میٹھے چاول

شوکت تھانوی
ہوا یہ کہ کل آئی تھی پورے پورے ایک روپئے کی شکر اور بقول شخصے پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں تھا۔میاں امجد کو جو شوق سوار ہوا تو کہہ بیٹھے۔
” ننھے کی اماں! ذرامیٹھے چاول پکالو۔“
اب کیا تھا آگئی قیامت اور شروع ہوا ساتھ نام اللہ کے انتظام۔ ننھے کو پالنے میں لٹاکر جو تشریف لے چلیں تو بھونچال کی طرح باورچی خانہ میں جاکر دم لیا اور احکام جاری ہونا شروع ہوگئے۔
”رحیمن ذرا چاول نکالو۔
شیرا پڑوس سے جاکر آگ لے آ۔ اور دیکھ کہیں دیر نہ لگانا۔ میاں کو کچہری جانا ہے، تیری عادت ہے نگوڑ ماڑے کہ تو جاتا ہے تو وہیں کا ہو رہتا ہے۔ بس آگ لے کر فوراً لوٹ آنا۔ ابھی بہت سے کام ہیں۔
رحیمن اے بوا نوج تم سے کوئی کام کو کہے کوٹھری میں چاول کیا نکالنے گئیں۔ جیسے سات سمندر پار کرنے لگیں۔ اے مٹھی بھر چاول لانے میں اتنی دیر۔ نوج بیوی ایسا بھی کوئی کاہل ہو گھنٹہ بھر میں چاول لے کر لوٹی ہو۔ اچھا دروازہ سے جاکر دیکھو شیرا موا زندہ ہے کہ مرگیا۔ کمبخت آگ لینے کیا گیا ہے پڑوسن سے رشتہ جوڑنے گیا ہے، میں تو کہتی تھی باتیں اڑرہی ہوں گی۔ سوا نو بج چکے ہیں۔ ابھی نہ چاول چنے گئے ہیں نہ آگ سلگی ہے۔ رحیمن شیرا کو دیکھنے کیا گئی ہے کہ اب لوٹنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ اب میرا جی چاہتا ہے کہ اپنی بوٹیاں چباﺅں۔ چاولوں کی فرمائش کردینا تو سب کو آتا ہے۔ اب دیکھیں آکر موئے نوکر کیسے ڈھنگ کے رکھے ہیں۔ نتھنوں چنے چبوارہے ہیں ۔ آگ لگے ایسے نوکروں پر ان سے تو میں بے نوکر ہی اچھی، ان نمک حراموں کے بھروسے پر اگر کوئی کام چھوڑدیا جائے تو قیامت تک تو انشاءاللہ ہو نہیں سکتا۔
لائے شیرا آگ لائے اور یہ موئے تم کہاں مرگئے تھے۔ میں کتیا کی طرح بھونک رہی ہوں۔ نہ رحیمن کا پتا ہے نہ تمہارا۔ رحیمن تم کو دیکھنے کیا گئی ہیں کہ اب تک لوٹنے کا نام ہی نہیں لیا۔ میں نے کہا تھا کہ رحیمن یہیں دروازے سے شیرا کو دیکھ لو، ان کو تو بہانہ ملتا ہے بس غائب ہوگئیں۔ پہنچی ہوں گی اسی موئی شبراتن کی لڑکی کے یہاں۔ ان کی بلا سے کسی کا کام ہو یا آگ لگے۔
شیرا میرا بچہ ذراچولہے میں آگ تو سلگادے، میں جب تک چاول چنتی ہوں۔ دیکھ وہیں توے کے پیچھے نمک کی ہنڈیا کے پاس پھنکنی رکھی ہے۔ تھوڑی سی کھپریل میں سے چپٹیاں چن لا۔ اور لالٹین میں سے ذرا سا تل ان پر ڈال کر آگ سلگادے۔ میں اتنے میں چاول چنے لیتی ہوں۔ان بوا رحیمن کے بھروسے پر رہی تو پک چکے چاول۔ سچ ہے اپنا کام دوسرے کے بھروسے پر کبھی نہ چھوڑے۔ خدا نے ہاتھ پیر دیے ہیں کہ کام کرو۔ اے لاﺅ میں ابھی دم بھر میں سب چاول چنے دیتی ہوں۔ اے شیرا یہ تم آگ سلگارہے ہو کہ بیٹھے کھیل رہے ہو۔ پھکنی نہیں ملتی تو ڈھونڈو۔ اللہ نے یہ بڑی بڑی آنکھیں کس لیے دی ہیں۔ اے ہاں ٹھیک ہے خوب یاد آیا۔ پھکنی موئی ملے تو کیسے صبح میں نے مرغی کو کھینچ کر ماری تھی وہ سامنے والے تابدان میں گھس گئی۔ جا تو ذرا نکال لا۔
