مذہب

قرآنی سدرۃ: ایک سائنسی جائزہ | سدرۃ المنتہیٰ؛ انسانی فہم و ادراک کی انتہا

مولانا عبدالماجد دریابادی نے تحریر فرمایا ہے کہ سدرۃ المنتہیٰ اس عالم اور اس عالم کے درمیان ایک نقطۂ اتصال ہے جہاں سے ملائکہ عالمِ بالا کے احکام زمین پر لاتے ہیں اور یہاں کے اعمال مسعود وہاں تک پہنچاتے ہیں۔

از ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی                                                  

سدر کا نام قرآن پاک میں چار مرتبہ لیا گیا ہے۔ ایک بار سورۃ سبا میں، دو مرتبہ سورۃ النجم میں اور ایک جگہ سور ۃ الواقعۃ میں- ان چاروں حوالوں میں سے صرف ایک حوالہ (سورۃ سبا) کا تعلق اس سر زمین سے ہے، دو کا حوالہ آسمانوں کی سرحد سے متعلق ہے، جبکہ ایک کا ذکر جنت کے نباتات کے بیان میں آیا ہے۔ تفصیل یوں ہے:

(1)۔ سورۃ سبا XXXIV آیت نمبر15 تا 16۔۔۔ ترجمہ:  سبا کے لئے ان کے اپنے مسکن ہی میں ایک نشانی موجود تھی، دو باغ دائیں اور بائیں، کھاؤ اپنے رب کا دیا ہوا رزق اور شکر بجا لاؤ اس کا، ملک ہے عمدہ و پاکیزہ اور پروردگار ہے بخشش فرمانے والا، مگر وہ منھ موڑ گئے۔ آخر ہم نے ان پر بند توڑ کر سیلاب بھیج دیا اور ان کے پچھلے دو باغوں کی جگہ دو اور باغ انہیں دئیے جن میں کڑوے کسیلے پھل (خمط) اور جھاؤ (اثل) کے درخت تھے اور کچھ تھوڑی سی بیریاں (سدر)۔

(2)۔ سورۃ النجم LIII  آیت نمبر 7تا18 ۔۔۔ ترجمہ: وہ سامنے کھڑا ہوا جب کہ وہ بالائی افق پر تھا پھر قریب آیا اور اوپر معلق ہوگیا، یہاں تک کہ دوکمانوں کے برابر آیا، اس سے کچھ کم فاصلہ رہ گیا، تب اس نے اللہ کے بندہ کو وحی پہنچائی جو وحی بھی اسے پہنچانی تھی، نظر نے جوکچھ دیکھا دل نے اس میں جھوٹ نہ ملایا، اب کیا تم اس چیز پر اس سے جھگڑتے ہو جسے وہ آنکھوں سے دیکھتا ہے اور ایک مرتبہ پھر اس نے سدرۃ المنتہیٰ کے پاس اس کو اترتے دیکھا جہاں پاس ہی جنت الماویٰ ہے، اس وقت سدرہ پر چھا رہا تھا جو کچھ کہ چھا رہا تھا، نہ چوندھیائی نہ حد سے متجاوز ہوئی اور اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔

(3)۔ سورۃ الواقعۃ LVI آیت نمبر 27تا 34۔۔۔ ترجمہ: اور دائیں بازو والے، دائیں بازو والوں کی (خوشی نصیبی) کا کیا کہنا وہ بے خار بیریوں (سدر) اور تہ بہ تہ چڑھے ہوئے کیلوں اور دور تک پھیلی ہوئی چھاؤں اور ہر دم رواں دواں پانی اور کبھی نہ ختم ہونے والے اور بے روک ٹوک ملنے والے بکثرت پھلوں اور اونچی نشست گاہوں میں ہوں گے۔

اردو اور انگریزی کے مفسرین قرآن نے سدر کو زیادہ تر عرب کی بیری کا درخت بتایا ہے۔ ابن کثیر تحریر فرماتے ہیں کہ اس در کے سدر (Lote Tree) کا درخت کانٹے دار ہے۔ آخرت میں اس کے برعکس ہے۔ اس میں کانٹے نہیں ہوتے ہیں۔۔

بخاری اور مسلم میں سدرۃ المنتہا (ساتویں آسمان کا درخت) کے بارے میں یوں بیان کیا گیا ہے: اس کے پتے ہاتھیوں کے کانوں کی طرح اور اس کے پھل حجر کی مٹی کے برتنوں کے مشابہ تھے۔ الخطابی نے کہا کہ "حجر کے گھڑے کی طرح” کا مطلب یہ ہے کہ وہ گھڑے کی طرح بڑے تھے۔ یہ وہ چیز ہے جو پہلے سننے والوں کو معلوم تھی، اسی لئے یہ تشبیہ استعمال کی گئی۔ حجر ایک جگہ کا نام ہے۔ عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی کا دعویٰ ہے کہ سدرۃ المنتہا ساتویں آسمان سے باہر ایک بہت بڑا درخت ہے۔

