سوشیل میڈیاشمال مشرق

آسام میں 201 بنگالی مسلم خاندان بے گھر

آسام میں ایک ماہ میں یہ تیسری بڑی مہم ہے۔ بعض متاثرین نے دعویٰ کیا کہ جنگل میں تقریباً 500 ہندو کنبے آباد ہیں۔ حکومت کو اگر انکروچمنٹ کی واقعی فکر ہے تو انہیں بھی وہاں سے نکال باہر کرنا چاہئے۔

نارتھ لکھم پور (آسام): آسام کے ضلع لکھم پور میں تقریباً 70 بلڈوزرس اور ایکسکیویٹرس نے منگل کے دن محکمہ جنگلات کی 200 ہیکٹر اراضی مسطح کردی۔ 201 کنبے متاثر ہوئے جن میں زیادہ تر بنگالی بولنے والے مسلمان ہیں۔ عہدیداروں نے بتایا کہ 43  ایکسکیویٹرس اور 25 ٹریکٹرس منگوائے گئے۔

متعلقہ خبریں
مسلمانوں کی جان، املاک، عبادت گاہوں اور تجارت پر جان لیوا خطرات منڈلارہے ہیں۔ مفکرین کی رائے
مسلمانوں کو اب سوچ سمجھ کر موقع دے گی بی ایس پی:مایاوتی
سنسربورڈ ’ہم دو ہمارے بارہ‘ فلم کی ریلیز پر روک لگائے : امیر حلقہ جماعت اسلامی ہند
15 فیصد مسلم ریزرویشن سے متعلق کانگریس پر جھوٹا الزام : پی چدمبرم
کینڈا میں مسلمانوں کیلئے حلال رہن کیلئے قانون سازی

موضع مغلی میں 200 سیول عہدیداروں کے علاوہ پولیس اور سی آرپی ایف کے 600جوان تعینات کئے گئے۔ پاوا ریزرو فارسٹ کی 2,560.25 ہیکٹرس اراضی میں صرف 29 ہیکٹر اراضی ہی فی الحال انکروچمنٹ سے پاک ہے۔ لگ بھگ سبھی لوگوں نے پہلے ہی اپنے مکان خالی کردیئے تھے۔

شمس الحق (نام تبدیل) نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ اِس بار سرسوں اور موسمی سبزیوں کی اچھی فصل آئی تھی۔ حکومت نے ہمیں اپنی فصل تک کاٹنے نہیں دیا۔ ایسا لگتا ہے کہ اس نے ہمیں جان بوجھ کر معاشی محاذ پر نشانہ بنایا۔ بیشتر متاثرین میں بنگالی بولنے والے مسلمان ہیں۔

کسان نے دعویٰ کیا کہ اراضی پر کاشتکاری کی اجازت دینے کے لئے مقامی سرکل دفتر ٹیکس وصول کرتا تھا۔ نظم و نسق نے بڑی بے رحمی سے ان تالابوں کو مٹی سے بھردیا جن میں ہم مچھلیاں پالتے تھے۔ ہمیں مچھلیاں نکالنے نہیں دیا گیا جو اَب منومٹی تلے دفن ہوچکی ہیں۔

ایک 55 سالہ خاتون نے دعویٰ کیا کہ ہم اس علاقہ میں تقریباً 25 سال قبل آباد ہوئے تھے۔ ہم پہلے جہاں رہتے تھے وہاں زمین دھنس رہی تھی۔ پچھلی حکومتوں نے ہمیں یہاں رہنے دیا۔ اب ہمیں یہاں سے جانے کو کہا جارہا ہے۔

امینہ بیگم(نام تبدیل) نے دکھ سے کہا کہ راتوں رات ہم کہاں جائیں۔ دیگر لوگوں کا بھی دعویٰ ہے کہ انہیں قبل ازیں اراضی کی ملکیت کے کاغذات دیئے گئے تھے لیکن موجودہ بی جے پی حکومت نے انہیں مسترد کردیا ہے۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس علاقہ میں انکروچمنٹ ہوئی ہے لیکن پردھان منتری گرامین آواس یوجنا‘ منریگا‘ آنگن واڑی مراکز‘ پانی کی سپلائی اور دیہی علاقوں میں برقی کی اسکیموں پر یہاں سالوں سے عمل ہوتا رہا۔ پیر کے دن بعض کنبوں نے ٹرکوں میں اپنا سامان لادا جبکہ دیگر اپنی سیکلوں پر سامان لے جاتے دکھائی دیئے۔

بچے سروں پر سامان اٹھائے اپنے ماں باپ کے ساتھ جارہے تھے۔ محکمہ جنگلات کی 450 ہیکٹر زمین کو انکروچمنٹ سے پاک کرنے کی مہم شروع کی گئی۔ آج 200 ہیکٹر زمین کنٹرول میں لے لی گئی جبکہ مابقی 250  ہیکٹر زمین کل صاف کی جائے گی جہاں 299 کنبے رہتے ہیں۔

ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ پولیس لکھم پور رونا نیوگ نے بتایا کہ صبح 7.30 بجے مہم شروع کی گئی اور کسی نے بھی اس کی مزاحمت نہیں کی۔ گزشتہ چند دن سے یہاں سیکوریٹی فورسس ”ایریا ڈامینیشن“ میں لگی تھیں۔ ”غیرقانونی سیٹلرس“ سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے مکان خالی کردیں۔

 آسام میں ایک ماہ میں یہ تیسری بڑی مہم ہے۔ بعض متاثرین نے دعویٰ کیا کہ جنگل میں تقریباً 500 ہندو کنبے آباد ہیں۔ حکومت کو اگر انکروچمنٹ کی واقعی فکر ہے تو انہیں بھی وہاں سے نکال باہر کرنا چاہئے۔

ایک سینئر عہدیدار کے بموجب یہ ہندو کنبے درج فہرست ذاتوں اور قبائل (ایس سی‘ ایس ٹی) سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ ضلع لکھم پور کے دیگر مقامات پر سیلاب اور زمینی کٹاؤ کی وجہ سے بے گھر ہونے کے بعد یہاں آئے تھے۔ مقامی ڈی ایف او نے 2016 میں سروے کیا تھا تاکہ غیرقانونی سیٹلرس کا پتہ چلایا جائے۔

 اُس وقت یہ کنبے گوہاٹی ہائی کورٹ سے رجوع ہوئے تھے جس نے متبادل انتظام ہونے تک انہیں وہاں سے نہ ہٹانے کا حکم دیا تھا۔ لکھم پور کے ڈیویژنل فارسٹ آفیسر اشوک کمار دیوچودھری نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ 30 برس سے جملہ 701کنبوں نے پاوا ریزرو فارسٹ کی اراضی انکروچ کرلی تھی۔

متاثرہ دیہاتیوں کا الزام ہے کہ پاوا ریزرو فارسٹ کی ڈی مارکیشن کے لئے جو پلر لگائے گئے تھے انہیں 2017 سے کئی مرتبہ تبدیل کیا گیا۔ انہیں بے دخل کرنے کے لئے من مانی مارکنگ کی گئی۔

 لکھم پور کے ڈپٹی کمشنر سمیت ستوان نے کہا کہ انکروچڈ علاقوں میں رہنے والوں کو 2 سال قبل محکمہ جنگلات اور مقامی انتظامیہ نے بتادیا تھا کہ انہیں علاقہ خالی کرنا ہوگا۔

a3w
a3w