سیاستمضامین

موہن بھاگوت کی ’’شرائط‘‘ آئین کو چیلنج کرتی ہیں

پنکج شریواستو

آخر کار، آزادی کے امرت مہوتسو کے سال میں، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) وہ نظریہ لے کر آئی ہے جو آزادی کی جدوجہد اور اس سے اخذ کردہ اقدار پر مبنی آئین کو مسترد کرنے کے اس کے مستقل ارادے کو بے نقاب کرتا ہے۔
آر ایس ایس کے ترجمان پانچ جنیہ میں شائع ہونے والے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت کے انٹرویو میں ہندوستانی ہونے کے لیے جس طرح سے ‘شرائط’ طے کی گئی ہیں، وہ ڈاکٹر امبیڈکر کے اس خواب پر حملہ ہے، جس کے تحت آئین نے ملک کے ہر شہری کو بلا تفریق برابر تسلیم کیا ہے۔ ہندوستان میں ایک کمیونٹی دوسری کمیونٹی کی مہربانی سے نہیں بلکہ آئین سے ملنے والے حقوق اور تحفظ کی بنیاد پر زندگی گزارتی ہے۔
یہ انٹرویو ایسے وقت میں آیا ہے جب راہول گاندھی کی قیادت میں کانگریس کی ‘بھارت جوڑو یاترا’ کا ملک بھر میں چرچا ہے۔ راہول گاندھی ’نفرت کے بازار میں محبت کی دکان کھولنے‘ کی کال دے رہے ہیں۔ یہ یاترا اپنی نوعیت میں چاہے جتنی غیر سیاسی ہو، لیکن اسے جو حمایت اور پیغام مل رہا ہے وہ اس سیاست کے لیے گہرا تشویشناک ہے جس نے ہندوستان کو نفرت کی منڈی میں تبدیل کرکے بے مثال منافع کمایا ہے اور جس کے ہاتھ میں موجود ہ دور میں اقتدار کے سبھی ذرائع پہنچ سکے ہیں۔
بہرحال، اگر آر ایس ایس کو اونچے مقام پر دیکھنے کی خواہش سے بھرے دانشور اس انٹرویو کو بھارت جوڑو یاترا کے دوران آر ایس ایس پر راہول گاندھی کے مسلسل حملے کا جواب نہیں سمجھنا چاہتے تو بھی وہ اس کے مضمرات کو سمجھنے میں غلطی نہیں کریں گے۔ یہ انٹرویو بذات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ آر ایس ایس اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے ایک ‘جمہوری اور سیکولر ہندوستان’ کے نظریے کو توڑنے کے اپنے منصوبے کو ایک نیا کنارہ دینا چاہتی ہے، جو بھارت جوڑو یاترا جیسی یاترا کی اضافی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔
وزیر اعظم بننے کے بعد نریندر مودی نے 1200 سال کی غلامی کی بات کی تھی جسے موہن بھاگوت کے انٹرویو میں ہزار سال کر دیا گیا ہے۔ یہ دوسوسال کی کمی اچانک کیسے آگئی اسے تو وہی واضح کریں گے لیکن یہ واضح ہے کہ ان کا ہدف ملک کے مسلمان ہیں، جن کو وہ ’’سدھارنا‘‘ یا اپنے حالات کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں۔
ہندو تنظیموں کی تمام جارحیت کا جواز پیش کرنے کے لیے، وہ دلیل دیتے ہیں کہ ہزار سالہ جنگ فطری ہے اور مسلمانوں کو اس برتری کے احساس سے نکلنا چاہیے کہ کبھی وہ اس ملک پر حکومت کرتے تھے۔
پہلی بار تو یہ ہے کہ موہن بھاگوت کس حیثیت میں کسی کمیونٹی کے لیے شرطیں مقرر کررہے ہیں؟ ہندوستان میں کسی بھی مذہب، عقیدے، دیوی دیوتا کو ماننے یا نہ ماننے کی مکمل آزادی ہے، لیکن کوئی بھی آئین کی نافرمانی کے لیے آزاد نہیں ہے اور آئین ہر کسی کو اپنے مذہب کی پیروی اور اس کی تبلیغ کی آزادی دیتا ہے۔ تو کیا بھاگوت کی شرائط آئین کے لیے چیلنج نہیں ہیں جس کا حلف لے کر نریندر مودی دہلی میں اور بی جے پی کے وزرائے اعلیٰ کئی ریاستوں میں حکومت چلارہے ہیں؟