مولانا شبیر احمد عثمانی نے سورۃ النجم کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھاہے: ’’کہ سدرۃ المنتہیٰ کے بیری کے درخت کو دنیا کی بیریوں پر قیاس نہ کیا جائے، اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ کس طرح کی بیری ہوگی‘‘۔ وہ مزید فرماتے ہیں کہ: ’’جو اعمال وغیرہ اِدھر سے چڑھتے ہیں اور جو احکام وغیرہ ادھر سے اترتے ہیں سب کامنتہیٰ وہی ہے، مجموعۂ روایات سے یوں سمجھ میں آتا ہے کہ اس کی جڑ چھٹے آسمان میں اور پھیلاؤ ساتویں آسمان میں ہوگا۔ واللہ اعلم‘‘۔

مولانا عبدالماجد دریابادی نے تحریر فرمایا ہے کہ سدرۃ المنتہیٰ اس عالم اور اس عالم کے درمیان ایک نقطۂ اتصال ہے جہاں سے ملائکہ عالمِ بالا کے احکام زمین پر لاتے ہیں اور یہاں کے اعمال مسعود وہاں تک پہنچاتے ہیں۔

مولانا موصوف کے خیال میں آسمانوں کے اوپر درخت اور بیری کے درخت کو تسلیم کرنے میں کوئی دشواری نہ ہونی چاہئے کیونکہ دنیا کے نباتات سمیت نہ جانے کتنی چیزوں کا جنت میں ہونا مسلم ہے البتہ جنت اور آسمان کی ہر نعمت دنیا کی نعمتوں سے مشابہ تو ہوگی لیکن پھر بھی بہت کچھ مختلف ہوگی، سوۃ الواقعہ کی تفسیر بیان فرماتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں کہ بعض مفسرین کی رائے میں سدر سے مراد بیری نہیں ہے بلکہ ایک اورعمدہ درخت ہے۔

تفسیرحقانی میں سِدر کی بابت تحریر کیا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو بارِ دیگر سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا اور سدرہ جوجنت الماویٰ میں ہے وہ کوئی دنیا کا درخت نہیں ہے بلکہ صوفیائے کرام کے نزدیک سدر سے عبارت ہے روحِ اعظم سے کہ جس کے اوپر کوئی تعین اور مرتبہ نہیں ہے۔

مولاناحقانی کے نظریہ میں جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے ایک درخت پر تجلّی ہوئی تھی اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت الماویٰ میں اس درخت (سدر) کی صورت میں تجلی ہوئی جو تمام ارواح کی جڑ ہے۔

لغات القرآن میں سدرۃ المنتہیٰ کوانسانی فہم وادراک کی آخری سرحد پرایک درخت کہا گیا ہے ’’جہاں آنحضرت ﷺ کو فیوض ربانی اور نعمائے صمدانی سے مخصوص فرمایا گیا‘‘۔

جناب غلام احمد نے سدرۃ المنتہیٰ کو وہ مقام بتایا ہے جہاں تحیر اپنی انتہا تک پہونچ جائے اسی لئے اس کی تشریح یوں کی گئی ہے کہ ’’جب سدرہ پر چھارہا تھا جو کچھ چھار ہا تھا‘‘ یعنی نبی کریمؐ کے علاوہ کسی کے لئے ممکن نہیں کہ جان سکے کہ وہ کیا کیفیت تھی، گویا کہ نظر کے لئے تحیر کی فراوانی تھی، جس نے ساری فضا کو ڈھانپ رکھا تھا۔

مولانا مودودی (71) سورۃ النجم کی تفسیر بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ: ’’سدرۃ المنتہیٰ وہ مقام ہے جہاں حضرت جبرئیل علیہ السلام کی آنحضرتؐ سے دوسری ملاقات ہوئی، ہمارے لئے یہ جاننا مشکل ہے کہ اس عالمِ مادی کی آخری سرحد پر وہ بیری کا درخت کیسا ہے اور اس کی حقیقی نوعیت و کیفیت کیا ہے، بہر حال وہ کوئی ایسی ہی چیز ہے جس کے لئے انسانی زبان میں سدرہ سے زیادہ موزوں لفظ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اور کوئی نہ تھا‘‘۔

علامہ عبداللہ یوسف (1) نے سدرہ کے انگریزی معنی Lote-Tree کے دئیے ہیں اور لکھا ہے کہ نباتاتی اعتبار سے یہ Ziziphus کی جنس کا پودہ ہے اورعرب میں عام طور سے جنگلی وغیرجنگلی ملتا ہے۔ (نوٹ نمبر 3814، اور5092) جناب پکتھال نے سدرۃ المنتہیٰ کا ترجمہ یوں کیا ہے:  "Lote-tree of the utmost boundry”

