طنز و مزاحمضامین

60 کے بعد

مظہرقادری

آج جب میں 60سال کی عمرکو پہنچ گیاہوں اورپلٹ کراپنی زندگی کے اس طویل سفرپر نظرڈالتاہوں تومجھے صرف شروع کے بیس سال یادہیں،جس میں بچپن،ہنسی خوشی، مرضی، خودمختاری، حکومت کرنا، لاڈ کرنا،فریادکرنا،ضدکرکے اپنی با ت منوانا یادرہا اورپھر20سا ل کی عمرکے بعد جب شادی ہوگئی، اس کے بعد کے 40سال پتہ نہیں کدھرپر لگاکے اڑگئے۔20سال تک کی عمرکی ساری چیزیں غائب ہوگئیں۔ان 40سالوں میں کبھی اپنے آپ کو یاد ہی نہیں کیا،مکمل طورپربھول گیا کہ میرا اپنا کچھ وجودہے۔ یادرہاتوبس صرف اپنا گھر،بیوی بچے،گھریلوضرورتیں،جن کی تکمیل کے پیچھے دوڑتارہا۔ہردن،ہرروز ضرورت آگے اورسکت پیچھے رہی اور40چالیس سال تک اپنی سکت اوربیوی بچوں کی ضرورتوں کو جڑانے کی کوشش کرتارہا، یہ بالکل بھول گیاکہ میں بھی ایک زندہ انسان ہوں۔میری بھی کچھ ضرورتیں ہوسکتی ہیں۔کچھ خواہشیں ہوسکتی ہیں، لیکن شکر ہے یہ کبھی ان 40 سالوں میں یادہی نہیں آئیں۔ان 40سالوں میں زندگی صرف کشمکش کا شکار رہی۔ہرچیز چکاتارہا۔ سوچتارہا کہ برتن زیادہ ہیں اورڈھکن کم کس کو ڈھانپوں اورکسے کھلا چھوڑدوں۔اب جبکہ 60سالوں میں ساری ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوگیا،ماں باپ ختم ہوگئے،بہن بھائی بہت حدتک کم ہوگئے،کافی دوست دنیا سے رخصت ہوگئے،رشتے دار،بزرگ سب ساتھ چھوڑدیئے۔توسوچاکہ بہت پیاربانٹ دیا،بہت دوسروں کے کے لیے جی لیا، اب اپنے لیے بھی کچھ وقت دینا چاہیے اورمیں نے 60سال کے بعد زندگی کی شروعات ایک نئے سرے سے شروع کرنے کے لیے پہلی بار ایک بنیان کی دوکان پر جاکر خریدا اورپھرایک چپل شوروم پر خوداپنی پسند اورمرضی سے خریدا۔ان 40سالوں میں کبھی کوئی چیز اپنے لیے اپنی مرضی سے نہیں خریدی تھی، سوائے کبھی کبھا رقلم اورکاغذکے۔کتابیں پڑھنے کا اتنا شوق ہونے کے باوجودعموماً مانگ کر پڑھتا رہا۔ان 40 سالوں میں صبح شام صرف گھروالوں کی ضرورتوں کا سامان روزخریدتا اورہرچیز کو چکاتا تھا۔کتنے کا ہے،کتنے تک دوگے۔پہلے قیمت پوچھ کر چکاکر لیتاتھا، لیکن اب خرید کر خاموشی سے جوقیمت دوکان والا پوچھا وہ دے رہاہوں اور یہ سوچ رہاہوں کہ اگردوکاندار مجھ سے کسی چیزکی زیادہ قیمت لے رہاہے توشاید وہ اس سے اپنی بچی کی اسکول کی فیس دے رہاہوگایا بیوی کی کوئی ضرورت پوری کررہاہوگا کیوں کہ وہ ا بھی 20اور60کے درمیان کانظرآرہاہے۔اب میں نے آٹو سے اترکرپیسے دینے کے بعد چلرواپس لینے کے لیے کھڑے رہنا چھوڑدیا یہ سوچ کر کہ شاید وہ چلر اس آٹو والے کی کوئی بڑی نہ سہی چھوٹی موٹی ضرورت پوری کررہاہوگا۔میں نے اپنے ہم عمردوستوں کویہ بات یاددلانا چھوڑدیاہے کہ یہ بات تم اس سے پہلے بھی کئی بار بول چکے ہو۔کیونکہ ہوسکتاہے کہ یہ کہانی ان کو اپنے کسی خوشگوارماضی میں لے جاتی ہوگی اورمیں ان کا خوبصورت خواب توڑنا نہیں چاہتا۔