جب آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت جب مسلمانوں کے لیے ’’یہاں رہنا چاہیں تو رہیں، چاہے اپنے آباو اجداد کے مذہب پر لوٹ آئیں ‘‘ جیسی سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہیں تو وہ ایک ایسے شخص کے تکبر سے بھرا نظر آتا ہے جس نے ماورائے آئین حیثیت حاصل کر لی ہے۔ یہ یقینی طور پر 2014 کے بعد مرکز میں نریندر مودی کی قیادت والی حکومت کی طرف سے آئینی اداروں کو بے کار بنانے کی حد تک جانے کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ تحریک آزادی سے کنارہ کشی کرنے والی آر ایس ایس نے آئین میں ترنگے کی کھل کر مخالفت کی تھی۔
موہن بھاگوت مسلسل غیر ملکی اثر و رسوخ اور غیر ملکی سازش کے بارے میں بات کرتے ہیں، لیکن آر ایس ایس کی سوچ کی روایت ساورکر سے لے کر گولوالکر تک پھیلتی ہے جب بھاگوت مسلمانوں کو ‘دوسرے’ کے طور پر پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں، وہ اپنے آپ میں ایک غیر ملکی روایت ہے۔ یہ روایت ہٹلر سے کس حد تک متاثر ہوئی ہے گولوالکر کی تحریروں سے ظاہر ہے۔
جبکہ ہندوستانی روحانی روایت کسی کو دوسرے جیسا نہیں مانتی۔ اپنشد کی زبان میں اگر جیوا اور برہمن میں کوئی فرق نہیں ہے، پوری کائنات اتحاد کی علامت ہے، تو پھر ہندوؤں اور مسلمانوں میں فرق کی بنیاد کیا ہے؟ کیا بھاگوت سوامی وویکانند سے بڑے ہندو ہیں جو ’’اسلامی جسم میں ویدانتی دماغ‘‘ کو ہندوستان کا مستقبل مانتے تھے؟
جس طرح سے موہن بھاگوت ‘ہندو’ کو ہندوستانیت کا مترادف سمجھتے ہیں، اس سے مسلمان ہی نہیں ، جین ، بدھ، آریہ سماجی بھی غیرہندوستانی ہوجائیں گے جو خدا اور بت پرستی میں یقین نہیں کرتے، کمیونسٹوں کی بات و جانے ہی دیجئے۔ اس خیال کا قوی ہونا ہندوستان کے اتحاد کے لیے بھی خطرہ ہے، کیوں کہ وندھیاچل کو عبور کرنے کے بعد پیریار ایک بڑی شخصیت کے طور پر سامنے آتے ہیں جو نہ صرف خدا کا انکار کرتے ہیں بلکہ اوتار ازم کا بھی کھل کر انکار کرتے ہیں۔ اور ڈاکٹر امبیڈکر تو ایک ملک گیر شخصیت ہیں جو اپنے 22 عہد کا آغاز ان دیوی دیوتاؤں کو نذر آتش کرنے سے کرتے ہیں جو جارح ہندو کو ٹھیس پہنچنے کی تمام وجوہات دے سکتا ہے۔
بھارت صرف ہزار سال پرانا نہیں ہے۔ طبقاتی اور ذات پات کے استحصال کے خلاف بغاوت اور جدوجہد کی روایت اور بھی پرانی ہے۔ بات نکلے گی تو دور دور تک پھیل جائے گی۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ تہذیب کی ترقی میں یادداشت کے علاوہ فراموشی بھی اہم ہے۔ 1947 میں آزادی کے ساتھ ابھرنے والا ہندوستان منفرد اور بے مثال تھا۔ ہزار سال پہلے کے سماج میں عورتوں، شودروں، آدیواسیوں اور مزدوروں کو وہ حقوق حاصل نہیں تھے جو ان محروم طبقات کو آئین کی تشکیل کے بعد ملے تھے۔
آر ایس ایس ہزاروں سال پہلے جس شاندار وقت کی بات کرتی ہے وہ ان طبقات کے لیے غلامی کا دور تھا جس کی واپسی کوئی نہیں چاہے گا۔
اور سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ موہن بھاگوت کا انداز محمد علی جناح کی پیشین گوئی کو درست ثابت کرتا ہے، جنہیں پارلیمانی جمہوریت کی آڑ میں اقلیتوں پر اکثریت کی حکمرانی کا خوف تھا۔ نہ صرف اس وقت کی ہندوستانی قیادت بلکہ ہندوستانی مسلمانوں نے اس خدشے کو رد کرتے ہوئے پاکستان کے تصور کو مسترد کردیا تھا۔ یہ چیلنج ایک بار پھر ہندوستان کے خیال سے محبت کرنے والوں کے سامنے منہ پھاڑے کھڑا ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