یہاں یہ امر قابل توجہ ہے کہ مفسرین کی اکثریت نے سدرہ کوبیری ضرور بیان کیا ہے لیکن عام طور سے سورۃ النجم کا ترجمہ کرتے ہوئے سدرۃ المنتہیٰ کو سدرۃ المنتہیٰ ہی لکھا ہے، مثلاً جناب داؤد نے اپنے انگریزی ترجمہ میں سدرۃ المنتہیٰ کو Sidra-tree  لکھا ہے اور ’’سدرمخضود‘‘ کے معنی  Thornless Sidrahsکے دئیے ہیں۔

سدر کا تذکرہ متعدد احادیث میں بھی ملتاہے۔ ابوداؤد کے کتاب الادب کے تحت ’’باب فی قطع السدر‘‘ میں ایک حدیث بیان کی گئی ہے جس میں تحریر کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص سدر کا درخت کاٹے گا، اللہ اس کے سر کوجہنم میں اوندھا گرادے گا۔

ایک دوسری حدیث میں سدر کی لکڑی کے دروازے اور چوکھٹوں کو بنانا ایک ایسی بدعت کہا گیا ہے جس کولوگ عراق سے لائے تھے اور اس بدعت کے ضمن میں ہشام بن عروہ نے فرمایا کہ: ’’میں نے سنا کہ مکّہ میں کوئی کہتا تھا کہ لعنت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سدر کے درخت کاٹنے والوں پر‘‘۔

قرآنی آیات کی روشنی میں سدر کی حقیقت اور کیفیت سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ان ارشادات کے مقاصد اور مفہوم کو ذہن میں رکھا جائے، مثلاً یہ بات بہت واضح ہے کہ چاروں حوالے سدر کے درخت کے ہیں، اِن میں ایک بھی اشارہ سدر کے پھل (نبق) کی جانب نہیں ہے۔ مزید برآن کسی بھی آیت میں سدر کا ذکر دوسرے پھل دارپودوں کے ساتھ نہیں ہوا ہے یعنی کھجور، انگور، زیتون، انار اورانجیر کا تذکرہ تو ایک دوسرے کے ساتھ کیا گیا ہے لیکن ان میں سے کسی کا ذکر سدر کی ساتھ نہیں ملتا ہے گویا کہ سدر کے درخت کی اہمیت اور اس کی شان وشوکت کا بیان ہوا ہے لیکن اس کے ثمر کی خوبی یا نعمت کی بات نہیں کہی گئی ہے۔

مثلاً سورۃ النجم اور سورۃ الواقعہ میں سدرہ کا ذکر کرکے حسین، دلکش اور تحیر میں ڈالنے والے مناظر کا احساس دلایا گیا ہے جب کہ سورۃ سبا میں سدر کو ان تین اقسام کے مضبوط درختوں (اثل، خمط، سدر) میں سے ایک بتایا گیا ہے جو سیلاب کی زد میں آکر بھی اپنی جڑوں پر کھڑے رہے حالانکہ باقی سارے دو رویہ باغات تہس نہس ہوگئے۔

عرب میں بیری کی تین ذاتیں Species عام طور سے پائی جاتی ہیں۔ ایک تووہ بیری جو ہندوستان میں بھی پایا جاتا ہے اور جس کو نباتاتی اعتبار سے Zizphus mauritiana Hamilt نام دیا گیا ہے، اس کے پھل کوانگریزی میں jujubeبھی کہتے ہیں۔ دوسرا وہ بیری جو عرب کے ریگستانی علاقہ میں نسبتاً خوبصورت پودہ سمجھا جاتا ہے گویا کہ یہ ایک چھوٹا درخت ہی ہوتا ہے۔ اس کا نام Zizphus lotus lam ہے اور Lotus کی نسبت سے اسے Lote-tree کہا گیا ہے۔

تیسری قسم وہ ہے جس کو Z.spina-christi Willd  کہتے ہیں اور جس کی بابت روایت ہے کہ اس کے کانٹوں کا تاج حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سر پر رکھا گیا تھا۔ بیری کی یہ تینوں ذاتین خاردار ہوتی ہیں اورکھانے والے پھل کا ذریعہ ہیں گو کہ ان پھلوں کامقابلہ، خصوصیات اور مزہ کے اعتبار سے، ان پھلوں سے نہیں کیا جاسکتا جن کا ذکر قرآن کریم میں اللہ کی جانب سے دی گئی نعمتوں کے طور پر ہوا ہے یعنی کھجور، انار، انگور، زیتون اور انجیر۔

