مسلمان کی کمائی کم دوسرے کی زیادہ کیوں؟
شہر حیدرآباد میں کیا مسلمانوں کے ساتھ تعصب برتا جاتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ مالن بی کو بہت کم پیسے ملتے ہیں اور شنکر دس گنا زیادہ کمالیتا ہے۔ قارئین مزید کوئی تجسس پیدا کیے بغیر میں یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ مالن بی جو کام کرتی ہیں وہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے کا ہے عرف عام میں جس کو بھیک مانگنا کہتے ہیں اور جسمانی طور پر معذور شخص شنکر کاروبار کرتا ہے۔
محمد مصطفی علی سروری
نومبر کا مہینہ شہریان حیدرآباد کے لیے سردیوں کے آغاز کا مہینہ ہے۔ نماز فجر 6 بجے صبح ہوتی ہے تو نماز عشاء ساڑھے سات بجے ہوجاتی ہے۔ دن چھوٹا اور رات بڑی لگتی ہے اور شہر کا اقل ترین درجہ حرارت بھی صبح صبح یعنی نماز فجر کے آس پاس ہی ریکارڈ کیا جاتا ہے اور پھر سات بجے تک سورج طلوع ہونے کے بعد سردی کی شدت آہستہ آہستہ کم ہونے لگتی ہے۔
نومبر کی ایسی ہی ایک سرد صبح بلکہ صبح سے پہلے کا وقت ہے۔ مالن بی (نام تبدیل) سردی کے باوجود ماشاء اللہ سے برقعہ زیب تن کیے آہستہ آہستہ مضبوطی کے قدم جماتے ہوئے شہر حیدرآباد کے مرکزی علاقہ میں واقع ایک تاریخی پارک میں داخل ہوتی ہے۔ چہرے پر پڑی جھریاں مالن بی کی عمر کا پتہ دیتی ہیں مگر ماشاء اللہ سے صحت ایسی ہے کہ بغیر کسی سہارے کے سردیوں کے اس موسم میں بھی بغیر عینک کے اپنی روزمرہ کے کام پر رجوع ہوجاتی ہیں۔
بالکل اسی وقت شنکر (نام تبدیل) جو ضعیف بھی ہے اور ایک پائوں میں معذوری کے سبب صحیح سے چل بھی نہیں سکتا شہر حیدرآباد کے اسی پارک میں داخل ہوتا ہے۔ مالن بی جب پارک کو آتی ہیں ان کے بغل میں ایک تھیلی ہوتی ہے جو پیدل چلتے ہوئے بھی مضبوطی سے تھامی رہتی ہیں اس کے برخلاف شنکر جب پارک میں آتا ہے تو اس کے پاس تھیلی نہیں بلکہ تھیلے ہوتے ہیں۔
مالن بی اور شنکر دونوں ہی شہر حیدرآباد کے ایک مشہور پارک میں ہر روز تقریباً چار گھنٹے کام کرتے ہیں۔ مالن بی اور شنکر کام تو ایک ہی جگہ کرتے ہیں لیکن مالن بی کو کام کے بمشکل دو سو روپئے مل جاتے ہیں اور اتنی دیر میں کام کر کے شنکر دو ہزار بھی کمالیتا ہے۔
شہر حیدرآباد میں کیا مسلمانوں کے ساتھ تعصب برتا جاتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ مالن بی کو بہت کم پیسے ملتے ہیں اور شنکر دس گنا زیادہ کمالیتا ہے۔ قارئین مزید کوئی تجسس پیدا کیے بغیر میں یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ مالن بی جو کام کرتی ہیں وہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے کا ہے عرف عام میں جس کو بھیک مانگنا کہتے ہیں اور جسمانی طور پر معذور شخص شنکر کاروبار کرتا ہے۔
