سوشیل میڈیامضامین

نام تیرا بھی رہے گا نہ ستم گر باقی

پارٹی میں زبردست شخصیت پرستی چل پڑی ہے ۔ بی جے پی کے سینکڑوں ریاستی قائدین مودی کو بھگوان کہنے لگے ہیں‘ مدھیہ پردیش کے ایک وزیر نے تو انہیں لارڈ رام اور لارڈ کرشنا کا اوتار قراردے دیا جبکہ بی جے پی کے موجودہ صدر جے پی نڈا نے یہ کہہ کر حد ہی کردی کہ نریندر مودی ’’بھگوانوں کے شہنشاہ‘‘ ہیں۔

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی

متعلقہ خبریں
مشرکانہ خیالات سے بچنے کی تدبیر
ماہِ رمضان کا تحفہ تقویٰ
چائے ہوجائے!،خواتین زیادہ چائے پیتی ہیں یا مرد؟
دفاتر میں لڑکیوں کو رکھنا فیشن بن گیا
بچوں پر آئی پیڈ کے اثرات

بھارتیہ جنتا پارٹی کے بارے میں اب تو بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ
وہ جو سورج کو کل تک ہتھیلی پہ لئے پھرتا تھا
آج ان ہی تاریک سی گلیوں میں کہیں رہتا ہے

یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی بڑی تیزی کے ساتھ روبہ زوال ہورہی ہے۔ عجب ضرور لگے گا کہ ایک ایسی جماعت جو مرکز میں2014ء سے اقتدار پر ہے اور کئی ریاستوں میں اس کی راست طور پر یا پھر ساجھے داری میں سرکاریں چل رہی ہیں‘ بحیثیت سیاسی جماعت بی جے پی کا زوال2014ء سے ہی شروع ہوچکا تھالیکن حالیہ عرصہ میں یہ بری طرح تنزل کا شکار ہوگئی ہے۔ نام نہاد بوتھ لیول پارٹی اور امیت شاہ کی پناپرمکھ حکمت علی نے بھاجپا کی شہریوں سے قربت کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔ 10 ایسی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے بی جے پی اپنی چمک کھورہی ہے۔ سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کے قائدین عوام کے رابطہ سے کوسوں دور ہوگئے ہیں۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ فلاحی پروگرام سیاستدانوں کے بجائے نوکر شاہی کے ہاتھوں میں دے دیئے گئے ‘ جس کی وجہ سے بی جے پی کے منتخبہ قائدین اور بی جے پی کے سرگرم کارکنوں کو ان فلاحی پروگراموں کا راست طور پر کوئی فائدہ نہیں مل رہا ہے۔ مرکزیت کی وجہ سے ارکان اسمبلی اپنے مرضی کے موافق عہدیداروں کا تبادلہ کرنے سے قاصر ہوگئے ہیں جس کے نتیجہ میں ہو اپنے حلقوں کی ضروریات کی تکمیل نہیں کرپارہے ہیں۔ مختلف فلاحی پروگراموں کے سلسلے میں Direct Money Transfer بھی ان کی اہمیت کو بری طرح نقصان پہنچارہا ہے۔

آدھار نہ ہونے کے سبب کئی ضرورت مند فائدے سے محروم ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے پارٹی کو بہت بڑا نقصان ہورہا ہے۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے کارکنوں کے ساتھ ساتھ عوام بھی پارٹی کے مخالف ہوتے جارہے ہیں۔ انفارمیشن ٹکنالوجی کی وجہ سے عوام اور بی جے پی کے کارکنوں کے درمیان ربط و ضبط بری طرح گھٹ رہا ہے۔ ایک اور اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ پروگراموں سے متعلق Impact کا Feed Back بھی نہیں مل رہا ہے۔ پارٹی کے اندر جمہوری نظام بالکلیہ ناکام ہوچکا ہے۔ 2014ء سے پہلے یہ کہاجاتا تھا کہ بی جے پی میں زبردست اندرونی جمہوریت ہے لیکن اس کے بعد تمام تقررات نامزدگی کے ذریعہ عمل میں آرہے ہیں۔

پارٹی کے موجودہ صدر جے پی نڈا نامزدشدہ ہیں اور پھر ان کی دوسری میعاد بھی نامزدگی کے ذریعہ ہی عمل میں لائی گئی ۔ پارٹی کی نچلی سطح پر بھی کوئی جمہوریت دکھائی نہیں دیتی۔ یہاں پر بھی تمام عہدے نامزدگی کے ذریعہ ہی پر کئے گئے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی میں اس وقت ایسی ہی صورتحال ہے جیسی کانگریس میں اندرا گاندھی کے دور حکومت میں رونما ہوئی تھی۔ بھاجپا کی جانب سے چیف منسٹرس کے عہدوں پر بھی فرمانبردار لوگوں کو نامزد کیا جانے لگا ہے۔ جس سے جمہوری نظام کی دھجیاں اڑرہی ہیں۔

بی جے پی کے مضبوط قائدین کو ان کی حیثیت دکھادی جارہی ہے۔ قدآور لیڈرس‘ جنہوں نے پارٹی کو نئی زندگی دینے میں اہم رول ادا کیا تھا انہیں باہر کا راستہ دکھادیاگیا ہے۔ جن میں ایل کے اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی بھی شامل ہیں۔ مودی کی قیادت کو چیلنج کرنے والے قائدین بھی آہستہ آہستہ نظر انداز کئے جارہے ہیں جس کی تازہ ترین مثال نتن گڈکری کی ہے ۔ جن کے پاس سے چند اہم قلمدان واپس لے لئے گئے ہیں۔