عرب میں پائی جانے والی بیری یعنی Ziziphus کی تینوں (Species) خار دار جھاڑیاں ہوتی ہیں جن کو چھوٹے درخت بھی کہاجاتا ہے۔ (Paxton 50) نے لکھا ہے کہ بیری کی جنس (Genus) کے نام Ziziphus کا منبع عربی زبان کا لفظ الزیزوفون ہے جس کے معنی جھاڑی دار درخت کے ہیں۔

بیری کے درخت کی لکڑی ایندھن کے کام توآتی ہے لیکن عمارت یا فرنیچر بنانے کے لئے موزوں نہیں سمجھی جاتی ہے۔ تینوں اقسام کی بیری کے پھل خوش ذائقہ تو ہوتے ہیں لیکن ان کا شمار بہترین پھلوں میں نہیں کیا جاتا ہے لہٰذا تجارتی طور پر بیری کے باغات خال خال ہی ملتے ہیں۔ ان درختوں کو کانٹوں کی بنا پر باڑھ کے طور پر تو لگایا جاسکتا ہے لیکن کسی علاقہ کو خوش منظر بنانے کے لئے اس کا لگایا جانا مناسب نہیں سمجھا جاتا ہے۔ یہ درخت اپنے تنوں یا جڑوں کی بنا پر بہت مضبوط درخت بھی نہیں سمجھے جاسکتے ہیں۔ ان کی شاخیں اور پتیاں سایہ دار بھی نہیں کہلائی جاسکتیں۔

اب اگر بیری کی ان ساری خصوصیات اور کیفیات کو مد نظر رکھا جائے تو اس بات کے امکانات بہت کم ہوجاتے ہیں کہ جس درخت کا حوالہ قرآن کریم میں سدرۃ المنتہیٰ اور جنت  کی منظر کشی کرتے ہوئے دیا گیا ہے نیز سورۃ سبا میں سیلاب سے بچ جانے والا کہا گیا ہے وہ بیر ہوسکتا ہے۔

یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ سدر کی بابت بہت واضح احادیث بھی موجود ہیں جن کے بموجب سدر کو ایک شان دار اور پر وقار درخت بتایا گیا ہے۔ اس کے کاٹنے کو منع کیا گیا ہے۔ مزید برآں اس کی لکڑی کو عمارت کے لئے استعمال کرنے کو بدعت بتایا گیا ہے۔

مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ سدرہ یقینا کوئی اہم اور نایاب درخت تھا اسی لئے قرآن اورحدیث دونوں میں اس کے تذکرے معنی خیز اور بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان حقائق کی روشنی میں ان مفسرین قرآن کی رائے اور نظریہ پر غور کرنا ہوگا جنہوں نے فرمایا ہے کہ سدرہ، بیری کے بجائے کوئی دوسرا شان دار اور عمدہ درخت ہوسکتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ سدر کا مفہوم اور مطلب اگر بیری نہیں ہے تو پھر وہ کون سا درخت ہے، راقم السطور کی رائے میں سدر کا اشارہ شام ولبنان کے اس درخت سے ہے جس کو عربی زبان میں ارز الربّ، ارزالبنان یا شجرۃ اللہ کہتے ہیں اور جو زمانۂ قدیم میں سدر کے ہم وزن ناموں سے روم اور یونان میں جانا جاتا تھا یعنی سدراس، سدرس، کدراس، وغیرہ۔

لبنان کا یہ درخت اپنے جاہ وجلال، قدوقامت اور خوبصورتی نیز خوشبودار لکڑی کی بنا پر عرب ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کا حسین ترین درخت سمجھا جاتا تھا۔ اس کا ذکر حضرت سلیمانؑ، حضرت موسیٰؑ، حضرت عیسیٰؑ اوردوسرے پیغمبروں نے اپنے ارشادات میں بڑے ادب کے ساتھ کیا ہے اور اس کی عظمت بیان فرمائی ہے۔

مقدس بائبل میں اس کا تذکرہ  Erez کے نام سے بارہا ہوا ہے۔ ایک آیت میں ارشاد ہوتا ہے  :

The   trees of the Lord, the Cedrus o f Lebnon Which He hath planted (Psalm 104:16)

سرولیم اسمتھ کی تحقیق کے مطابق بائبل کے Erez کا ترجمہ یورپ کی قدیم زبانوں میں سدر کے نام سے کیا گیا ہے جو غالباً کسی سامی زبان کے لفظ سے اختراع کیا گیا تھا۔ یورپ کی ان قدیم زبانوں (یونانی اور رومی) کا اثر اسلام سے قبل لبنان، شام اور فلسطین کے زیادہ تر علاقوں میں پایا جاتا تھا، اسی لئے وہاں کی ایک پرانی آبادی ’’جہاں سِدر کے درخت بہت پائے جاتے تھے‘‘ کا نام سِدران پڑ گیا۔