جی ہاں اس سارے معاملے میں نام فرضی استعمال کیے گئے ہیں جبکہ دونوں کردار شہر حیدرآباد کے ایک پارک میں صبح کے وقت چہل قدمی کرنے والوں کے لیے بالکل بھی اجنبی نہیں ہیں۔ سردیوں کے اس موسم میں بھی مالن بی بلاناغہ پارک میں صبح صبح پہنچ جاتی ہیں اور تقریباً چار سے پانچ گھنٹے لوگوں کو مسلسل سلام کرتی رہتی ہیں۔ ماشاء اللہ سے اتنی صحت مند کہ بڑی عمر کے باوجود پارک کے ایک خاص کونے میں بیٹھنے کے لیے گیٹ سے ایک کیلو میٹر پیدل چل کر اپنی جگہ کو جاتی ہیں۔
دوسری طرف شنکر پائوں سے لنگڑا ہے لیکن وہ بھی صبح چار بجے بیدار ہوکر ترکاری مارکٹ سے ترکاری خرید کر لاتا ہے اور مارننگ واکرس کو صبح صبح ترکاری فروخت کر کے 2 ہزار تک منافع کمالیتا ہے۔شنکر کو جاننے والے بتلاتے ہیں کہ پہلے تو وہ کرایہ کے آٹو سے ترکاری لاتا تھا اور اب کاروبار کر کے اس نے اتنا منافع کمالیا ہے کہ اس کی اپنی ماروتی ویان ہے جو وہ روزانہ ترکاری اور فروٹ خرید کر لانے اور پارک میں صبح کے وقت واکرس کو بیچنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
جو قارئین یہ سمجھتے ہیں کہ مالن بی کے ساتھ شنکر کاتقابل کر نا درست نہیں ہے تو ان کو بتلاتا چلوں کہ اس طرح کی مثال دینے کا مقصد مانگنے کے بجائے محنت کی ترغیب دلانا ہے اور یقینا جس قدر وقت اور محنت مالن بی کر رہی ہیں انہیںبھی دوسو نہیں بلکہ دو ہزار روپیوں کی آمدنی ہونی چاہیے جبکہ اگر بھیک مانگنے کے لیے بھی اتنی ہی محنت اور وقت لگ رہا ہے۔ اور کاروبار کے لیے بھی تھوڑی زیادہ محنت کی ضرورت ہے تو کاروبار کی ترغیب دلانا اہم ہے۔
شہر حیدرآباد کے اس پارک میں سینکڑوں لوگ ایسے ہیں جو ہر صبح جنگلی کبوتروں کو دانہ ڈالتے ہیں اور ایک ضعیف خاتون ہر صبح دس دس روپئے کے چھوٹے چھوٹے پاکٹ اور اس سے زائد قیمت کے بڑی پاکٹ میں دانہ ڈال کر لوگوں کو فروخت کرتی ہیں اور وہی چار گھنٹے کے دوران کئی سو روپئے کماکر خوشی خوشی گھر کی راہ لیتی ہیں۔جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ کاروبار کے لیے جگہ چاہیے وہ شہر کے پارک کی اس ضعیف خاتون سے سیکھ سکتے ہیں نہ جگہ اپنی نہ کبوتر اپنے، ایک چھوٹی سی دری بچھائی جہاں کبوتروں کا غول ہوتا ہے اور پھر لوگ وہیں سے دانہ خریدتے اور کبوتروں کو کھلاکر خوش ہوجاتے۔
کیا کسی بھیک مانگنے والے مسلمان کو محنت کرنے اور کاروبار کرنے کی ترغیب دلانا غلط بات ہے۔
چھوٹو کی عمر 17 سال ہے۔ وہ ایک سرکاری اسکول کا طالب علم ہے۔ کولکتہ سے تقریباً 135 کیلو میٹر واقع کھڑگ پور کا رہنے والا چھوٹو اسکول کو بھی جاتا ہے اور پھر جب بھی موقع ملے اپنے والد کے کاروبار میں بھی ہاتھ بٹاتا ہے۔ قارئین چھوٹے کے والد کنائی کرمکر کس طرح کا کاروبار کرتے تھے وہ بھی جان لیجئے۔ ویسے چھوٹے جیسے نام سے ہی پتہ چل جاتاہے کہ اکثر غریب گھرانوں میں ہی بچوں کے ایسے نام رکھے جاتے ہیں۔ خیر چھوٹو کے والد سائیکل پر گھوم کر چھوٹی موٹی اشیاء بیچا کرتے تھے اور جب کسی دن خود چھوٹو سائیکل پر گھوم کر اپنے والد کی جگہ کاروبار کرتا ہے۔ تب چھوٹو کے والد اس سے کہتے تھے بیٹا تو پڑھ لے۔ یہ کاروبار تجھ سے نہیں ہوگا۔ اپنے والد کی تکلیف کا چھوٹو کو بڑا احساس تھا۔ وہ چاہتا تھا وہ پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنے اور اپنے والد کو آرام دے۔
