سیاستمضامین

رام نومی پر تشدد انتخابی گیم پلان کا حصہ

رام پنیانی

اس سال رام نومی پر ملک کے کئی حصوں میں تشدد ہوا۔ ان میں ہاوڑہ، چھترپتی سنبھاجی نگر (پہلے اورنگ آباد کے نام سے جانا جاتا تھا)، ممبئی، دہلی کے کچھ مضافاتی علاقے اور بہار کے کچھ قصبے شامل ہیں۔ پچھلے کچھ سالوں سے رام نومی پر جلوس نکالنے کا ایک نیا رواج شروع ہوا ہے۔ میڈیا کے ایک بڑے حصے نے تشدد کو رام نومی کے جلوسوں پر پتھراؤ کے ردعمل کے طور پر پیش کیا ہے۔ میڈیا میں اس بات کا چرچا نہیں ہوتا کہ جلوسوں میں اشتعال انگیز نعرے لگائے جارہے تھے، رام بھکت مسلح تھے اور مساجد کے باہر اشتعال انگیز کارروائیاں کی جارہی تھیں۔ پچھلے سال بھی رام نومی پر تشدد ہوا تھا۔ سب سے سنگین واقعہ مدھیہ پردیش کے کھرگون میں پیش آیا جس کے بعد ریاست کی بی جے پی حکومت نے اقلیتی برادری کے 51 مکانات پھر بلڈوزر چلادیا تھا۔
گزشتہ کچھ سالوں سے رام نومی منانے کے طریقے میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔ اب رام نومی کے دن جلوس نکالے جاتے ہیں جس میں کئی نوجوان ہاتھوں میں ننگی تلواریں اٹھائے ہوتے ہیں۔ اس بار ایک رام بھکت پستول لے کر جلوس میں شامل ہوا تھا۔ جلوس میں اکثر ایک بینڈ یا DJ ساتھ ہوتا ہے جو اونچی آواز میں موسیقی بجاتا ہے۔ مسلمانوں کو بدنام اور ذلیل کرنے والے نعرے کھلے عام لگائے جاتے ہیں، اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ جلوس شہر کے مسلم اکثریتی علاقوں سے گزرے، انتظامی اجازت کے ساتھ یا اس کے بغیر۔ جلوس کے شرکاء سے کم از کم یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ راستے میں موجود مساجد پر گلال کا چھڑکاؤ کریں اور اگر وہ کسی مسجد پر چڑھ کر اس پر زعفرانی پرچم لہرائیں تو وہ خصوصی تعریف کے مستحق بن جاتے ہیں۔
مغربی بنگال میں رام نومی کے جلوسوں کے دوران کافی گڑبڑ ہوئی۔ جہاں بی جے پی ممتا بنرجی پر مسلمانوں کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنے کا الزام لگا رہی ہے، ریاستی وزیر اعلیٰ نے ایک بیان میں کہا، ’’کوئی مذہب تشدد کو جائز نہیں ٹھہراتا ہے۔ ہر مذہب امن کی بات کرتا ہے… جو کچھ بھی ہوا وہ فساد بھڑکانے کے بی جے پی کے منصوبے کا حصہ تھا۔ بی جے پی نے ملک میں تقریباً سو مقامات پر تشدد کو ہوا دی تھی۔ ہاوڑہ کا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے۔ ہم نے بارہا کہا تھا کہ جلوس اس راستے سے نہیں جانا چاہیے۔ لیکن جلوس میں جرائم پیشہ افراد شامل تھے۔ ان کے پاس بندوقیں اور پٹرول بم تھے۔ یہاں تک کہ بلڈوزر بھی جلوس میں شامل تھے۔ ان لوگوں نے ان علاقوں میں حملے کیے جہاں اقلیتیں رہتی ہیں… یہ سب کچھ بی جے پی، ہندو مہاسبھا، بجرنگ دل اور نہ جانے کن کن ناموں سے جانے جانی والی ان کی تنظیموں نے کیا۔ انہوں نے جان بوجھ کر اقلیتوں پر حملے کیے…‘‘
بھارت میں مذہبی جلوسوں کے دوران تشدد کی ایک طویل تاریخ ہے۔ انگریزوں کے دور میں گنپتی وسرجن، شیو راتری، محرم وغیرہ کے موقعوں پر نکالے جانے والے جلوسوں میں تشدد ناگزیر تھا۔ اس تشدد میں ہندو اور مسلم فرقہ پرستوں نے برابری کے ساتھ حصہ لیا۔ آزادی کے بعد سماج کے مختلف طبقوں اور بالخصوص پولیس میں پائے جانے والے تعصبات کی وجہ سے انتظامیہ کی ہدایات کے برعکس الگ راستوں سے جلوس نکالنے کے واقعات کو نظر انداز کیا جانے لگا۔ ظاہر ہے کہ جلوسوں کے منتظمین اور ان میں شامل لوگ دونوں جانتے تھے کہ انہیں حکومت کا آشیرباد حاصل ہے۔
دلیل یہ ہے کہ آپ ہمیں کسی بھی علاقے میں جانے سے کیسے روک سکتے ہیں؟ اگر اس دلیل کو مان بھی لیا جائے تو سوال یہ ہے کہ جلوس میں شریک افراد کے مسلح ہونے اور اشتعال انگیز نعرے لگانے کے جرائم کا کیا؟ ظاہر ہے کہ انتظامی مشینری فرقہ واریت کی لپیٹ میں ہے اور حکومت چاہے کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتی ہو، جو چاہے کرتی ہے۔