سدر (انگریزی: Cedar) کانباتاتی نام Cedrus libani ہے۔ یہ عام طور سے ایک سو پچاس فٹ تک بلند ہوتا ہے۔ اس کے تنے کا قطر آٹھ فٹ ہوتا ہے چنانچہ اس کی گولائی چالیس فٹ تک ہوتی ہے، اس کی گہری سبز پتیوں کی شاخیں نیچے سے اوپر تک ایک ہی انداز سے لٹکی ہوئی Pyramid کی شکل پیش کرتی ہیں اور دھوپ میں ایک خاص چمک پیدا کرتی ہیں۔

مولڈنکے نے لکھا ہے کہ اس درخت یا اس کے جنگلات کے قریب کھڑے ہوکر انسان محوِ حیرت ہوجاتا ہے اور اس کے جاہ وجلال کا رعب بھلا پانا دشوار ہوجاتا ہے۔

حضرت داؤدؑ اور حضرت سلیمانؑ نے اپنی عبادت گاہیں اور محلات اسی درخت کی لکڑی سے بنوائے تھے۔ ایک روایت ہے کہ ان عظیم الشان درختوں (سدر) کی لکڑی کاٹ کر حضرت سلیمانؑ کے دارالسلطنت تک پہونچانے کے لئے ایک لاکھ تراسی ہزار تین سو مزدوروں کو متعین کیا گیا تھا۔

سدر کی لکڑی میں اتنی خوشبو اور چمک ہوتی ہے کہ اس سے بنی عبادت گاہیں نہایت معطر اور صاف وستھری رہتی تھیں اور تقریباً چارسو سال تک ان پر موسم کا کوئی اثر نہ ہوتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ فرعونی دور میں لبنان اور شام کے سدر (عربی: ارز، عبرانی: Erez) کے جنگلات سے اتنی زیادہ لکڑی کاٹ کر مصر لے جائی گئی کہ حضرت عیسیٰؑ کے دور سے قبل ہی اس کی کمیابی محسوس کی جانے لگی، لہٰذا سدر کے درختوں کو کاٹنا ایک نامناسب عمل تصور کیا جانے لگا۔

شام ولبنان کے سدر Cedar کی کل چار ذاتیں دنیا کے مختلف خطوں میں پائی جاتی ہیں جس میں ایک ہندوستان کا دیودار ہے جو ہمالیہ کا ایک خوبصورت اور اہم درخت ہے۔ اس کا نباتاتی نام Cedrus deodara ہے۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ Cedrus deodara  کو ہندوستان میں دیوتا کا شجر یعنی دیودارو کہا گیا ہے جب کہ عرب کے ارز یعنی سدر کو شجرۃ اللہ کہا جاتا تھا۔ کچھ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ہندوستان کا دیودار عرب کے Cedrus Libani سے ہی پیدا(evolve)  ہوا ہے گویا کہ دیودار کا اصل وطن شام ولبنان ہوسکتا ہے۔

جیسا کہ اس سے پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ اسلام سے قبل یونان اور روم کے تہذیبی اثرات شام و فلسطین میں اس قدرعام ہوچکے تھے کہ الارز (عبرانی: Erez) کا ان علاقوں میں سدر یا سدرس کے نام سے موسوم ہوجانا تعجب کا امر نہ تھا۔ لیکن جب سدر کے جنگلات لبنان وشام میں تیزی کے ساتھ کاٹے جانے لگے اور اس کی لکڑی کمیاب ہوگئی تو کچھ دوسرے اقسام کے درختوں کو بھی سدر کا نام دیا جانے لگا۔

خاص طور سے Juniperus نامی جنس کا ایک درخت جو عربی میں العرعر کہلاتا تھا، اس کو بھی سدر کہا جانے لگا، یہ درخت حجاز اور یمن کے پہاڑی علاقوں میں بہت ملتا تھا، پھر ایک وقت وہ آیا جب عرعر کا بھی صفایا ہونے لگا تو بیری کی ایک ذات (Species) کو جو عرب میں کافی عام تھی، سدر کا نام دے دیا گیا، موجودہ نباتاتی سائنس کے اعتبار سے یہ قسم یا تو Z.lotus تھی یا پھر  Z. spina-christi۔

مشہور پودوں کے ناموں کا دوسرے درختوں سے منسوب ہوجانا نباتاتی دنیا میں ایک عام بات ہے۔ مثلاً Teak کے پودے کئی اقسام کے بتائے جاتے ہیں۔ کوئی ہندوستانی Teak ہے توکوئی برمیTeak۔ اسی طرح Kino نہ جانے کتنے اقسام اور جنس کے درختوں کو کہا جانے لگا۔ Copal tree بھی مختلف درختوں کے نام بتائے جاتے ہیں۔