چھوٹو نے پہلے تو دسویں کا امتحان پاس کیا۔ پھر گائوں کے قریبی علاقے میں واقع بانکورا کالج میں بارہویں کی تعلیم مکمل کی۔ چھوٹو کویہ بھی پتہ چل چکا تھا کہ سائیکل پر گھوم کر کاروبار کرنے سے آمدنی کچھ زیادہ نہیں ہوتی ہے۔ کوئی بڑا کاروبار یا بڑی نوکری کرنا ضروری ہے۔
قارئین غریب بھی چاہے چھوٹو جیسا ہو اپنے باپ کو کاروبار کر تا دیکھ کر خود اپنی زندگی کے متعلق بہتر فیصلے کرنے لگتا ہے۔ اخبار ٹیلیگراف انڈیا کی 5؍ نومبر 2022کی رپورٹ کے مطابق 50 سالہ کنائی کارمکر مغربی بنگال کے کھڑگ پور کا رہنے والا شخص ہے جو سائیکل پر معمولی اشیاء فروخت کر کے اپنا اور اپنے گھر والوں کی گذر بس کا سامان جمع کرتا ہے۔ اس کے لڑکے چھوٹو کارمکر نے بارہویں جماعت کے امتحان میں 500 میں سے 479 مارکس حاصل کر کے نمایاں کامیابی حاصل کی اور غریب کے اس لڑکے نے JEE جوائنٹ انجینئرنگ انسٹرنس امتحان ہی نہیں بلکہ اڈوانسڈ JEE میں بھی کامیابی حاصل کر کے انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی جیسے باوقار ادارے کی کھڑگ پور برانچ میں داخلہ حاصل کرلیا۔
قارئین JEE کا امتحان کس قدر بڑا ہوتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے۔ سال 2022ء میں اس امتحان میں تقریباً 8 لاکھ طلبہ نے شرکت کی تھی اور ان لاکھوں امیدواروں کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے ان سب میں نمایاں کامیابی حاصل کرتے ہوئے چھوٹو ثابت کیا کہ کوئی کاروبار چھوٹا نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی نام سے بڑا یا چھوٹا ہوتا ہے۔ اگر کوئی چیز چھوٹی ہوتی ہے تو وہ صرف انسان کی سونچ ہوتی ہے۔
چھوٹو کی مصیبتیں JEE مین میں کامیابی اور آئی ٹی آئی کھڑگ پور میں ایڈمیشن کے ساتھ ختم نہیں ہوتی۔ اخبار ٹیلیگراف کی رپورٹ کے مطابق آئی آئی ٹی کھڑگ پور میں فرسٹ ایئر کی فیس ایک لاکھ ستر ہزار روپئے ہے اور چھوٹن کے سارے گھر اور خاندان والے مل کر جب پیسے جمع کیے تو وہ بھی 35 ہزار ہی جمع کرپائے۔ اس غریب طالب علم کی جدوجہد سے بھری زندگی کو دیکھ کر آئی آئی ٹی کھڑگ پو ر کے ڈپٹی ڈائرکٹر نے طالب علم کی مدد کرنے کی راہ ڈھو نڈ نکالی اور چھوٹن سے 35ہزار قبول کر کے اس کی بقیہ فیس کے لیے اسکالر شپس کا انتظام کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ (بحوالہ اخبار دی ٹیلیگراف۔ 5؍ نومبر2022)
