طنز و مزاحمضامین

سڑک سے گزرتے گزرتے کہیں ہم گزر نہ جائیں

حمید عادل

ایک دور تھا جب حیدرآباد کی سڑکوں پرپانی کا چھڑکاؤ ہوا کرتا تھا اور آج یہ عالم ہے کہ ذرا سی برسات ہوئی نہیں کہ سڑکیں جھیل کا سا منظر پیش کرتی ہیںاور جھیلوں کے لیے مشہور ماضی کے حیدرآباد کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔جہاںحیدرآباددکن کی سڑکوں پر سر شام پانی چھڑکا جاتا تھا تو وہیں سنا ہے کہ پاکستان میں موجود حیدرآباد کی سڑکیں روزانہ عرق گلاب سے دھوئی جاتی تھیں…اور آج دونوں ہی ہم نام شہروں کی سڑکوں پر گندگی اورآلودہ پانی کے نالے بہتے نظر آتے ہیں۔پچھلے دنوں کی بارش نے شہر حیدرآباد کی سڑکوں کی گویا ہڈی پسلی ایک کر دی … چمن بیگ ان ٹوٹی پھوٹی اور بکھری ہوئی سڑکوں کودیکھ کرکہتے ہیں: یہ ضرور کسی دشمن ملک کی کارستانی ہے، جس نے راتوں رات خفیہ بمباری کے ذریعے حیدرآباد کی سڑکوں کوادھیڑ کر رکھ دیاہے…
زندگی بلاشبہ نشیب و فراز کا مجموعہ ہے لیکن انسانی زندگی میں اتنے نشیب و فراز نہیں ہوں گے جتنے نشیب و فراز آج کل شہر کی بعض سڑکوں پر ہمیںشب و روزدیکھنے بلکہ بھگتنے پڑ رہے ہیں… خطروں سے پرُ سڑک پرگاڑی چلانا ویسا ہی ہے جیسے کسی موت کے کنوئیں میں موٹر سائیکل دوڑانا۔ چنانچہ جب جب ہم شہر کی سڑکوں سے گزرتے ہیں ہماری سماعت میں معروف فلمی مکھڑا غیب سے گونجنے لگتا ہے کہ ’’ نجانے کونسا پل موت کی امانت ہو! ‘‘ ہمارے ملک نے ایسے ایسے زمروں میں نمبر ون پوزیشن حاصل کررکھی ہے کہ کوئی دوسرا ملک وہ مقام حاصل کرنے کے تعلق سے سوچ بھی نہیں سکتا۔ ہندوستان ،عصمت ریزی اورکرپشن کے علاوہ سڑکوں کے معاملے میں بھی خاصہ رسوا ہے اور یہاں کی سڑکیں دنیا میں سب سے زیادہ پرخطر اور غیر محفوظ سمجھی جاتی ہیں…حال ہی میں جاری کردہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے اعداد و شمار کے مطابق، 2021 میں ہندوستان بھر میں سڑک حادثات میں 1.55 لاکھ سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے … اوسطاً روزانہ 426 یا ہر گھنٹے میں 18افراد … یہ کسی بھی کیلنڈر سال میں سڑک حادثات میں مرنے والوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔
پچھلے کچھ سالوں سے شہر حیدرآباد کی کشادہ کی گئی سڑکیں تک تنگ دامنی کا شکوہ کرتی نظر آرہی ہیں۔ گاڑیوں کے درمیان جہاں ذرا سی جگہ ملتی ہے، ’’ خالی جگہ پر کرو‘‘ کا نعرہ مار کروہاں کوئی گاڑی ٹھونس دیتا ہے۔ شہر کی وہ سنسنان گلیاں جہاںچند سال قبل تک بھی کوئی آتا جاتا نہ تھا، وہاں بھی ٹریفک جام کے ہوشربا نظارے دیکھنے کو مل رہے ہیں … ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ‘‘ کے مصداق حیدرآباد میں جوں جوں فلائی اوورس بنتے جا رہے ہیں ، توں توں ٹریفک مسائل بڑھتے جارہے ہیں …بنا گیئر والی اسکوٹرس تو گویا ہوا جہاز بن گئی ہیں ، ہم جیسے ’’ پیدل‘‘انسانوں کوقطعی خاطر میں نہیں لاتیں،اتنی ڈھیٹ ہیں کہ کہتی ہیں ’’ زندگی پیاری ہے تو کبھی میری راہ میں نہ آنا، ورنہ اڑا دوں گی۔