بہر حال اس امر کے مان لینے میں کوئی پس وپیش نہ ہونا چاہئے کہ الارز کو قدیم زمانہ میں ہی سدر کے ہم وزن نام دئیے گئے جو یونان اور یورپ کی زبانوں میں آج بھی مستعمل ہیں لیکن عربی زبان میں کچھ دوسری اقسام کے درختوں کو بھی سدر کہا جانے لگا جس میں ایک بیری تھا۔ اس طرح یہ بات کسی حد تک یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ قرآن پاک میں جس سدر کا ذکر آیا ہے اس کا اشارہ الارز یعنی Cedrus libani سے ہے نہ کہ بیری سے۔

سدر بنام Cedar کی دو تصاویر پیش نظر مضمون کے ساتھ دی جارہی ہیں، ان تصاویر سے سدر کی شان وشوکت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، اسٹائن گاز کی مشہور فارسی لغت میں سدر کی بلندی کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک لفظ ’’سدرقامت‘‘ دیا گیا ہے جس کے معنی دراز قد کے بتائے گئے ہیں۔ سدر کا درخت جنگل کا بادشاہ کہلاتا تھا۔

پلانیؔ (79ء) نے اپنی کتاب میں اس درخت کا ذکر سدرس کے نام سے کرتے ہوئے لکھا ہے کہ Ephesus کی مشہور عبادت گاہ Temple  of Diana کو بنانے میں سدر (سدرس) کی لکڑی استعمال ہوئی تھی۔ یہ عبادت گاہ چار سو سال تک اپنی اصل آب وتاب کے ساتھ باقی رہی۔

غرضیکہ حضرت عیسیٰؑ سے کچھ قبل کے دور سے لے کر اسلام کے ظہور میں آنے تک کے دور میں جتنے حوالے یونانی یا رومی ادب میں الارز کے درخت کے ملتے ہیں وہ سب کے سب سدر کے ہم وزن ناموں سے ہیں، چنانچہ یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ قرآنی لفظ سدر یا سدرہ غیر عربی لفظ ہے اور اس امر کو حافظ سیوطی اور متعدد علماء نے تسلیم کیا ہے کہ غیر عربی زبان کے الفاظ قرآن مجید میں موجود ہیں جو اپنی پہلی صورت بدل کر عربی زبان کے لفظ بن گئے۔

اب اگر سدر کو ارزالبنان تسلیم کر لیا جائے تو قرآنی ارشادات بسلسلۂ سدرہ کا مفہوم اور مطلب بہت واضح ہوجاتا ہے۔ چھٹے اور ساتویں آسمان پر سدرۃ المنتہیٰ سے مراد آخری حد پر ایسے درخت کی ہوجاتی ہے جو عرب کے علاقے کا سب سے بلند، عالی شان جاہ وجلال والا مضبوط، خوشنما، خوشبودار اورحیرت میں ڈالنے والا درخت تھا اور جو آنحضرتؐ سے قبل مبعوث پیغمبروں کے ارشادات کا بھی ایک موضوع تھا۔

اسی درخت کو قرآن کریم میں جنت کی منظر کشی کرتے ہوئے سورۃالواقعۃ (آیت نمبر28) میں بیان فرمایا جاتا ہے اور سدر مخضودٍ (بغیر کانٹے والا سدر) اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے بعد کی آیت میں جس درخت کا ذکر ہوتا ہے وہ طلح ہے جو ببول کی قسم کا خوبصورت درخت ہے لیکن خاردار ہوتا ہے۔ (ملاحظہ ہو ببول)

سورۃ سبا (آیت نمبر16) میں سدر بہ معنی الارز کا مفہوم بھی بالکل صاف ہوجاتا ہے، یمن کا شہر مآرب جہاں کے سیلاب ارم کا ذکر ہوا ہے وہ سطح سمندر سے تقریباً چار ہزار فٹ کی بلندی پر ہے اور سرد علاقہ مانا جاتا ہے۔ الارز بھی سرد اور پہاڑی علاقوں کی پیداوار ہے، جب کہ بیری گرم اور ریگستانی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔

عین ممکن ہے کہ یمن کے انتہائی ترقی یافتہ اور متمول مملکت میں سدر کے کچھ درخت شام ولبنان سے لاکر باغات کو حسن بخشنے کے لئے لگائے گئے ہوں اورجوخمط (پیلو) اوراثل (جھاؤ) کے ساتھ سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچ گئے ہوں (ملاحظہ ہو باب جھاؤ اور باب شجر مسواک)۔ نباتاتی سائنس کے اعتبار سے یہ ایک حقیقت ہے کہ اثل اور پرانے خمط اپنی جڑوں اور تنوں کے اعتبار سے مضبوط پودے ہیں اور سدر (الارز) کی مضبوطی تو ضرب المثل ہے ہی۔

عرب کی مختلف نباتاتی کتابوں کے مطالعہ سے یہ بات علم میں آتی ہے کہ بیری کی تینوں ذاتوں species کو سدر اور شجرۃ النبق کے علاوہ ارز بھی کہتے ہیں۔ اسی طرح Juniperus کے درختوں کوعرعر کے سوا ارز اور سدر کا نام بھی دیا گیا ہے۔ بعض Tamarix کے پودوں کو بھی سدر کہا گیا ہے۔