جتن گائیکواڑکا تعلق مہاراشٹرا کے اس علاقے سے ہے جو کبھی حیدرآباد دکن کا حصہ تھے۔ یہ سال 2018ء کی بات ہے جب گائیکواڑ کی نواسی کی طبیعت بہت خراب ہوگئی تھی۔ گائوں کے ڈاکٹرس نے اسے شہر لے جانے کا مشورہ دیا ۔ گائیکواڑ بنیادی طور پر زرعی مزدوری کیا کرتا تھا۔ جب نواسی کی طبیعت خراب ہوگئی تو بیوی نے کچھ زیور بیچ کر نواسی کو علاج کے لیے حیدرآباد بھیج دیا۔ اپنی بیٹی اور داماد کو لے کر گائیکواڑ حیدرآباد آگیا اور نواسی کو نیلوفر دواخانے میں شریک کردیا گیا۔ 2 مہینے دس دن بعد نواسی تو ڈسچارج ہوگئی مگر گائیکواڑ اپنی بیٹی اور داماد کے ساتھ واپس مہاراشٹرا نہیں گیا۔
گائوں میں بتلایا گیا کہ گائیکواڑ کو شہر حیدرآباد میں نوکری مل گئی ہے۔ اس کی بیوی پریشان ہوئی اور ایک مہینے کے بعد اپنے خرچے سے داماد کو دوبارہ حیدرآباد بھیجا تاکہ وہ سسرے کی خیریت معلوم کرے اور یہ پتہ کرے کہ آخر اس کو کس طرح کی نوکری ملی ہے۔
گائیکواڑ کے داماد نے واپس گائوں جاکر اپنی ساس کو بتلایا کہ اس کے سسرے کو نوکری نہیں ملی ہے۔ دو وقت کا کھانا نیلوفر دواخانے کے باہر فری میں مل جاتا ہے اور اس کے بعد گائیکواڑ اطراف کے علاقوں میں لوگوں سے یہ کہہ کر مدد مانگتا ہے کہ اس کی بیٹی دواخانے میں ہے۔ نہ نہ کرنے کے باوجود بھی ایک دن میں وہ 500 سے ہزار روپیہ جمع کرلیتا ہے اور غلط لوگوں کے ساتھ رہ کر رات میں نشہ کر کے فٹ پاتھ پر ہی سوتا رہتا ہے۔
گائیکواڑ کی بیٹی اور بیوی کرونا کے بحران کے سبب کسی طرح اس کو آمادہ کر کے واپس گائوں لے گئے ہیں جہاں وہ محنت کرنے سے یہ کہہ کر جی چراتا ہے کہ حیدرآباد میں فری کا کھانا اور لوگوں کی مدد آسانی سے مل جاتی ہے تو گائوں میں رہ کر کام کیوں کیا جائے۔ نیلوفر دواخانے کے باہر عوام کو کھانا کھلانے کے کام میں سرگرم ایک غیر سرکاری تنظیم کے ذمہ دار کے مطابق مریضوں کے علاوہ وہاں پر کھانا کھانے کے لیے بے کار، بے گھر لوگ بھی آجاتے ہیں اور وہ انہیں کھانا لینے والوں کی قطار سے سب کے سامنے باہر نکالنا پسند نہیں کرتے ہیں۔
راجستھان کے تین نوجوان جن کی عمریں 22 سال کے آس پاس ہیں کام کی تلاش میں حیدرآباد آتے ہیں اور گھوڑے چلانے کی تربیت حاصل کر کے شہر حیدرآباد کے مضافات میں واقع حیدرآباد اسکول آف ایکسلنس میں بطور ٹرینر گذشتہ دو برسوں سے برسرکار ہیں۔ یہ کام کرنے والوں کے لیے شہر حیدرآباد میں کام موجود ہے اور بہانہ بنانے والوں کے لیے ہزار بہانے لیکن جن کا ایمان ہے کہ اللہ عبدالرزاق ہے۔ ان کو ایسے بہانے بالکل زیب نہیں دیتے۔
ذرا سونچئے گا مثالیں چیزوں کو سمجھانے کے لیے دی جاتی ہیں۔ سمجھانا یہ مقصود ہے کہ مسلمان ضرورت مندوں کو مانگنا نہیں اپنی مدد آپ کرنا سکھائیں۔ کیوں کہ جو ہاتھ لوگوں کے آگے دراز ہونے لگتا ہے وہ اپنی مدد آپ کرنا بھول جاتے ہیں۔
یاد کریئے گا یاد دلایئے گا۔ ہم بحیثیت مسلمان اس دنیا میں کس مقصد سے بھیجے گئے تھے اور ہم نے اپنے مقاصد کیا بنالیے ہیں۔ سیدھی راہ پر چلنے سے ہمیں کسی نے روکا ہے یا ہم نے خود ہی غلط راہ چن لی ہے۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)۔ [email protected]
۰۰۰٭٭٭۰۰۰