اب ہرکسی کی چھوٹی سے چھوٹی اچھائی پر دل کھول کر تعریف کرنا شروع کردیاہے یہ سوچ کر کہ شاید ان کی زندگی میں تھوڑی خوشی آجائے اورہمت افزائی ہوجائے۔اب میں نے اپنے کپڑوں کو راستے میں یاکہیں بھی لگنے والے داغ دھبوں سے بچانا چھوڑدیاہے کیو ں کہ میں یہ سمجھتاتھاکہ ہماری شان اورپہچان ہمارا پہناوا ہوتاہے لیکن اب احساس ہوگیاہے کہ لوگ مجھے جانتے ہیں،میرے کپڑوں کو نہیں اوریہ مقام حاصل کرنے کے لیے مجھے 60سال کا عرصہ لگا۔جب میری اپنی ایک الگ شناخت بن گئی۔اب میں نے ان لو گوں کو اہمیت دینا چھوڑدیاہے جومجھ پر نکتہ چینی کرتے ہیں۔مجھے احسا س ہوگیاہے کہ یہ لوگ میری اہمیت نہیں جانتے اورایسے لوگوں کی تعدادمجھے چاہنے والوں کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔اب راستے میں کوئی مجھے ارے بول کر پکارنے والا نہیں رہایاکوئی مجھے برابولا بھی تومیں برانہیں مان رہاہوں،کیوں کہ میں الفاظ سے چھوٹابڑا ہونے کے اسٹیج سے گزر چکاہوں۔ اب میں نے اپنے احساسات پر مکمل قابوپالیا ہے اوربالکل نارمل ہوگیا ہوں۔اب مجھے کسی با ت پر غصہ نہیں آتا کیو ں کہ میں جان گیاہوں کہ دنیامیری مرضی سے نہیں چل سکتی۔اب میں نے اپنی انا کو فنا کردیاہے۔اپنے 60سالہ تجربے سے یہ سیکھاہے کہ انا انسان کو تنہاکردیتی ہے جبکہ تعلقات اورمحبت ہمیں ہمیشہ ہزاروں کے گھیرے میں رکھتی ہے۔اب میں نے جان لیاہے کہ نیکی اوربدی ایرپورٹ کے کنویربیلٹ کے مانند ہوتی ہے جس پر رکھا ہواسوٹ کیس گول پھر کر پھرہمارے سامنے آتارہتاہے۔اسی طرح ہماری نیکی اوربرائی کا صلہ بھی گھوم کر ہمارے سامنے آتارہتاہے۔ہم کسی کے ساتھ اچھا کریں توہمارے ساتھ بھی اچھاہوتاہے اوربراتوبرا جوہمیں فوری نظرنہیں آتا۔اب میں نے بیوی بچوں کو کسی بات پر روکنا ٹوکنا چھوڑدیا ہے کیوں کہ میں نے سمجھ لیاہے کہ کوئی کسی کے بولنے سے نہیں بدل سکتا۔اپنے پوتراپوتری،نواسہ نواسی کے معاملات میں زیادہ دخل دینا اوران کی چھوٹی چھوٹی تکلیفوں پر پریشان ہونا چھوڑدیا ہے کیونکہ میرے پریشان ہونے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔اگربچوں کو بخارآجائے اورمیں کہوں کہ ٹھنڈے پانی کی پٹی ڈالو تومیرے بچے بولتے، نہیں میں انہیں دواخانہ لے کے جارہوں۔مجھے احساس ہوگیاہے کہ ان کی اولا دکے بارے میں وہ مجھ سے بہترکرسکتے ہیں۔اب میرے مشورے ان کے لیے Out Dated ہوگئے ہیں۔اسی لیے میں نے کسی بھی معاملہ میں دخل دینا چھوڑدیاہے۔اب مجھے احساس ہوگیاہے کہ جب بچے ترقی کی بلندیوں پر پہنچ جاتے توعموماًوہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی ترقی کے پیچھے ایک بوڑھے باپ کی جوانی کے 40سال ہوتے ہیں۔اب میں یہ سوچ رہاہوں کہ آج جوبھی اپنے لیے اور دوسروں کے لیے کچھ اچھا کرسکتا ہوں کردوں۔اب کوئی کا م نفع نقصان کی بنیاد پر نہیں کررہاہوں۔اپنے ضمیرکی آواز اوردل کی تسلی کے لئے کررہاہوں۔مالک نے جوزندگی دی، اس کے ساٹھ سال گلے شکوے شکایت میں گزرگئے اورباقی زندگی خوش اورشکرگزاررہنے کے لئے گذاررہاہوں۔