گویا کہ سدر کا نام یوں تو بہت سے اقسام کے درختوں سے منسوب کیا گیا، لیکن اصل سدر Cedrus libani ہی تھا جو یونان و روم وغیرہ کی زبانوں میں سدرہ، سدرس یا سدرو جیسے ناموں سے آج تک موسوم ہے۔ غرضیکہ امکانات اسی بات کے ہیں کہ قرآنی سدر وہی ہے جو یونانی یا رومی سدرس ہے یعنی الارز۔

یہاں اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حجاز اور نجد کے علاقوں میں اسلام سے قبل ہی عرعر اور بیری کے درختوں کوسدر کہا جانے لگا ہوگا کیونکہ اس وقت تک اصل سدر یعنی الارز بہت کمیاب ہوگیا تھا۔

سدر کا الارز (ارزالربّ، شجرۃ اللہ، ارزالبنان) ہونا احادیث سے بھی ثابت ہے، جن کا حوالہ دیا جاچکا ہے، مثلا ابوداؤد کی حدیث میں جس سدر کو کاٹنے سے منع فرمایا گیا اور کاٹنے والے کو جہنم سے ڈرایا گیا ہے وہ یقینا بیری نہیں ہو سکتا۔ وہ سدر بہ معنی الارز ہی تھا اور اگر رسول کریمؐ اتنی سختی سے ارز کو کاٹنے سے منع نہ فرماتے تو یقینا عرب سے یہ حسین درخت ختم ہوجاتا اور آج اس سرزمین پر اس درخت کا وجود ہی نہ ہوتا۔

بخاری شریف کی ایک حدیث میں سدرۃ المنتہیٰ کے ضمن میں فرمایا گیا ہے کہ آسمان پر جو سدر آنحضرت نے دیکھا تھا وہ ایک نہایت بلند وبالا درخت تھا جس کے پتے یا شاخیں ہاتھی کے کانوں کے مانند تھیں اور پھل (نبق) حجر کے پانی کے مٹکوں کی طرح۔ حجرقومِ ثمود کی مملکت کا دارالسلطنت تھا جہاں کے پتھروں اور پکی ہوئی مٹی کی مصنوعات بہت مشہور تھیں۔

جس شخص نے بھی سدر کا درخت (Cedrus  libani) اور اس کا پھل، جس کو نباتاتی اصطلاح میں Cone کہتے ہیں، دیکھا ہو یا اس کی تصاویر نظر سے گزری ہوں، وہ مذکورہ حدیث میں دی گئی تشبیہ کی خوبی سے انکار نہیں کرسکتا کیونکہ سدر کی پتیوں سے گھنی اور لمبی شاخیں نیچے کی جانب لٹکتی ہوئی واقعی ہاتھی کے کان کا تصور پیش کرتی ہیں اور اس کے پھل (Cone) کی وضع قطع ہوبہو پانی کے مٹکوں کی سی ہوتی ہے۔ زیر نظر مضمون کے ساتھ دی گئی سدر کی تصاویر اس بیان کی صداقت کا ثبوت ہیں۔

واضح رہے کہ سدر سے متعلق احادیث کی روشنی میں بیری کا کوئی تصور ذہن میں نہیں لایا جاسکتا ہے۔ بیری کے کاٹنے کی ممانعت کا بھی سوال نہیں پیدا ہوتا ہے۔ بیری کی لکڑی چوکھٹ اور دروازہ بنانے کے کام میں عام طور سے نہیں لائی جاتی ہے اور نہ بیری کا درخت بلند کہلایا جاسکتا ہے جبکہ یہ ساری باتیں الارز پر ہی صادق آتی ہیں۔

یہاں شاید ان احادیث کا بھی ذکر ضروری ہے جن کا تعلق صحیح بخاری، جامع ترمذی اور صحیح مسلم کے باب الجنائز اور باب الطہارت سے ہے۔ ان میں جنازہ کو غسل دینے کے لئے گرم پانی میں سدر کی پتیاں ملانے کی بات کہی گئی ہے۔

سدر کی تاریخی اور سائنسی جائزہ کی روشنی میں یہ امر بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں الارز کے علاوہ عرعر اور بیری کو بھی سدر کے نام سے جانا جاتا تھا اوران تینوں اقسام کے درختوں کی پتیوں کو گرم پانی میں ملانے کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ الارز اور عرعر کی پتیوں میں ایک خاص قسم کا تیل  (Resin)ہوتا ہے جو Cedar Oil بھی کہلاتا ہے۔ اس کی اہمیت خوشبو کے اعتبار سے بھی ہے اور desinfectant خصوصیات کے ناطے سے بھی ہے۔