‘‘ ہر وقت ہماری ٹانگوں کے درمیان سے گزرنے پر آمادہ رہتی ہیں … کلیم کلبلا جو خاصے طویل قامت ہیں، کہتے ہیں ’’ہر روز کتنی ہی بنا گیئر والی اسکوٹرس میری ٹانگوں کے درمیان سے گزر جاتی ہیں اور مجھے پتا تک نہیں چلتا ۔‘‘
جب بھی ہم سڑک پر گاڑیوں کا سمندر نہیں تو دریا دیکھتے ہیں ہمارے لبوں پر جگر مرادآبادی ( معذرت کے ساتھ)کا یہ شعر مچل اٹھتا ہے:
یہ’’ شہر‘‘ نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجئے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
ٹریفک مسائل پر قابو پانے کے لیے شہرلاس اینجلس کو کھودکر زمین کے اندر سڑکوں کا تھری ڈی نیٹ ورک بچھانے کا ارادہ ہے۔اس خبر کو پڑھ کر چمن بیگ کہنے لگے: ’’ہمارے پاس توانڈر گراونڈ سڑکیں بچھانا ممکن نہیں ہے ، البتہ شہر حیدرآباد پر سلاب ڈال دیا جائے تو بہتر ہوگا۔‘‘
اگر آپ کے پاس کار نہیں ہے تو پھربارش تھم بھی جائے توآپ چھتری اور رین کورٹ رکھنے کے باوجود بھیگے بغیر گھرپہنچ ہی نہیں سکتے …کیونکہ سڑک پر دوڑنے والی برق رفتار گاڑیاںآپ کا غسل پر غسل کرتی جاتی ہیں جو کہ ڈرائیورس کی مجبوری کے علاوہ کہیں نہ کہیںان کی بے حسی بھی ہوتی ہے،دراصل معقول سزاؤں کا نہ ہونا بھی ، اس کی بڑی وجہ ہے۔ متحدہ عرب امارات میںایک اماراتی نوجوان کو جنونی انداز میں گاڑی چلانے کی پاداش میں تین ماہ تک سڑکیں اور پبلک پارک صاف کرنے اور 17 ہزار درہم کی سزا سنائی گئی تھی اور اس سزا سے یقینا وہ بہت کچھ سیکھ گیا ہوگا…
موسم برسات میں کہیں گہرے گڑھوں میں پانی کھڑا ہوکر محکمہ بلدیہ کے قابل عملے کا بے چینی سے انتظار کرتانظر آتا ہے تو کہیں مین ہول جوش میں آ کر ابلنے لگتے ہیں۔کب پیروں تلے زمین کھسک جائے گی اور کب کوئی گڑھے یامین ہول میں گرجائے گا، کہا نہیں جاسکتا۔جب جب ہم کھلے مین ہول میں کسی شہری کے بہہ جانے کی دلخراش خبر پڑھتے ہیں، لرز کر رہ جاتے ہیں!’’اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے ‘‘ کے مصداق اِدھرکسی مین ہول کا شکار ہوکر اُدھر نکلیں گے بھی یا نہیں نہیں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔معروف شاعرنثار اٹاوی کا کہنا ہے :
یقینا رہبر منزل کہیں پر راستا بھولا
وگرنہ قافلے کے قافلے گم ہو نہیں سکتے
اورہمارے شہر کے کھلے مین ہولس کا یہ عالم ہے کہ اب تک کئی لوگ اس میںگم ہوچکے ہیں … یعنی شہر حیدرآباد کی جھیل نما سڑکیں،خونی سڑکو ں میں بدل جاتی ہیں۔کچھ ممالک میں سڑک پر تھوکنا تک جرم ہے لیکن ہندوستانی سڑکوںپر گندگی بھی بآسانی کی جاسکتی ہے۔ یوں تو سڑکوں پرجماپانی بارش کا ہوتا ہے لیکن محسوس یوںہوتا ہے جیسے شہر کی سڑکیں ارباب مجاز کی نااہلی پر شرم سے پانی پانی ہوگئی ہیں…
