سیاستمضامین

نیپال کے برہمنوں کے 500 سالہ ظالمانہ دور کا خاتمہ امبیڈکر کی تعلیمات پر مبنی جمہوری حکومت کا قیام

سلیم مقصود

آریائی نسل کے برہمنوں نے2500 سال قبل ایشیائے کوچک سے ہندوستان میں داخل ہوکر یہاں کے رہنے والوں کو ابتداء میں600 ذاتوں میں تقسیم کردیا اور اس کے سارے علاقے پر قبضہ کرنے اور اپنے فائدے کے لئے انہیں جملہ 6ہزار ذاتوں میں بانٹ دیا ۔ ہندوستان میں اپنے غلبے کے بعد ایشیاء کے اور بھی ممالک میں یہ داخل ہونے لگے۔ انہوں نے خاص طور پر ایشیاء کے اس خطہ کو اپنا نشانہ بنایا جس میں بدھ مت کے ماننے والوں کی آبادیاں بہت زیادہ تھیں اور آج بھی ان کا دعویٰ ہے کہ ایشیاء کے 10 کے قریب ممالک ایسے ہیں جن پر ان کی تہذیب‘ ان کے کلچر اور ان کے نظریات پائے جاتے ہیں۔ ہندوستان کے برہمن وادیوں نے دنیا کے جملہ 500 ممالک کو اپنا ہدف بنارکھا ہے۔ براعظم آفریقہ کے کئی ممالک خصوصاً جنوبی آفریقہ کا تقریباً تمام حصہ ان کے زیر اثر ہے۔ کوہِ ہمالیہ کے شمال مشرقی سرحدی علاقے میں واقع ممالک نیپال‘ بھوٹان‘ تبت ‘ سکم‘ مینمار کے علاوہ جنوبی کوریا ‘ تھائی لین بھی ان کے مقبوضات میں شامل ہیں۔ فیوجی ‘ انڈونیشیاء ‘ ملائیشیاء ‘ ماریشس‘ سری لنکا ‘ ویسٹ انڈیز‘ مشرقی و مغربی ۔ آفریقہ میں جب گوروں نے تہذیبی ‘ تعلیمی ‘ صنعتی ‘ مذہبی نظریاتی انقلاب برپا کردیا تو ہندوستان کے نسل پرست اور تنگ نظر صحیفہ نگار اور عالمی انعام یافتہ ہندوستانی نژاد ادیب وی۔ایس نیپال نے ایک بار کہا تھا کہ ’’ ان علاقوں پر گورے چھاجائیں گے اور ہندوستان کا یہاں جو اقتدار قائم ہے اس سے ہندوستانی محروم ہوجائیں گے‘‘۔ آسٹریلیا‘ کینیڈا‘ امریکا‘ برطانیہ‘ فرانس وغیرہ میں قائم ان کے اثرات کو بدلا نہیں جاسکتا۔ فرانس میں ان کا اثر اس قدر ہے کہ یہاں حضورؐ کے کارٹون بنانے پر پابندی کو خود اس ملک کے سربراہ کے ذریعہ اٹھادیا گیا اور اس کے برعکس حجاب پر پابندی کے نفاذ میں اہم کردار ادا کیا گیا۔
آر ۔ ایس ایس ‘ بجرنگ دل‘ ہندو مہاسبھا ‘ ہندووشواپریشد کی کئی عالمی تنظیمیں یعنی گلوبل آرگنائزیشن آف پیوپلس آف انیا (GOPIO) دنیا کے 125 ممالک میں اپنا کام انجام دے رہی ہے۔ ان اداروں کو ہر سال اربوں ڈالر کی آمدنی حاصل ہوتی ہے ان اداروں کے سیاسی سماجی‘ تجارتی اور مذہبی اثرات ساری دنیا میں پائے جاتے ہیں ۔ ایک ہندوستانی ادیب آنند ملو(Anand Mulloo) نے 2004ء کو ماریشیس سے شائع ہونے والی اپنی کتاب ’’دنیا کے مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے ہندوستانیوں کی آواز‘‘ Voices of the Indian Diasporaمیں دعویٰ کیا ہے کہ ساری دنیا میں20ملین سے زائد ہندوستانیوں کی آواز سنی جاتی ہے۔ آر ایس ایس کے لاتعداد ادارے 20سے زائد عالمی زبانوں میں اپنے پیغامات کی اشاعت کرتے ہیں۔ دنیا کے کئی بدھ مذہب کے ممالک میں سناتن دھرم(ہندو مذہب) کے ماننے والے مذاہب کا تصور پیدا کردیا گیا ہے۔ حالانکہ ہندوستان کے شمال مشرق ہمالیائی علاقہ کے ممالک تبت‘ بھوٹان‘ برما‘ سکم‘ میں نیپال کے سوائے کہیں بھی ہندتوا کا نظریہ نہیں پایا جاتا۔ نیپال ہمالیہ کے خطہ کا ایک ایسا واحد ملک ہے جس میں500 سال سے برہمنوں کا راج چلا آرہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 500 سال قبل برہمن ہندوستان سے نیپال کے صدر مقام کھٹمنڈو میں ایک نہایت ہی معمولی تعداد میں داخل ہوئے تھے۔ اس وقت نیپال میں ایک جمہوری طرز کی عوامی حکومت تھی۔ کوئی راجا یہاں راج نہیں کرتا تھا۔ کھٹمنڈو پر قبضہ کرنے کے بعد اپنے اصول کے مطابق ا نہوں نے یہاں ایک برہمن راجا مقرر کردیا اور نیپال کے معاشرتی نظام اور طرز زندگی کو آدی واسی اور ذات پات پر مبنی کرڈالا۔ نیپالی کسی بھی ذات سے واقف نہیں تھے مگر ان میں ذاتیں پیدا ہونے لگیں جس طرح آج کل مودی حکومت ’’پسماندگان‘‘ کے نام سے مسلمانوں میں ذاتیں پیدا کررہی ہے اور بعض ایسے ماڈرن علماء بھی ہیں جو مسلمانوں کی نئی ذاتوں کو قبول بھی کررہے ہیں۔ شروع شروع میں ذات پات سے عدم واقف نیپالی باشندوں(مول واسیوں) کو ذاتوں کی اس خطرناک تقسیم کے بھیانک اثرات کا اندازہ نہیں تھا مگر جب ان کے خاندانوں ہی میں یہ عجیب و غریب تفریق ہونے لگی تو ان کے سماج میں ایک خونریز کشاکش پیدا ہوگئی جس کا سلسلہ 500 سال سے آج تک جاری ہے ۔ آج بھی بہت سے نیپالی ذات پات کے اصولوں کو نہیں مانتے۔ مگر برہمنوں کے قائم کردہ بعض علاقے ایسے ہیں جہاں ذات پات کی شدت کئی سال پہلے پیدا کی جاچکی ہے۔ نیپالی سماج دو حصوں میں بانٹ دیا گیا۔ ذات پات کے ماننے والوں اور اس سے انکار کرنے والوں کے درمیان شدید کشاکش شروع ہوگئی جس نے خانہ جنگی کی شکل اختیار کرلی۔ برہمنوں کی پیدا کردہ سازش میں بتایا گیا کہ اب تک20ہزار سے زائد لوگ مارے گئے۔ نیپال کے شاہی خاندان کے افراد کو عوام پسند نہیں کرتی تھی۔ ان کے مظالم ‘ عیاشیوں اور شان و شوکت سے عام لوگوں کو نفرت تھی۔ شاہی خاندانوں اور عوام کے درمیان اکثر مسائل پیدا ہوجایا کرتے تھے۔ ہندوستانی نسل کے 10فیصد برہمن راجواڑے 500سال کے طویل عرصے میں نیپال کی رعایا کے دلوں میں کوئی مقام نہ بناسکے۔ ہندوستان کی آزادی سے قبل نیپال کے راجاؤں کے برطانوی حکومت سے بہت گہرے تعلقات تھے۔ آزادی کے بعد ہندوستان کی جمہوری حکومت میں بھی ان کا باوقار مقام تھا۔ خصوصاً نہرو خاندان کے دورِ اقتدار میں نیپالی راجاؤں کو بہت سی سہولتیں حاصل تھیں کیوں کہ نہرو خاندان کا تعلق بھی کشمری برہمنوں سے تھا اور کشمیری پنڈت بھی نیپال پر حکومت کرچکے تھے۔ ہندوستان کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو ایک سیکولر پنڈت قائد اور اشتراکیت کے حامل لیڈر تھے ۔ انہیں نیپال کے راجاؤں سے سخت چڑ بھی تھی ۔
نیپال کے اپنے پڑوسی ممالک تبت‘ بھوٹان‘ سکم‘ برما کے درمیان ثقافتی تفریق پائی جاتی ہے کیو ںکہ ان ممالک کا تعلق بدھ مت سے ہے۔ نیپال کے بعض عوامی قائدین نے بتایا کہ نیپال میں ہندوراشٹر کے قیام کی کوشش500 سال سے جاری رہی اس کوشش میں نیپال تنگ دستی‘ افلاس اور غربت کا شکار ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ نیپال کے صرف ایک ہی علاقے میں 10فیصد برہمن آباد رہے مگر انہوں نے سارے نیپال میں ہندوراشٹرقائم کرکے سارے ملک میں ہندو مذہب کو پھیلانے کی جدوجہد کی مگر انہیں اس میں مکمل کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ نیپال کے کسی بھی راجہ کا تعلق نیپالی نسل سے نہیں تھا۔ نیپالی ہرگز ہندو مذہب کے ماننے والے نہیں تھے بلکہ ان کے تمام بھکشو بودھ مت سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہندوستان سے نیپال منتقل ہونے والے برہمونں کی جملہ آبادی اب 10 فیصد ہے جب کہ ہندو‘ مسلمان ‘ سکھ اور عیسائیوں کی آبادیاں 2.5فیصد ہیں۔