بیری کی پتیوں میں خوشبو تو نہیں ہوتی ہے لیکن اس کی پتیاں بالعموم اور Z. spina-christi کی پتیاں بالخصوص طبی اہمیت رکھتی ہیں اور جلد کو صاف کرنے میں مددگار ہوتی ہیں۔ لہٰذا مندرجہ بالا باب الجنائز اور باب الطہارت کی احادیث میں سدر کا اشارہ ان تینوں میں سے کسی کی بھی جانب موزوں ہے۔

مندرجہ بالا دی گئی نباتاتی تاریخ، پودوں کی کیمیاوی خصوصیات، قرآنی ارشادات کا پیغام اور احادیث کی روشنی میں راقم سطور یہ نظر یہ پیش کرنے کی جرأت کرتا ہے کہ سدرۃ المنتہیٰ کاسدر، جنت الماویٰ کاسدر (سورۃ النجم)، دائیں بازو والوں کی جنت کا سدر (سورۃ الواقعۃ) اور مآرب کے زبردست سیلاب سے بچ جانے والا سدر (سورۃ سبا) وہ درخت تھا جو دنیا کا حسین ترین درخت ہے، جس کو آج کل عربی میں الارز کہتے ہیں۔

سدرہ (سدرۃ المنتہیٰ) کی لبنان کے عظیم دیودار کے طور پر شناخت میری عاجزانہ تحقیقات پر مبنی ہے جس کی تائید مولانا سید ابوالحسن علی ندوی (بانی رکن، تنظیم تعاون اسلامی (او آئی سی)  اور ریکٹر، دارالعلوم ندوۃ العلماء) اور بین الاقوامی سطح کے علما نے کی ہے۔

مولانا موصوف رقمطراز ہیں (تعارف: نباتات قرآن) کہ "بعض پودوں کے تشخص میں انہوں (ڈاکٹر فاروقی) نے کچھ نئی باتیں بتائی ہیں جن سے بعض گرہیں کھلتی ہیں اور بعض الجھنیں دور ہوتی ہیں۔ خاص طور پر سدرؔ اور کافور کی وضاحت اور تشخص میں انہوں نے نئی اور مفید باتیں لکھی ہیں۔

مولانا محمد رابع حسنی ندوی مرحوم، سابق صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ بھی خیال ظاہر کرتے ہیں کہ ـــ۔۔ ڈاکٹر فاروقی  نے ایسی تحقیقات پیش کی ہیں جن سے قرآن مجید کی تفسیر کرنے والوں کی متعدد الجھنیں یکسر دور ہوجاتی ہیں اور قرآن مجید نے جو بعض گہرے حقائق بتائے ہیں ان سے دھندلکے کا پردہ اٹھ جاتا ہے۔ سدرہ، کافور اور زقوم کی تحقیق اس سلسلے میں خاص طور سے بطور مثال پیش کی جاتی ہیں۔

ارشادات رسولؐ بسسلۂ سدرہ:

1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب مجھے سدرۃ المنتہیٰ تک لے جایا گیا تو وہاں پر چار نہریں تھیں۔ دو ظاہری اور دو باطنی‘‘۔ (بخاری)

2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص ’’سدر‘‘ کا درخت کاٹے گا اللہ اس کو سر کے بل اوندھا گرادے گا‘‘۔ (راوی، عبداللہ بن حبشی، کتاب الادب،ابوداؤد)

3۔ میں نے ہشام بن عروہ سے ’’سدر‘‘ کے کاٹنے کی بابت دریافت کیا جو عروہ کے مکان میں ٹیک لگائے تھے، انہوں نے کہا تم ان دروازوں کو دیکھتے ہو۔ یہ دروازے ’’سدر‘‘ کے بنے ہوئے ہیں جن کو عروہ کی زمین (آراضی) سے کاٹا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مزید اضافہ کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا اے عراقی تم یہ بدعت لائے ہو، میں نے مکہ میں کسی کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی ’’سدر‘‘ کاٹنے والوں پر ۔ (راوی حسان بن ابراہیم، کتاب الادب، ابوداؤد)

سدرہ: ایک بہت بڑا درخت جو آسمان میں ساتویں سطح کے نیچے کھڑا ہے۔ (انسائیکلوپیڈیا میتھیکا)۔

سدرۃ المنتہیٰ: آخری منزل کا درخت (جنت) میں ایک الہیٰ درخت ہے جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سفر کے دوران دیکھا تھا۔ سدرۃ المنتہا عرب کی بیری کا درخت نہیں ہے جیسا کہ عام طور پر مانا جاتا ہے۔ (لیلۃ الاسراء و المعراج    (Night Journey and Ascension)

Dr. Mohd Iqtedar Hussain Farooqi

Mobile: 9839901066; Email: mihfarooqi@gmail.com

a3w
a3w