رقعے کی کہانی
آج سے ساٹھ پینسٹھ برس پہلے شادیاں دھوم دھام سے ضرور ہوتی تھیں مگر ایسا دکھاوا نہیں تھا۔ رقعہ4x3سے بڑا نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی اس پر گنیش کی آنکھ اور سونڈ کی نمائش ہوتی تھی ۔ بڑے سے بڑے گھر میں بھی لوگ رقعے کے ساتھ ساڑی نہیں بھیجا کرتے تھے ۔ ساڑیاں عام طورپر ان بزرگ سہاگن خواتین کو دی جاتی تھیں جو دولہا یا دلہن کو ہلدی لگاتی تھیں ۔ یہ ساڑیاں رسم کے اخیر میں بطور احترام دی جاتی تھیں ۔ شادی سے پہلے عام طور پر ساڑیاں ملازمین کو دی جاتی تھیں۔

اودیش رانی
ہندوستان جیسے غریب ملک میں فضول خرچی کا چلن عام ہے ۔ بے وجہ امارت کی نمائش وطیرہ بن گیا ہے ۔ ہندوستان چونکہ سیکولر ملک ہے، اس لیے جو ہندو کررہا ہے اسے مسلم ضرور کرے گا اور جو مسلم کررہا ہے اس کو بڑھا چڑھا کر ہندو کرے گا۔ تو صاحب کچھ عرصہ قبل میری پڑوسن کے پاس ایک رقعہ دیکھنے کو ملا جو اخبار کے سائز جیسا ہے ۔
رقعہ ایک اسکول بیاگ میں رکھا ہوا تھا اور ایک مقوے کا ڈبہ تھا جس پر نفیس کارچوب سے دولہا دلہن کا نام لکھا تھا ۔ ڈبے کے کھولنے پر ایک ساڑی تھی جو کم از کم دس ہزار روپئے کی تھی ۔ پھر اس ڈبے کے ڈھکن پر کئی چھوٹے چھوٹے خانے تھے، پہلے خانے میں ہلدی کی رسم، دوسرے خانے میںڈھولک کے گیتو ں کی شان اور تیسرے خانے میں مہندی کی رسم کے تحت مہندی کا ایک کون رکھا ہوا تھا ۔ساتھ ہی ایک طرف کھانے کے لوازمات کے تعلق سے معلومات بہم پہنچائی گئی تھیں ۔ ایک بڑا سا رقعہ تھا جس پر گنیش کی تصویر جو مذہباً منع ہے ( گنیش کی نامکمل تصویر یا مجسمہ منع ہے ) سنہرے حرفوں سے لڑکے اور لڑکی کے نام اور والدین کے نام تحریر تھے پھر یہ بھی لکھا ہواتھا کہ گورنر آنے والے ہیں ،لہٰذا وقت کی پابندی کی جائے ۔ ویسے وقت کی پابندی نہ تو گورنر او رنہ ہی دولہا دلہن کرتے ہیں ۔ رقعے کی پچھلی جانب ویج اور نان ویج مینو بھی تھا۔
رقعہ پاکر پڑوسن نہ صرف خوش تھیں بلکہ مجھے فخریہ دیکھ رہی تھیں ، جیسے کہہ رہی ہوں’’ کبھی ملا ہے ایسا رقعہ؟‘‘ میں سوچ رہی تھی کہ ایسا رقعہ اگر ملا ہوتا تو فوراً واپس کردیتی کیوں کہ رقعے کے ساتھ ساڑی کاروانہ کرنا،یوں معلوم ہورہا تھا جیسے ہم سے کہا جارہا ہو کہ ’’ آپ ہماری شادی میں شرکت کریں تو کم از کم دس ہزار کی ساڑی پہن کر آئیں اور مہندی کے جو ڈیزائن روانہ کیے گئے ہیں انہیں لگا کر آیے ۔ ‘‘ میں نے بڑے ضبط و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوچھا ’’ آپ تو گئی ہوں گی اور خوب مزے لوٹے ہوں گے !‘‘ اس پر انہوں نے بڑی افسردگی سے کہا ’’ ہم لوگ گئے تھے مگر شادی ایک ہفتے بعد ٹوٹ گئی ۔‘‘ میرے منہ سے نکلا ’’اس کا رقعہ نہیں آیا؟