سناتن دھرم کا قیام کہا جاتا ہے کہ بغیر راج پاٹ‘ بالادستی اور پنے ثقافتی اور نظریاتی غلبے کے بغیر نہیں ہوتا۔ وزیراعظم نہرو نے اپنی کتاب ڈسکوری آف انیا میں نیپالی راجاؤں کی بدامنی کا تذکرہ کیا ہے۔ ہندوستان کے ہندو حکمرانوں نے پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارت ‘ صنعت اور خوشحالی اور ترقی کے اقدامات کی پیش رفت کرنے کے بجائے ہمیشہ ان ممالک کے مقابلے میں اپنی شناخت‘ اپنی تہذیب ‘ اپنے ماضی اور اپنے تاریخی مقام کو ہمیشہ بلند قراردیا۔ نیپالی بہت ہی مالی مشکلات ‘ صنعتی ترقی اور تعلیمی مسائل کا شدید شکار ہیں۔ لیکن 16مئی2022ء کو مودی جی نے نیپال کے علاقے ’’ لمبنی‘‘ Lumbini میں ایک بدھسٹ مرکز کا افتتاح کرتے ہوئے ہندوستان اور نیپال کی مشترکہ ثقافت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ نیپالی جس طرح بدھسٹ کے مرکز کے قیام سے خوش ہیں اسطرح وہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر پر بھی خوش ہیں۔ انہوں نے نیپالی لوگوں کے کسی فائدے کی بات کہنے کے بجائے اپنی نیپال آمد کا مقصد یہ بتایا کہ ’’ نیپال میں داخل ہونا میرا کوئی سیاسی مقصد نہیں ہے بلکہ اس سے مجھے ایک روحانی تجربہ حاصل ہورہا ہے‘‘ انہوں نے اپنے 2018ء کے دورہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ نیپال کو انہوں نے اس وقت ’’ بھگوان رام کی اہلیہ سیتا کا مسکن بتایا تھا‘‘ اس سے قبل مارچ 2021ء میں نیپال کانگریس کے بعد ازاں برطرف وزیراعظم ’شیر بہادر دیوبے‘ نے اپنی اہلیہ کے ساتھ واراناسی کا دورہ کیا تھا۔ حالانکہ 2017ء میں جب ’دیوبے‘ وزیراعظم بنے تھے اور ان کے دور میں نیپالی پارلیمان میں نیپال کا نیا آئین منظور ہونے والا تھا ‘ مودی حکومت نے اس وقت نیپالی حکوموت کی بے عزتی کردی تھی اس سے ہندوستان کی وزارت داخلہ نے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس آئین کو فوری واپس لے لے۔ اس میں تبدیلی لائے اور نیپال کو ہندوراشٹر قراردے۔ اس مطالبہ کی تکمیل سے انکار کرنے پر نیپال کو کئی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ ہندوستانی امداد اور سہولتیں بھی گھٹادی گئی تھیں اور ن یپال کی ’’مدھیسی‘‘ ذات کے لوگوں نے ہندوستان کی تائید میں نیپال اور ہندوستان کے تمام تجارتی راستوں کو بند کردیاتھا۔ مگر اب اصلی نیپالیوں کا خیال ہے کہ نیپال پر غیر نیپالی ‘ غیر نسلی گورکھا‘ برہمن ‘ کشمیری اہٹان خاندانوں کے افراد اور ملّا(Malla) راجاؤں نے ابھی تک حکومت کی ‘ لیکن اب صرف نیپال کے اصلی باشندے ہی نیپال پر حکومت کریں گے۔ ہندوستانی برہمن قوانین کی جبہ اب امبیڈکر کے قوانین کا نفاذ عمل میں لایا جائے گا۔ ذات پات‘ چھوٹا بڑا‘ سب امتیازات کا خاتمہ ہوجائے گا۔ سارے ملک میں مساوات پھیل جائے گی۔500 سال بعد پنڈتوں کا راج ختم ہوگا اور نیپال میں امبیڈکر کے اصولوں پر عمل آوری ہوگی۔
2022ء میں نیپال میں جب عام انتخابات ہورہے تھے تو نیپال آر ایس ایس کے غنڈوں نے اور اس کے نیتاؤں نے نیپال میں ہندوراشٹر کے قیام کے نعرے لگانے شروع کردیئے تھے۔ ایک لیڈر نے نہایت ہی یقین کے ساتھ کہا تھا کہ اب نیپال میں ہندوراشٹر قائم ہوجائے گا۔ ابھی انتخابات کے نتائج بھی ظاہر نہیں ہوئے تھے کہ نیپالی مسلمانوں اور نیپالیوں کے درمیان نفرت اور اشتعال پیدا کرنے کے لئے ایک مسجد کو آگ لگادی گئی ۔ مسلمانوں نے کوئی احتجاج نہیں کیا اور نہ ہی نیپالیوں نے حالات کو بگاڑنے کے لئے کوئی فساد کی آگ بھڑکائی۔ انتخابات کے نتائج نے آر ایس ایس کے فسادیوں کا منہ کالا کردیا ۔ اب اقتدار پر کمیونسٹوں کا قبضہ ہوگیا ہے اور انہوں نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ نیپال میں کوئی لڑائی‘ جھگڑے‘ یا فساد کو پھیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