’’ گڑھا بھرنے‘‘ کے لفظی معنیٰ گڑھے کو مٹی سے پرُ کرنا ہے لیکن حیدرآباد میں پیٹ بھرنے کو بھی ’’ گڑھا بھرنا‘‘ ہی کہا جاتا ہے لیکن ہمارا فرض شناس محکمہ ٔ بلدیہ ’’ گڑھا بھرنے‘‘ کا مطلب غالباً صرف اور صرف پیٹ بھرنے کے معنوں ہی میں لیتا ہے، چنانچہ مذکورہ محکمے کے تعلق سے یہ بات خاصی مشہور ہے کہ ’’ بلدیہ ، کھایا ، پیا ، چل دیا‘‘ گریٹر حیدرآباد کے محکمہ ٔ بلدیہ کا قابل عملہ جگہ جگہ سڑکیں ایسے کھود کر رکھ دیتا ہے جیسے اسے قارون کے کسی خزانے کی تلاش ہو… گڑھے کھودنے کے بعد مذکورہ محکمے کو گڑھے بھرنے کا اس وقت تک خیال نہیں آتا جب تک کہ اس میں دو چار آدمی گر کر معذور نہ ہوجائیں …
پچھلے برس ہم نے دیکھا تھا کہ محکمہ بلدیہ کی جانب سے کھودکر یوں ہی چھوڑ دئیے گئے پانی سے لبریزایک گڑھے میں چمن بیگ گل ڈالے بیٹھے ہیں۔ ہم سے رہا نہ گیا ،چنانچہ قریب جاکرہم نے کہا ’’یار چمن! یہ تم اپنے آپ سے کیسا مذاق کررہے ہو ؟ یہاں کوئی مچھلی ہاتھ نہیں آئے گی!‘‘ ہمارا ریمارک سن کر چمن بیگ پہلے تو معنیٰ خیز انداز میں مسکرائے اور پھرانہوں نے جواب دیا ’’تم مجھے احمق سمجھنے کی حماقت نہ کرو، میں جانتا ہوں کہ یہاں کوئی مچھلی نہیں ہے!‘‘
’’ توپھراس طرح بیٹھنے کا مطلب کیا ہے؟‘‘ہم نے حیرت سے سوال داغا۔
’’یہاں گل ڈال کر بیٹھنے کے دو فائدے ہیں، ایک فائدہ تویہ ہے کہ مچھلی کے شکار کا شوق پورا ہوجاتا ہے اوردوسرابڑا فائدہ یہ ہے کہ دل کو ملال نہیں ہوتا کہ ہائے کوئی مچھلی نہیں پھنسی … کیونکہ مجھے پہلے ہی سے پتا ہے کہ یہاں کوئی مچھلی ہے ہی نہیں…‘‘
دوستو!جیسے ہی بارش ہوکر تھمتی ہے،ہمیں شہر کی سڑکوں سے گزرتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم دنیا ہی سے گزر جائیں گے، گھر کا راستہ ہمیں لا پتا معلوم ہوتا ہے،تیس منٹ کا راستہ تین گھنٹوں میں بھی طے نہیں ہوپاتا…موقع کی مناسبت سے عادل منصوری کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں:
کیوں چلتے چلتے رک گئے ویران راستو
تنہا ہوں آج میں ذرا گھر تک تو ساتھ دو
دو دن قبل ہم مرتے مرتے بچے ، ویسے مرمر کے جیے جانے کا نام ہی زندگی ہے۔ چمن بیگ نے ’’ گاڑی والے گاڑی دھیرے ہانک رے ‘‘والی ہماری ساری ہدایات بلکہ درد مندانہ اپیلوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے ایسے نکال باہر کردیا جیسے دو کان اسی مقصد کے تحت عطاکیے گئے ہوں۔چمن کے ساتھ سفرکا آغاز ہی نہایت دھماکو تھا، جیسے ہی انہوں نے موٹر سائیکل اسٹارٹ کی ، وہ کسی منہ زور گھوڑے کی طرح اپنی اگلی ٹانگ اٹھا کرکچھ اس طرح ہنہنائی کہ ہماری کھوپڑی چمن کی کھوپڑی سے جاٹکرائی اور ہمیں اپنی بتیسی حلق میں اترتی ہوئی محسوس ہوئی۔