میڈیا پتھراؤ پر توجہ دیتا ہے اور اشتعال انگیز نعروں اور تیز دھار اور آتشیں اسلحے کی نمائش پر خاموش رہتا ہے۔ جلوسوں کے دوران ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کی کئی عدالتی کمیشنوں نے تحقیقات کی ہیں۔ اپریل 2022 میں شائع ہونے والی سٹیزن اینڈ لائرز انیشی ایٹو کی ایک تفصیلی رپورٹ ہنومان جینتی اور رام نومی کے جلوسوں کے دوران ہونے والے تشدد کی وضاحت کرتی ہے۔ رپورٹ کے تعارف میں، ایڈوکیٹ چندر ادے سنگھ نے فرقہ وارانہ تشدد کے اہم واقعات پر بات کی جو جلوسوں کے دوران اور بعد میں پیش آئے۔ رپورٹ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ جلوسوں کے شرکاء مسلمانوں کی عبادت گاہوں اور مسلم اکثریتی رہائشی علاقوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ ان جلوسوں کے دوران اور ان کے ذریعے کیا کیا جاتا ہے کچھ مثالوں سے زیادہ واضح طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔
بھاگلپور کی تشدد میں جلوس کا راستہ اہم مسئلہ تھا۔’’جسٹس رام نندن پرساد، رام چندر پرساد سنہا اور ایس شمس الحسن جو کہ سبھی پٹنہ ہائی کورٹ کے سبکدوش ججس تھے ، کی سربراہی والے عدالتی تحقیقاتی کمیشن نے پایا کہ بھاگلپور میں 1989 سے پہلے رام شیلا جلوسوں کی وجہ سے ایک سال تک کشیدگی بڑھ رہی تھی، لیکن انتظامیہ نے انہیں نظر انداز کر دیا۔ کمیشن آف انکوائری نے پایا کہ تاتارپور سے جلوس نکالنے کے لیے کوئی درخواست نہیں دی گئی تھی اور جلوس کے منتظمین کو جاری کردہ اجازت میں تاتارپور کا کہیں ذکر نہیں تھا” (پیراگراف 578)۔
1989 کے کوٹا فسادات کی تحقیقات کے لیے مقرر کیے گئے جسٹس ایس این دھروا کمیشن نے نتیجہ اخذ کیا، "…ریکارڈ پر موجود شواہد کا مکمل جائزہ لیتے ہوئے، میرا خیال ہے کہ جلوس کے شرکاء نے اشتعال انگیز اور قابل اعتراض نعرے لگانے شروع کر دیے اور ان قابل اعتراض نعروں سے بھڑک کر مسلم فرقہ نے بھی اسی طرح کی نعرے بازی کی۔‘‘
بھیونڈی۔جلگاؤں فسادات کی تحقیقات کرنے والے جسٹس مادون نے نتیجہ اخذ کیا کہ ’’بھیونڈی میں ہنگامہ آرائی کی فوری وجہ شیو جینتی جلوس میں شامل لوگوں کی جان بوجھ کر بدسلوکی تھی۔ 7 مئی 1970 کو بھیونڈی میں نکالے گئے جلوس کا مقصد مسلمانوں کو اکسانا تھا۔ دیہی علاقوں کے لوگ جلوس میں لاٹھیاں اٹھائے ہوئے تھے اور بمبئی پولیس ایکٹ 1951 کی دفعہ 37(1) (جو عوامی مقامات پر ہتھیاروں کی نمائش پر پابندی لگاتی ہے) سے بچنے کے لیے زعفرانی جھنڈے اور بینر ان لاٹھیوں پر باندھے گئے تھے…‘‘
اگرچہ بھڑکانے اور پہلا پتھر پھینکنے والوں کے کردار کو کم نہیں کیا جا سکتا، لیکن بات یہ ہے کہ تہواروں اور جلوسوں کو تشدد بھڑکانے کے لیے مکروہ طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پولرائزیشن اور فرقہ پرست پارٹی کی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ییل یونیورسٹی کے مقالے کے مطابق، "فساد نسلی پولرائزیشن کا باعث بنتے ہیں جو کانگریس کی قیمت پر نسلی مذہبی جماعتوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں…”۔ ہندو قوم پرست جماعتوں کے کل ووٹ شیئر پر فسادات کے اثرات کا تجزیہ کرتے ہوئے مقالہ میں کہا گیا ہے کہ …‘‘ انتخابات سے پہلے ایک سال کی مدت میں ہونے والے فسادات نے بھارتیہ جن سنگھ / بھارتیہ جنتا پارٹی کے ووٹ شیئر میں اوسطاً 0.8 فیصد پوائنٹس کا اضافہ کیا۔
یہ واضح ہے کہ اس طرح کے واقعات میں اضافہ ظاہر کرتا ہے کہ فرقہ پرست پارٹی آنے والے انتخابات میں فائدہ حاصل کرنے کے لیے سماج کو مزید پولرائز کرنے پر آمادہ ہے۔ یہ اطلاعات کہ اب بلڈوزر بھی مذہبی جلوسوں کا حصہ بن رہے ہیں انتہائی تشویشناک ہیں۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