سیاستمضامین

مغلیہ دور کی تاریخ کا نصاب سے – اخراج یہاں تو ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں اُن

اختر جمال عثمانی۔ بارہ بنکی

آخر کوئی اکثریت اپنے عروج کی بلند ترین سطح پر ہو کر اور زبردست احساس تفاخر کے ہوتے ان اندیشوں میں کیسے مبتلا ہو سکتی ہے کہ ایک معاشی اور معاشرتی طور سے پست اقلیت کی طرف سے لالچ دے کر یا زبردستی اس کا مذہب تبدیل کرا لیا جائے گا ۔ چنانچہ تبدیلی مذہب اور لو جہاد جیسے قانون بنائے جاتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ ماضی کو مرضی کے مطابق کنٹرول کرنے کی کوشش کے تحت کئی شہروں کے نام تبدیل کئے گئے فیض آباد کو ایودھیا، الہ آباد کو پریاگ را ج کر دیا گیا اور بہت سے شہروں کے نام تبدیل کرنے کے منصوبے ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ راجدھانی دہلی میں مغل بادشاہوں کے نام سے منسوب شاہراہوں کے نام تبدیل کر دئے گئے ہیں‘ ریلوے جنکشن مغل سرائے کا نام بھی بدل دیا گیا۔ موجودہ حکمرانوں کو مغلوں سے کچھ زیادہ ہی پرخاش ہے۔ وہی مغل جن کا دور قرون اولیٰ میں سنہرا دور کہلاتا ہے ۔ ان کے دور میں اس ملک کی شہرت چاردانگ عالم میں سونے کی چڑیا کے طور پر ہوئی اور یوروپ کے لوگ ہندوستان کے سمندری راستوں کی تلاش میں نکل پڑے۔
چند روز قبل ایک اہم خبر آئی کہ اتر پردیش کی یوگی حکومت نے فیصلہ لیا ہے کہ صوبے کے اسکولوں میں اب مغلوں کی تاریخ نہیں پڑھائی جائے گی بارہویں کلاس کے نصاب میں تبدیلی کرتے ہوئے مغل بادشاہوں کا احوال یو پی بورڈ اور سی بی ایس ای بورڈ دونوں سے خارج کر دیا گیا ہے۔NCERT کی کتابوں کو بھی تبدیل کر دیا گیا ہے ‘اب یو پی کے طالب علم مغل سلطنت کی تاریخ سے نا آشنا رہیں گے۔ اس کے علاوہ گیارہویں کلاس کی کتابوں سے اسلام کا آغاز ‘ عروج اور توسیع ‘تہذیبوں میں تصادم اور صنعتی انقلاب جیسے مضامین بھی نصاب سے خارج کر دئے گئے ہیں ۔ سوشلسٹ اور کمیونسٹ پارٹیوں کے عروج کی داستان اور آزادی کے بعد کانگریس کے دورِ حکومت کو بھی نصاب سے خارج کر دیا گیا ہے۔
مغل باشاہوں کا نام حذف کر کے دیگر تاریخی کرداروں ‘ رانا سانگا‘رانا پرتاپ یا شواجی پر کس طرح روشنی ڈا لی جا سکے گی ۔رانا سانگا نے کس سے جنگ کی اور گرو کے فرزندوں کو کس نے دیوار میں چنوا دیا اس کی وضاحت کیسے ہوگی۔ پانی پت کی جنگیں کن کے بیچ لڑی گئیں۔ بغیر اکبر کا نام لئے بیربل کے قصے کس طرح بیان کئے جا سکتے ہیں۔انگریزوں کی آمد مغل حکمرانوں کے دور میں ہوئی تھی۔ 1857کی جنگ آزاد ی جو کہ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں لڑی گئی تھی اس کا ذکر کیسے ہو گا۔ کیا عالمی تاریخ کی سب سے بڑی سلطنتوں میں شامل مغلیہ سلطنت کو ملک کی تاریخ سے غائب کیا جا سکتا ہے۔ لال قلعہ ، جامع مسجد ،تاج محل ، سکندرہ ، ہمانیوں کا مقبرہ جیسی مشہور عمارتوں کے علاوہ پورے بر صغیر میں موجود سیکڑوں قلعے ، مساجد ، مقابر اور بے شمار عمارتوں کو کیسے پوشیدہ رکھا جا سکتا ہے۔ کیا رام چرت مانس مغل بادشاہوں کے دور میں تصنیف نہیں کی گئی۔ ہندو نشاۃ ثانیہ کا دور بھی مغلیہ حکومت میں شروع ہوتا ہے۔ بھکتی کال کہلانے والا دور بھی مغلوں کا دور ہے جس میں تلسی داس ، سور داس ، کبیر داس وغیرہ ہوئے ۔ ایودھیا، بنارس اور متھرا کے ساتھ ساتھ بے شمار قصبات اور شہروں میں مندروں کی تعمیر مغل حکمرانوں کے دور میں ہی ہوئی۔ جنکے لئے جاگیریں بھی انہی حکمرانوں نے مہیا کیں۔ ظاہر ہے نہ پڑھائے جانے کے فیصلوں سے تاریخ تبدیل نہیں کی جا سکتی۔ کیا ہماری نئی نسل اپنے ہی ملک کی تاریخ سے انجان رہ کے دنیا میں سرخرو ہو سکے گی۔ درسی کتابوں میں تبدیلی ، ترمیم اور اضافے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی ہوتے رہے ہیں ۔ جدید علوم کی کتابوں میں نئی دریافتیں شامل کی جاتی رہی ہیں ۔ لیکن ہمارے ملک میں نصاب میں تبدیلی علمی بنیاد پر نہیں بلکہ فرقہ وارنہ سیاست اور ووٹ بینک کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔متعدد ریاستوں میں بی جے پی حکومتیں اس قسم کے اقدام کر رہی ہیں۔ اس سے قبل 2017 میں مہاراشٹرا کے تعلیمی نصاب سے مغلوں کی تاریخ کو ہٹایا جا چکا ہے۔ 1857 میں مغل سلطنت کا خاتمہ انگریزوں کے ہاتھوں ہوا اب درسی کتابوں سے اس کا دوبارہ خاتمہ موجودہ حکمرانوں کے ہاتھوں ہو رہا ہے۔
جو فرقہ وارانہ انتہا پسندی 1947 میں ملک کی تقسیم کی بنیاد بنی تھی وہ اپنی خباثتوں کے ساتھ دونوں طرف آج بھی موجود ہے۔ ایک طرف ہندوستان میں مغلیہ دور کو تاریخ سے خارج کیا جا رہا ہے تو دوسری طرٖف پاکستان میں راجہ پورس، راجا جے پال، بابا گرو نانک، مہا راجا رنجیت سنگھ، ادھم سنگھ بھگت سنگھ سر گنگا رام کو پنجاب کے نصاب میں نہیں پڑھایا جاتا۔ مغلیہ عہد کے بارے میں پاکستان کے بھی انتہا پسند طبقے کا خیال ہے کہ اس پورے عہد کو تاریخ سے خارج کر دیا جائے۔ کیوں کہ اگرچہ مغل حکمراں مسلمان تھے مگر انھوں نے اسلامی طرز حکومت اختیار کرنے اور شریعت اسلامی نافذ کرنے کے بجائے سیکولر طرزِ حکومت کواختیار کیا ہندئوں کو بڑے بڑے عہدوں اور منسبوں سے نوازا ۔ ہندو راجائوں کی بیٹیوں سے مغل شہزادوں کی شادیاں ہوتی رہیں ۔ فوج کا بڑا حصہ راجپوتوں پر مشتمل رہا اور اکثر سپہ سالار بھی راجپوت ہوتے رہے۔یہ عمل اکبر کے دور حکومت سے شروع ہوا اس لئے پاکستان کے اسکولوں کے نصاب میں اکبر کا ذکر نہیں ملتا۔ عالمی شہرت یافتہ مورخ پروفیسر عرفان حبیب کا اس سلسلے میں بیان قابلِ توجہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر دو سو سال کی تاریخ نہیں پڑھائی جائے گی تو اس دور کے بارے میں لوگوں کی جانکاری صفر ہو جائے گی۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ’’ ہندوستان کے کلچر کے ایک بڑے حصے کو آپ تاریخ سے نکال دیں گے آپ بھول جاتے ہیں کہ مغل آئے ضرور باہر سے تھے لیکن یہیں آباد ہو گئے ۔ یہیں کے باشندے ہو گئے شادی بیاہ سے بھی ہندوستانی ہو گئے۔ جہانگیر کی ماں ہندوستانی تھیں ، شاہ جہاں کی ماں ہندوستانی تھیں۔ انہوں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا جس سے کہا جائے کہ انہوں نے بھارت کو لوٹا ہو اور دولت باہر بھیجی ہو۔ باہر تو کوئی ان کا تھا بھی نہیں آپ ان کو باہر کا بتانے کے لئے دو سو سال کی تاریخ خارج کر دیں گے ۔آپ اپنے دیش کے بارے میں جتنا کم جانیں گے اتنے بیوقوف ہونگے‘‘۔ مغلیہ دور کی تاریخ اتنی قدیم نہیں کہ مفروضات پر مشتمل ہو پوری تفصیلات اور جزویات کے ساتھ تحریری طور پر موجود ہے۔ کئی بادشاہوں کی خود نوشتیں ، بابر نامہ ، جہانگیر نامہ وگیرہ دستیاب ہیں جن سے ساری دنیا واقف ہے دنیا بھر کے کتب خانوںمیں پوری تاریخ موجود ہے ہم اپنی نسلوں کو ناواقف رکھنے کے مقصد میں شائد ہی کامیاب ہو سکیں۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