ہم نے اپنے لرزتے دل پر بمشکل قابو پاتے ہوئے لڑکھڑاتے لہجے میںالتجا کی: ’’ بھائی جان! تم بس اتنایاد رکھو کہ ہم ابھی مرنا نہیں چاہتے!‘‘ ہماری بات سن کر چمن بیگ نے جھوم کر کہا ’’ تم بے فکر رہو! انشاء اللہ تمہارے پیٹ کا پانی تک ہلنے نہیں دوں گا!‘‘ لیکن ان کا تیقن محض سیاسی وعدہ ثابت ہوا ، کیونکہ وہ موٹر سائیکل کو نہ صرف برق رفتاری سے دوڑا رہے تھے بلکہ وہ گہرے سے گہرے گڑھے اور پہاڑ نما اسپیڈ بریکرس کو تک خاطر میں نہیں لارہے تھے اور ہمیں محسوس ہونے لگا تھا جیسے ہم اپنے آخری سفر پر روانہ ہو چکے ہیں۔جب جب وہ دوران گفتگو اپنا دایاں ہاتھ موٹر سائیکل کے ہینڈل سے ہٹا کر ہمیں کوئی بات سمجھانے کی خاطر ہوا میں نچا نے لگتے تب تب موٹر سائیکل کی چال شرابی کی سی ہوجاتی اور مارے ہیبت کے ہمارا کلیجہ معہ دل گردہ منہ کو آجاتا… ہم نے صدائے احتجاج بلند کیا تو چمن بیگ شان بے نیازی سے ایک زور دار قہقہہ لگا کر گنگنا اٹھے ’’ روتے ہوئے آتے ہیں سب ، ہنستا ہوا جو جائے گا ، وہ مقدر کا سکندر جان من کہلائے گا‘‘اور پھرانہوں نے موٹر سائیکل کی رفتار ایسے بڑھا دی جیسے انہوںنے اپنے ساتھ ساتھ ہمیں بھی ’’ مقدر کا سکندر‘‘ بنانے کا حتمی فیصلہ کرلیا ہو۔چمن بیگ پاس سے گزر رہی ہرموٹر سائیکل کے قریب سے اپنی موٹر سائیکل کچھ اس طرح دوڑارہے تھے جیسے کہہ رہے ہوں ’’ ملے سر میرا تمہارا تو سر بنے ہمارا‘‘…ہم یہ سوچ سوچ کر مرے جارہے تھے کہ خدا نخواستہ کسی برق رفتارموٹر سائیکل کے ہینڈل سے چمن بیگ کی موٹر سائیکل کا ہینڈل لپٹ جائے تو پھرہماری باقیات بھی گھر والوںکو نصیب نہ ہوں گی… چمن وقتاً فوقتاً بریک مار کر ہماری قربت کا یوں مزہ لے رہے تھے جیسے سڑک چھاپ بوائے فرینڈس، اپنی اپنی گرل فرینڈس کو پچھلی نشست پر بٹھا کرہر زور دار بریک پر ’’ دوریاں نزدیکیاں بنیں‘‘ کے تحت محظوظ ہوا کرتے ہیں۔
سفر ایسے تیسے کٹ رہا تھا کہ دفعتاً ہم اپنی نشست سے اڑ کرپہلے چمن بیگ کو اور پھر موٹر سائیکل کے پٹرول ٹینک کو پار کرتے ہوئے آلودہ پانی سے بھرپورایک گڑھے میں جاگرے ، ہماری یہ درگت اس لیے ہوئی کیوں کہ چمن بیگ نے اپنی برق رفتار موٹر سائیکل کو اچانک بریک لگادیا تھا… …ہم نے نیم غشی کی حالت میں دیکھا کہ گڑھے کو یعنی ہم کو گھیرے ہوئے جم غفیر میں سے بیشتر حضرات اپنے اپنے سل فون کے ذریعے ہماری ویڈیو گرافی اور فوٹو گرافی میں مصروف ہیںاور کوئی ہمیں گڑھے سے باہرنکالنے کو تیار نہیں ہے… ان حالات میں چمن بیگ ہی تھے جنہوں نے دوستی کا کماحقہ حق ادا کرتے ہوئے ہمیںگڑھے سے نہ صرف باہرنکالابلکہ ہمیں کسی گھرکے کے چبوترے پر بچھا بھی دیا … اورہم چبوترے پر پڑے پڑے سوچنے لگے:
’’جب نیتاوں کی سوچ ہی ’’سوچھ ‘‘نہ ہو تو پھر بھارت کس طرح ’’ سوچھ ‘‘ ہوگا؟‘‘
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

a3w
a3w