک عرصہ سے خود کو ایک جداگانہ مذہبی اکائی تسلیم کروانے کوشاں ہیں چونکہ چند قوانین کے تحت ان تینوں مذاہب کو ہندو مت کا ہی حصہ تصور کیا گیا ہے اور انہیں یہ خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ان کی علحدہ مذہبی شناخت کو ختم کرتے ہوئے ان تمام مذاہب کے لئے یکساں قوانین لاگو کئے جائیں گے اور ان کے مذہبی تشخص کو بھی بالآخر ختم کردیا جائے گا۔ مولانا مدنی کے بیانیہ سے انہیں یہ خدشہ ہوگیا تھا کہ ہندو اور مسلمان ہم آہنگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں کہیں بے گانہ نہ کردیں۔ انہیں یہ احساس بھی ستائے جارہا ہوگا کہ آر ایس ایس اور جمعیۃ علماء نے مل کر ان کے مذاہب کو غیر الوہی باور کروانے کی کوشش کررہے ہیں جو ان کے وجود کے لئے ایک اعتبار سے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ چھوت چھات کے شکار محروم طبقات کے بیشتر افراد نے بدھ ازم اور عیسائیت میں پناہ لی ہے اور وہ اپنے نام تبدیل کئے بغیر تحفظات کے فوائد سے استفادہ بھی کرتے آرہے ہیں۔ انہیں یہ خدشہ لاحق ہے کہ بی جے پی کے اقتدار میں مزید باقی رہنے کی صورت میں جس کے انہیں زیادہ آثار نظر آرہے ہیں، تحفظات کو ختم ہی کردیا جائے گا اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس کی پہل معاشی طور پر پسماندہ طبقہ کو 10 فیصد تحفظات کی فراہمی کے ذریعہ کردی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان محروم طبقات کا دانشور طبقہ ہندو مذہبی کتابوں اور عقائد پر اعتراضات کرتے ہوئے مباحث کی ایک نئی جنگ چھیڑکر برہمنیت کو الجھائے رکھنا چاہتا ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ ہندؤں کے مذہبی عقائد پر یکے بعد دیگر اعتراضات کرتے ہوئے یہ لوگ ہندو مذہب کے عقائد میں ایک مخصوص طبقہ کی بالادستی کو آشکار کرتے ہوئے اپنی مظلومیت کو دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیںاور اپنی ذاتوں کے عام لوگوں کو ہندو مت کے بندھنوں سے آزاد کرواتے ہوئے ایک نئی مذہبی شناخت چاہتے ہیں تاکہ ملک کی سیاست پر ان کی گرفت مضبوط ہوسکے۔ دلتوں کو اس ملک کے مسلمانوں سے ایک شکایت یہ رہی ہے کہ صدیوں تک اقتدار اپنے پاس رکھنے کے باوجود انہوں نے کبھی بھی ان کے ساتھ روا سماجی و معاشی امتیازات کو دو ر کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ ذات پات کے بدترین نظام کو باقی و جاری رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہندو مت ترک کرتے ہوئے اسلام قبول کرنے کی بجائے عیسائیت یا بدھ مت اختیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
اس تناظر میں جمعیۃ علماء کے اجلاس میں جو کچھ کیا گیا اس سے ان طبقات کے علاوہ مسلمانوں کے بھی ایک طبقہ کو یہ لگنے لگا ہے کہ جمعیۃ علماء ہند کی قیادت یا تو مائنڈ کنٹرول پروگرام کا شکار ہوگئی ہے یا پھر اپنے حقیر مفادات کیلئے برہمنیت کی آلۂ کار بن گئی ہے۔ ان شبہات کو اس لئے بھی تقویت پہنچتی ہے کہ جمعیۃ علماء ہند نے اپنے اس اجلاس میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے عام لوگوں کو مدعو نہیں کیااور اسٹیج کی رونق کیلئےصرف چند ایسی شخصیتوں کو مدعو کیا ہے جوعیسائیت ‘ بدھ مت، جین مت اور سکھ مت کے پیروکار تو ہیں مگروہ اپنے ہی مذہب واوں میں ان کے نمائندہ مذہبی پیشواء تسلیم نہیں کئے جاتے۔ اسٹیج پر مولانا ارشد مدنی کے بیان پر اعتراض کرتے ہوئے بائیکاٹ کرنے والے لوکیش منی کی اب سوشل میڈیا پر وہ ویڈیو بھی وائرل ہونے لگی ہے جس میں وہ مذہبی منافرت پھیلانے والے نرسنگا نند سرسوتی کے ساتھ شہ نشین پر موجود ہیں۔ اس سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ کہیں یہ سب ڈرامہ بازی ایک منصوبہ بند سازش کا حصہ تو نہیں ہے؟اگر حسن ظن سے کام لیا جائے تو اسے درویش عقل فروش کی کوتاہ ذہنی پر محمول کیا جاسکتا ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