شکر ہے خدا نے ہماری رحیمن کو زندہ تو واپس کیا۔ بیوی آگے سے کان مروڑے۔ اب کبھی تم سے کسی کام کو نہ کہوں گی۔ تم ایسی گئیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ لو میں نے چاول اتنی سی دیر میں سب چن کر رکھ دیے۔ تمہارے بھروسہ پر رہتی تو کچھ نہ ہوتا۔ ذرا پتیلی تو مانجھ لو۔ المونیم والی پتیلی لینا اور جلدی سے مانجھ دو۔
موئی دیر پر دیر ہوئی چلی جاتی ہے اور وہ کپڑے پہن رہے ہیں۔ کچہری کا وقت آگیا، لاﺅ میں چاول توچڑھادوں جب تک ابلیں شیرا لپک کر ایک پیسے کی چھوٹی الائچی تو لے آ۔ دیکھ مری مری نہ لانا۔ اگر خراب ہوئی تو منہ پر کھینچ کے ماروں گی۔ اور دیکھ اگر تو نے دیر لگائی تو اچھا نہ ہوگا۔ ایسا جانا جیسے گیا ہی نہ تھا۔ شاباش۔ دیکھیں ہمارا شیرا کتنی جلدی لاتا ہے۔ رحیمن تو بیٹھی کیا کررہی ہو۔ ذرانگوڑے چاول دھو کر چڑھادو۔ نوج بیوی تمہارا ایسا کاہل وجود ہو۔ جو کام تم کو نہ کرنا ہو ا کرے کہہ دیا کرو۔ اے ہاں رحیمن ذرا جلدی سے شیرا کو آواز دے لینا۔ گھی منگانا ہی بھول گئی۔ موا جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے۔ میری بہن جلدی سے جاﺅ۔ ابھی جمن کے دروازے ہی تک پہنچا ہوگا جب تک میں کٹوری دھوئے دیتی ہوں۔ اسی میں گھی لے آئے گا۔ شیرا بھیاا میں تو کہنا ہی بھول گئی تھی۔ اچھا تو سیر بھر چاول ہیں تو تین چھٹانک گھی عمدہ لے آﺅ۔ لاﺅ پیسے مجھ کو دو۔ یہ لو روپیہ مگر دیکھو گھی ذرا اچھا لینا سونگھ کر اور چکھ کر دیکھ لینا۔ جا بیٹا جلدی جا۔
اے لو دس بج گئے۔ اب وہ جاتے ہیں۔ کچہری تھوڑی ان چاولوں کے پیچھے چھوڑیں گے۔ دن بھر فاقہ سے رہیں گے۔ وہ روز کی دال روٹی بھی ان نگوڑ مارے چاولوں کے پیچھے کھوئی۔ میں بھی آخر کیا کروں کوئی دس ہاتھ پیر تھوڑی ہی لگالوں گی۔ یہ بھی کیا کوئی ہتھیلی پر سرسوں جمانا ہے۔ کمبخت لکڑیوں نے بھی قسم کھالی ہے آج کہ نہ جلیں گی۔ نہ معلوم کہاں کی بھیگی ہوئی لکڑیاں کمبخت ہمارے حوالے کردیتے ہیں۔ جیسے ہم کو خیرات ہی تو دے رہے ہیں۔ بھر مٹھی دام لیں گے اور چیز ایسی دیں گے جیسے مفت ہی تو دے رہے ہیں۔ میں نے کہہ دیا ہے کہ اس موئے مولا بخش حرام خور کے یہاں سے اب کبھی لکڑیاں آئیں تو اچھا نہ ہوگا۔ ان کا کیا لکڑیاں منگا کر ڈال دیں پھر تو جو کچھ آفت ہوگی وہ جلانے والے کی جان پر ہوگی۔ ان کی بلا سے یہاں موئی آنکھیں پھوٹی جارہی ہیں اور لکڑیاں ہیں کہ سلگنے کا نام نہیں لیتیں۔ اے ننھے کے ابا تم تو اور ہاتھ پیر پھلائے دیتے، آخر میں پوچھتی ہوں کہ آج جو ذرا چاولوں میں دیر ہوئی تو کیا تمہاری کچہری بھی جھاڑو پھری جلدی کھلنے لگی۔ ایسی بھی کیا جلدی چاول تیار ہیں، اب کھا کر جاﺅ ذرا موا شیرا الائچی لے آئے بس میں داغ لوں تو دیتی ہو
ں۔ ایسی چیز بھی پکاکر پچھتانا پڑتا ہے کہ کس شوق سے تو تم نے چاولوں کو کہا اور چلے بھوکے کچہری۔ یہ بھی کوئی بات ہے۔ ذرا ننھے کو گود میں اٹھالو۔ کیسا بلک کر رورہا۔ موئے کی آواز پڑگئی، نوج تمہارا جیسا بھی کوئی سنگدل ہو۔ آواز سن رہے ہیں اور کوئی پروا نہیں ۔ آخر تمہاری اولاد ہے۔ اسے پرسوں سے ویسے ہی بخار آرہا ہے۔ سینہ الگ جکڑا پڑا ہے۔ کھانسی ہے کہ دم نہیں لینے دیتی۔ نہ موئی دوا ہے نہ علاج۔ اور ہو تو کیسے ہو تم کسی بات میں خبرہی نہیں لیتے۔ میں گھر کی بیٹھنے والی آخر یہ سب کیسے کروں۔ لو تم تو اس کو لے کر بیٹھ گئے، ذرا کندھے سے لگاکر ٹہلو تو وہ چپ بھی ہو۔ معصوم ہے کئی وقت سے دودھ نہیں پیا ہے، لاﺅ میں اس کو ذرا سا دودھ یہیں بیٹھے بیٹھے پلادوں۔ جب تک تم ذرا اس موئے شیرا کو باہر دیکھو کہ زندہ ہے یا موا اللہ کو پیارا ہوا۔ آگ لگے اس کمبخت کو جیسا اس نے مجھ کو عاجز کیا ہے۔ خدا اس موئے سے سمجھے ،آنے دو آج میں بھی وہ خبر لوں گی کہ بچا کو چھٹی کا دودھ یاد آجائے گا یا تو آج سے وہ نوکری کو سلام کریں گے اور یا پھر ٹھیک ہی ہوجائیں گے۔ آیا موا، ادھر تو آ کیوں رے یہ تو کہاں تھا کہہ دیا تھا کہ جلدی واپس آنا دو گھنٹے لگادیے کیا تو اندھا تھا۔ تجھے دکھائی نہیں دیتا تھا کہ میاں کچہری جانے والے ہیں۔ کیا آنکھیں پھوٹ گئی تھیں۔ مرے اللہ کرے تو آدھی رات کو چمچماتی ہوئی کھٹیا پر نکلے۔ اور اوپر سے گھور رہا ہے۔ آنکھیں نیچی کر مونڈی کاٹے نہیں تو اس وقت اپنی اور تیری جان ایک کردوں گی۔ تو گھورے گا تو لے۔ گھم گھم، گھما گھم، چٹاخ ، پٹاخ، دھڑپٹ، بھڑاخ….“
شیرا کی تو مرمت شروع ہوگئی اور میاں امجد دم دباکر بھاگے کچہری، راستہ بھر ان کے کانوں میں وہی بیوی کی جھنکار دار آواز گونجا کی کچہری پہنچے تو صاحب نے ٹانگ لی کہ دیر کیوں کی اور اس بہانے سے امجد نے آج تک جتنی غلطیاں کی تھیں لگے سب گنوانے اور شکایتوں کا دفتر کھول کر بیٹھ گئے۔ ایک تو بیچارہ رات سے بھوکا اس پر صبح سے دس بجے تک بیگم صاحبہ کی مسلسل اور دھواں دھار تقریر نے دماغ خالی کردیا تھا کہ اب صاحب کو شوق سوار ہوا لگے آئیں بائیں شائیں ہانکنے انسان ہی تو ہے دماغ بیچارے کا چکرا گیا۔ اب صاحب پوچھتے ہیں کھیت تو امجد بتاتے ہیں کھلیان کی اونٹ بکری آگرہ جواب دینے لگے صاحب کا ٹمپریچر دن بھر تیز رہا اور دن بھر امجد ایک ہاتھ پچکے ہوئے پیٹ پر رکھے اور ایک ہاتھ میں قلم لیے ”ڈنڈم کافنڈم“ کام کرتے رہے اور صاحب کی ڈانٹ سنا کیے کبھی کبھی یہ بھی یاد کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ آج صبح کس کا منہ دیکھ کر اٹھا تھا۔ دن بھر کھانا نہیں ملا خیر نہ ملتا اوپر سے گالیاں کھانے کو مل رہی ہیں ۔ ارے صاحب جب آدمی بھوکا ہو تو آخر ٹھیک کام کس طرح کرسکتا ہے ۔ مارے بھوک کے اس کے تو پیٹ میں آگ لگی ہے ۔ اب جو صاحب پوچھتے ہیں کہ بلوے والے مقدمے کی فائل کہاں ہے تو سوائے اس کے کیا جواب دے سکتا ہے کہ ”میٹھے چاول“ اس پر صاحب کو غصہ آتا ہے۔ خیر خدا خدا کرکے پانچ بجے اور امجد کی کچری سے جان چھوٹی جلدی جلدی گھر پہنچے۔ دیکھتے کیا ہیں کہ نہ تو شیرا ہے اور نہ رحیمن، بیوی چولہے کے پاس بیٹھی پھنکنی لیے پھوں پھوں کررہی ہے او چاول پتیلی میں کھدبد کھد بد مغل پٹھانوں کی طرح لڑرہے ہیں۔ امجد بھوک کی کمزوری کے مارے چاروں شانے چت چارپائی پر لیٹ گئے اور غنودگی طاری ہوگئی جب صبح آنکھ کھلی تو چاول تیار تھے ،مگران میں مینگنی نکل آئی، اس لیے ٹیپو کو کھلادیے گئے۔آج جمعہ تھا امجد نے سب نمازیوں کے سامنے قسم کھائی کہ اب کبھی ”میٹھے چاول“ نہ پکواﺅں گا۔
٭٭٭