سعودی عرب کی ترقی کی نئی سمت نئی رفتار

پروفیسر اختر الواسع
سعودی عرب نے ۲۳/ ستمبر کو اپنا قومی دن منایا۔ ساری دنیامیں جہاں جہاں سعودی عرب کے شہری اور ہم نوا رہتے ہیں انہوں نے اس دن کو پورے جوش و خروش کے ساتھ منایا۔ آج سے ۹۳ سال پہلے آج ہی کے دن جلال الملک عبد العزیز نے اپنے بزرگوں کے اس خواب کو ایک نئی ریاست مملکت سعودی عربیہ کی بنیاد رکھ کر شرمندہ تعبیر کیا تھا جس کے لیے وہ نہ جانے کب سے کوششیں کر رہے تھے۔ جلال الملک عبد العزیز آل سعود کے بعد شاہ ابن سعود، ملک فیصل، ملک خالد، ملک فہد، ملک عبد اللہ نے اپنے اپنے انداز سے جس میں کسی قدر یکسانیت تھی، سعودی عرب کو ایک نیا روپ، ایک نیا رنگ عطا کیا،لیکن ملک عبد اللہ کے بعد جب ملک سلمان نے زمام اقتدار سنبھالی تو انہوں نے پہلا انقلابی قدم یہ اٹھایا کہ جانشینی کے منصب پر بحیثیت ولی عہد مملکت اپنے بوڑھے بھائیوں کی جگہ اپنے نوجوان، عزم و حوصلے سے بھرپور، سعودی عرب کے لیے نئے عزائم کے مالک ولی عہد مملکت کے طور پر۳۴ سالہ نوجوان محمد بن سلمان جنہیں عرف عام میں ایم بی ایس کہا جاتا ہے کو نامزد کیا۔ ولی عہد محمد بن سلمان نے جس سرعت اور آہنی عزم کے ساتھ مملکت کا کاروبار سنبھالا، اس میں یقینی طور پر ملک سلمان کے ساتھ سعودی عرب کی نئی پیڑھی کی تائید و حمایت انہیں پوری طرح حاصل رہی۔
ملک محمد بن سلمان نے ۲۰۳۰کو ایک حد فاصل مان کر سعودی عرب کو نیا منصوبہ عطا کیااور یہ نیا منصوبہ کسی ایک میدان میں نہیں تھا بلکہ یہ مختلف الجہات تھا۔ محمد بن سلمان کسی کو پسند ہوں یا نہ ہوں اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ انہوں نے سعودی عرب کو ماضی کی حد بندیوں سے نکال کر ۲۱ ویں صدی کے مستقبل کے سعودی عربیہ کی تعمیر و تشکیل کا جو بیڑا اٹھایا ہے، ایسا ہونا ناگزیر تھا کیوں کہ پچھلے ۸۰، ۹۰ سال میں دنیا میں بہت کچھ بدل گیا اور دنیا کے ساتھ ہی سعودی عرب میں بھی تبدیلیاں نہ ہوں یہ ناممکنات میں سے تھا۔ آپ جب اپنے نوجوان لڑکوں لڑکیوں کو یورپ اور امریکہ اور خود اندرون ملک بھی جدید تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں،اور یہ توقع رکھیں کہ وہ جدید تصورات زندگی سے دور رہیں گے، یہ خام خیالی ہی کہی جا سکتی ہے۔ سعودی عرب کے معاشرے میں تبدیلی کے آثار ملک سلمان کی تاج پوشی سے بہت قبل ملک عبد اللہ کے زمانے میں ہی نظر آنے لگے تھے۔ جدید تعلیم کے اداروں کا قیام خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم کے لیے خصوصی اہتمام، لڑکیوں کو ڈرائیونگ کی کسی قدر آزادی، اپنے محرموں کے ساتھ صنعت و تجارت کو سنبھالنے کا موقع اسی وقت سے ملنا شروع ہو گیا تھا لیکن اس میں اور محمد بن سلمان میں فرق یہ ہے کہ ولی عہد مملکت نے وسیع پیمانے پر مملکت کی حالت، ہیئت اور صورت کو بدلنے کا ایسا فیصلہ کیا جس میں معیشت، خارجہ پالیسی اور دنیا میں ایک آزاد اور خود مختار مملکت کی حیثیت سے سعودی عرب کو پیش کرنا تھا جس میں وہ کامیاب بھی رہے۔
یہ کم دلچسپ بات نہیں کہ یہ محمد بن سلمان ہی ہیں جن کے بل پر آج سعودی عرب دنیا کو یہ بتانے میں کامیا ب ہوا ہے کہ وہ کسی کا پٹھو نہیں ہے۔ جس طرح امریکہ اور چین کی کشمکش اور کشاکش کے بیچ محمد بن سلمان نے چین کے ساتھ دوستی کے ہاتھ بڑھائے ہیں وہ کافی چشم کشا ہیں۔ ذرا غور کیجیے کہ ایران جس سے سعودی عرب کا چھتیس کا آنکڑا رہا ہے، اس کے ساتھ چین کے توسط سے خیر سگالی اور سفارتی تعلقات بحال کیے۔ اسی طرح سعودی عرب کے اسکولوں میں اب بارہویں جماعت تک انگریزی کے علاوہ چینی زبان کی تعلیم کو شامل نصاب کر لیا گیا۔ یہ محمد بن سلمان کی بے خوفی اور صلح پسندی دونوں کا جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ انہوں نے یمن میں امن کے قیام کے لیے حوثیوں کے ایک نمائندہ وفد کو ریاض آکر بات چیت کا موقع فراہم کیالیکن یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ چین دنیا میں جو چھ عالمی کاری ڈور اپنے خرچے پر بنانا چاہتا ہے، اس کے مقابلے محمد بن سلمان ہندوستان، مغربی ایشا اور یوروپ کے ساتھ مل کر ایک ایسے کاری ڈور کی تعمیر کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں جس کا ایک مقصد چین کو اس کوشش سے الگ تھلگ کرنا ہے۔ دراصل محمد بن سلمان سعودی عرب کو اب کسی کا پچھ لگو نہیں بنانا چاہتے۔ وہ جانتے ہیں کہ پٹرول اور گیس پر انحصار کم کرنے کے لیے امریکہ اور یوروپ اور کچھ دوسرے ملک جن میں افریقہ کے ممالک بھی شامل ہیں، متبادل توانائی کے ذرائع کھوج نکالنے میں مصروف ہیں۔ اس لیے سعودی عرب تیل اور گیس کے برآمدات پر اپنا معاشی انحصار کم کرتے ہوئے خود بھی شمسی توانائی پر تحقیقات کی بھر پور کوششیں کر رہا ہے۔ یہ بھی خدائے بزرگ و برتر کا اس پر احسان ہے کہ اس کے پاس جس طرح زیر زمین پٹرول اور گیس ہے، اسی طرح انتہائی درجہ حرارت والے ریگستانی علاقے بھی اسی کے پاس ہیں جس سے شمسی توانائی اتنی پیدا ہو سکتی ہے کہ وہ سعودی عرب کی اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے ساتھ دنیا کے دوسرے ملکوں کو برآمد کر سکتی ہے۔ محمد بن سلمان کی یہ سوچ بلا شبہ بڑے تدبر اور فراست والی ہے، کیوں کہ آج کی دنیا میں سارا کھیل اپنی ضرورتوں کی تکمیل کا ہے۔ جس دن دنیا کے پاس پٹرول اور گیس کی جگہ متبادل توانائی کے ذرائع آ جائیں گے، سعودی عرب ان کے لیے غیر اہم ہو کر رہ جائے گا۔ اس کے علاوہ سعودی عرب جس نے ہمیشہ کلچر کو ولچر کا مترادف قراردیا آج محمد بن سلمان کی نوجوان سوچ کے نتیجے میں کلچرل ٹورزم یعنی ثقافتی سیاحت پر زور دے رہا ہے۔ آج وہ سیاحت جو فروغ دینے کے لیے نہ صرف نیوم جیسے شہر بسا رہا ہے بلکہ خیبر اور طائف، ریاض اور ظہران کو ثقافتی مراکز کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے اور انہیں وہاں آنے سعودی عرب میں موجود ثقافتی ورثے کو دیکھنے کے لیے آمادہ کر رہا ہے اور اس طرح اپنی معیشت کو مضبوطی عطا کرنے کے لیے اس محاذ پر بھی پوری طرح سر گرم عمل ہے۔
سعودی عرب کی نئی نسل کی طرح شہزادہ محمد بن سلمان کی بھی یہ سوچ ہے اور در حقیقت اس کو انہوں نے ہی عام کیا ہے کہ سعودی عرب سے سب نے فائدہ اٹھایا ہے۔ اس کے وسائل سے استفادہ کرنے میں امریکہ سے افریقہ کے چھوٹے سے چھوٹے ملک بھی شامل رہے ہیں۔ اس لیے اب ہمیں اپنے پیروں پر کھڑے ہونا چاہیے اور اپنا کفیل خود ہونا چاہیے۔ امریکہ کے سابق صدر ڈرونالڈ ٹرمپ نے ”یو ایس فرسٹ“ کا ایک نعرہ دیا تھا، شہزادہ محمد بن سلمان کی قیادت میں سعودی عرب نے بھی اپنے لیے ”سعودیہ فرسٹ“ کا نعرہ بجا طور پر اختیار کیا ہے۔
ان تمام تبدیلیوں کے نتیجے میں وہ لوگ جو سعودی عرب پر نکتہ چینی کر رہے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ شہزادہ محمد بن سلمان نے فلسطین کے سلسلے میں سعودی عرب کے موقف میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آنے دی ہے۔ انہوں نے صدر یاسر عرفات کے ذریعے اوسلو معاہدے کے تحت اسرائیل اور فلسطین کے بیچ دوریاست والے معاہدے کی ہمیشہ تائید کی ہے اور وہ اب بھی اسی کو دوہرا رہے ہیں۔ جہاں تک شریعت کو بنائے رکھنے کا سوال ہے وہ یہ واضح کر چکے ہیں کہ قرآن ہی مملکت سعودی عرب کا دستور ہے اور اس سے انحراف کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اسی طرح جہاں تک حج اور عمرے کو آسان بنانے کے لیے اور زائرین کو آسانیاں فراہم کرنے کا سوال ہے، اس میں کوئی کمی نہیں آنے دی جا رہی ہے۔ سعودی عرب ترقی کرے، آگے بڑھے اور وہاں کی مقدس سر زمین ہمارے ارمانوں کی آماجگاہ بنی رہے، حرمین شریفین ہماری عقیدتوں کا مرکز رہیں، اس کے لیے ہم سب کو دعا کرنی چاہیے اور اس بات کا ہم سب کو خیال رکھنا چاہیے کہ اللہ، اس کے رسولؐ اور ان کے صحابہؓ کی یہ سرزمین جو بلد الامین کی وارث ہے ہم سب کے لیے مثالی بنی رہے۔
٭٭٭