سوچیے! آج سے ساٹھ پینسٹھ برس پہلے شادیاں دھوم دھام سے ضرورہوتی تھیں مگر ایسا دکھاوا نہیں تھا۔ رقعہ 4×3سے بڑا نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی اس پر گنیش کی آنکھ اور سونڈ کی نمائش ہوتی تھی ۔ بڑے سے بڑے گھر میں بھی لوگ رقعے کے ساتھ ساڑی نہیں بھیجا کرتے تھے ۔ ساڑیاں عام طورپر ان بزرگ سہاگن خواتین کو دی جاتی تھیں جو دولہا یا دلہن کو ہلدی لگاتی تھیں ۔ یہ ساڑیاں رسم کے اخیر میں بطور احترام دی جاتی تھیں ۔ شادی سے پہلے عام طور پر ساڑیاں ملازمین کو دی جاتی تھیں۔
خیر صاحب ! شادی کا کھانا بھی مختصر ہوتا تھا ، کائستھوں میں جب منڈوا پڑتا تو گوشت نہیں بناتے تھے مگر اب تو ایسے گھروں میں بھی گوشت بن رہا ہے جہاں چھونا بھی منع تھا ۔ میٹھا ایک یا کبھی کبھی دو قسم کابھی ہوتا مگر اس سے زیادہ نہیں بنایا جاتا ۔ شادی خانے کا نام نہیں سنا تھا ۔ اکثر ڈیوڑھی والے اپنے گھر کا حصہ شادی کرنے کے لیے دے دیتے تھے۔ اکثر کے ہاں برتن بھی مل جاتے تھے ۔ بہرحال دکھاوا یا نمائش نہیں تھی ، صرف مذہبی رسم کی انجام دہی تھی جو ایک ہفتے نہیں بلکہ سات جنم تک نباہی جاتی تھی …
1944ء اور 1945ء کے آس پاس میں نے ایک رشتے دار کی شادی میں شرکت کی تھی ۔ معمولی رقعہ تھا مگر آخری سطر تھی ’’وقفے وقفے سے چائے پلائی جائے گی‘‘یہ جنگ کا زمانہ تھا اور لوگ فضول خرچی سے باز رکھے جاتے تھے ۔ صرف اراکین خاندان کو شادی میں کھانا کھلایا جاتا تھا۔میں سوچتی ہوں کہ حکومت کیوں اس پر پابندی عائد نہیں کرتی ۔ اگراس اسراف پر روک تھام کی جائے تو بجلی ، پانی اور اناج کی اچھی خاصی بچت ہوگی۔
یہ سچ ہے جہیز پر پابندی کرکے کیا ہوا؟ جو اس طرح کے دکھاوے میں پابندی کی جائے ۔ جہیز کے لیے زبردست اشتہار بازی ہوتی ہے ، ویڈنگ کلکشن ، جہیز کا فرنیچر، پھر کیٹرنگ کا بھی اشتہار ۔ اب اس قسم کی اشتہار بازی امریکہ اور دبئی میں جہاں ہندوستانی بستے ہیں ، بہت ہی اہتمام سے کی جارہی ہے ۔ شادی کی بات چیت اور منگنی سے لے کر شادی کے اختتام تک ہوٹل پیاکیج دیتے ہیں اور شادی کی تاریخ اب ہوٹل کی بکنگ پر منحصر ہے ۔
آخریہ دکھاوا کب تک ؟ ہم اس معاملے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں نہ صرف مقروض ہورہے ہیں بلکہ ہمارے ملک کے معاشی نظام کو بھی دھکا لگ رہا ہے ۔ اگر ہم اپنے مذہب پر واقعی کاربند رہنا چاہتے ہیں تو پہلے دکھاوے سے گریز کریں، کیوں کہ ایک پاک جذبے کو گندہ کرنا مناسب نہیں ہے ۔
٭٭٭