انہیں بی جے پی کے پارلیمنٹری بورڈ سے بھی ہٹادیاگیا ہے۔ ساری حکومت اور پارٹی پر مودی اور امیت شاہ کا سایہ ہے جو آہستہ آہستہ گہرے اندھیروں کی نذر ہورہا ہے۔ ریاستی سطح پر بھی مقامی قائدین جگہ حاصل کرنے سے قاصر ہیں کیوں کہ یہاں پر بھی مرکزی قائدین ہی بڑا رول انجام دے رہے ہیں۔ کئی ریاستی اور ضمنی انتخابات میں پارٹی کو اس طرح کے رجحان کے باعث زبردست خسارہ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

اس صورتحال کے سبب ریاستی قائدین میں غصہ کی خاموش لہر چل پڑی ہے۔ جہاں جہاں پارٹی انتخابی طور پر کمزور ہوتی ہے وہاں پر اپوزیشن کے منتخبہ ارکان کو رقم دے کر یا پھر EDاور CBI کا خوف دکھا کر اپنے بس میں کرلیا جارہا ہے۔ برسوں سے پارٹی کے وفادار اور نئے نئے جماعت میں داخل ہونے والے قائدین کے درمیان گھمسان کی جنگ چل رہی ہے۔ کرناٹک میں اس صورتحال کے سبب پارٹی شکست کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔

مدھیہ پردیش میں بھی شہری اداروں کے انتخابات میں اسے زبردست منہ کی کھانی پڑی۔ خریدوفروخت کی سیاست کی وجہ سے بھارت کا عام ووٹر بی جے پی سے نفرت کرنے لگا ہے۔ انہیں یہ دیکھ کر گہرا صدمہ پہنچ رہا ہے کہ جن لوگوں کو انہوں نے چنا تھا انہیں خریدلیا جارہا ہے۔ ہندوستان کا رائے دہندہ انتہائی بالغ نظر ہے وہ کرپشن کی سیاست کو قطعی پسند نہیں کرتا۔ چنانچہ یہ ایک سچائی ہے کہ بھارت کے رائے دہندوں نے 1980ء کے بعد کم از کم دو تہائی حکومتوں کو چناؤمیں اکھاڑ پھینکا۔ ایک ایجنسی کے سروے کے مطابق اگر آج چناؤ ہوتے ہیں تو بی جے پی کو تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔

یہ پارٹی کا المیہ ہے کہ اس کے بوتھ لیول کمیٹیوں میں مقامی قائدین جگہ پانے سے قاصر ہیں۔ ان کو یہ دیکھ کر شرم آتی ہے کہ وہاں پر بھی باہر سے آئے ہوئے پارٹی کے مہمان خدمت انجام دے رہے ہیں ۔ ایک اور سب سے بڑی وجہ یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ سیاسی اور چناؤی سرگرمیوں کے لئے مالیہ بھی مرکزی پارٹی سے حاصل ہورہا ہے۔اگر مقامی طور پر ورکرس بااختیار نہ ہوں تو رائے دہندوں کو پولنگ بوتھ تک لانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوجاتا ہے۔ مقامی قائدین کو اس بات کی بھی شکایت ہے کہ جو لوگ ان کے علاقوں میں بھیجے جارہے ہیں نہ تو وہ ان کی زبان سے واقف ہیں اور نہ ہی ان کے کلچر سے ۔

بی جے پی کے پاس اس وقت دوسری پارٹیوں کے مقابلہ میں18گنا زائد رقم موجود ہے ۔ مالیہ کی یہی صورتحال پارٹی کو زبردست نقصان پہنچائے گی کیوں کہ مقامی قائدین اس معاملہ میں بااختیار نہیں بنائے جارہے ہیں۔ پارٹی میں زبردست شخصیت پرستی چل پڑی ہے ۔ بی جے پی کے سینکڑوں ریاستی قائدین مودی کو بھگوان کہنے لگے ہیں۔ مدھیہ پردیش کے ایک وزیر نے تو انہیں لارڈ رام اور لارڈ کرشنا کا اوتار قراردے دیا جبکہ بی جے پی کے موجودہ صدر جے پی نڈا نے یہ کہہ کر حد ہی کردی کہ نریندر مودی ’’ بھگوانوں کے شہنشاہ‘‘ ہیں۔

اس کیفیت کی وجہ سے بھی تنظیم کی حیثیت بونوں جیسی ہوگئی ہے۔ دسویں سب سے بڑی وجہ جو سارا عالم دیکھ رہا ہے وہ ہے مذہبی منافرت۔ اس صورتحال نے حکومت کے مقتدر کردار کو تباہ و تاراج کردیا ہے یہی نہیں بلکہ پارٹی کے کئی قائدین بھی اپنی نفرت انگیز ریمارکس کے سبب بدنما زندگی جی رہے ہیں۔ ملک میں فرقہ پرستی کی بدترین صورتحال کے باوجود وزیراعظم کی خاموشی ‘ خاموش رائے دہندوں کو بے چین کررہی ہے جو اگلے چناؤ میں غیرمعمولی رول ادا کرسکتے ہیں۔ ہندواز کی عظمت کا بار بار راگ الاپنے والی حکومت کو شاید یہ نہیں معلوم کہ ہندوازم محبت کے سوا کچھ بھی نہیں۔

سیاستداں آئیں گے اور پانی کے بلبلے کی طرح غائب بھی ہوجائیں گے لیکن ہندوستان کو اپنی ساری آن بان اور شان کے ساتھ جینا ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب سیاسی جماعتیں مذہب کے نازک موضوع کو چھوڑ کر معیشت کی پیشرفت کو اپنائیں گے۔ ہم کو تو بس اتنا ہی کہنا ہے کہ

نام تیرا بھی رہے گا نہ ستم گر باقی
جب ہے فرعون نہ چنگیز کا لشکر باقی
۰۰۰٭٭٭۰۰۰