طنز و مزاحمضامین

ہم کو نہ مل سکا تو فقط اک سکون دل

حمید عادل

آج ہر انسان بے چین ہے،حتیٰ کہ ترقی یافتہ ملک چین میں رہنے والا آدمی بھی چین سے نہیںہے …صبر نام کی چڑیا اب کہیں نظر نہیں آتی ہے ، ہر شخص آگے والے کو پیچھے کرنے کے لیے بے چین دکھائی دیتاہے … نیچے کھڑے مسافرین بس سے اترنے والے مسافرین پر ٹولی کی شکل میںسوار ہوجاتے ہیں …اس افرا تفری میں یوں بھی ہوتا ہے کہ بس میں موجودکوئی بے بس مسافر ’’ جانا تھا جاپان، پہنچ گئے چین، سمجھ گئے ناں…‘‘ کا نغمہ گنگناتا دوسرے اسٹاپ کو پہنچ جاتا ہے …انشدت پسندوںکو دیکھ کر لگتا ہے جیسے انہوں نے اپنا یہ مشن بنایا ہوا ہے کہ بس ہم ہی کو بس میںسوار ہونا ہے اور ہم کسی کو بس سے باہر آنے نہیں دیں گے…
آج جس کے پاس کچھ بھی نہیں وہ بھی بے چین ہے اور جس کے پاس بہت کچھ ہے وہ بھی بے چین ہے …جس کے پاس کچھ بھی نہیں ،وہ جس کے پاس بہت کچھ ہے، اُسے دیکھ کر بے چین ہے اور جس کے پاس بہت کچھ ہے وہ مزید بہت کچھ حاصل کرنے کے لیے بے چین ہے …ویسے بھی بے چینی اور بے قراری انسانی سرشت میں شامل ہے ،جنت کے درختوں میں ایک درخت ایسا تھا جس کا پھل کھانے سے حضرت آدم ؑ اور ماں حوا ؑکو روک دیا گیا تھا،لیکن اسی پھل کو کھانے کی انہیں بے چینی تھی…
ایک صاحب اعلی ٰپایہ کے شاعر، خطیب، انسان دوست سیاسی رہنما تھے، بلکہ کسی قدر بلا نوش بھی تھے۔ ان کی ایک کمزوری یہ تھی کہ جب وہ کوئی تازہ نظم یا غزل کہتے وہ اسے کسی نہ کسی کو ضرور سنانا چاہتے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ انہوں نے ایک نظم کہی، کئی جگہ گئے مگر اسے سنانے کو انہیں کوئی بھی سامع نہیں ملا۔ آخر کار بے چین ہوکر ایک شراب خانے آئے اور بیرے سے کہا: ’’دو پیگ لاؤ۔‘‘ بیرا جب دوپیگ لے آیا تو بولے:’’ایک تم اور ایک میں… گھبراؤ مت۔ یہ پیسے لو۔ بیٹھو میری غزل سنو۔‘‘
یہ تو ہوئی بلا نوش شاعرکی بات لیکن عشق بھی عجب بلا ہے ،عاشق دیوانہ وار ’’ مجھے نیند نہ آئے ، مجھے نیند نہ آئے ‘‘ گنگناتا پھرتا ہے تو معشوقہ آواز لگاتی ہے ’’مجھے چین نہ آئے ، مجھے چین نہ آئے ‘‘
بے چین اس قدر تھا کہ سویا نہ رات بھر
پلکوں سے لکھ رہا تھا ترا نام چاند پر
نامعلوم
دونوں ہی ملنے کے لیے بے چین رہتے ہیں لیکن جب ملتے ہیں تو ایک دوسرے کا چین غارت کردیتے ہیں…
بتائیں کیا کہ بے چینی بڑھاتے ہیں وہی آ کر
بہت بے چین ہم جن کے لیے معلوم ہوتے ہیں
مظفر حنفی
بہر کیف! عشق بھی ’’ لڈو کہے سے منہ میٹھا نہیں ہوتا‘‘کا ترجمان ہوا کرتا ہے …
بچپن میں ہمیں لڈو بہت پسند تھے، ایک دن ہم اپنی خالہ کے ہمراہ ان کے کسی رشتے دارکے ہاں گئے… تھوڑی دیر بعد خالہ کے رشتے دار نے اپنے بڑے بیٹے سے پوچھا: ’’بیٹے لڈو کہاں ہے؟‘‘ لڈو کا نام سنتے ہی دل میں لڈوپھوٹنے لگے اورشیخ چلی سے خیالات کا دماغ میں آنا جانا شروع ہوگیا …ہمیں ایک سوال جو بے چین کرگیا وہ یہ تھا کہ جانے کتنے لڈو ہوں گے ؟ پھر ہم نے خود ہی کو یہ تسلی دی کہ لڈو چاہے ایک ہی کیوں نہ ہوہم اخلاق کو بالائے طاق رکھ کر اس پر جھپٹ پڑیں گے…دریں اثنا ایک گول مٹول سا لڑکا کمرے میں وارد ہوا تو خالہ کی رشتے دار بہن نے کہا: ’’ارے بیٹے لڈو! تم کہاں تھے؟ تمہیں بھابی جان بلا رہی ہیں۔‘‘
مندرجہ بالا جملے کو سنتے ہی لڈو کھانے کی بے چینی کافور ہوگئی …اور لڈو نہ ملنے کی بے چینی حاوی ہوگئی … بے چینی کئی قسم کی ہوتی ہے ،کوئی اس لیے بے چین ہے کہ اس کے پاس پیسے نہیں اورکوئی اس لیے بے چین ہے کہ وہ پیسے خرچ کیسے کرے؟
کچھ دن پہلے کجریوال ملک کی بدحالی دیکھ کر خاصے بے چین ہوگئے تھے اور اسی بے کلی کے عالم میں کہہ گئے کہ ہندوستانی کرنسی پر لکشمی اور گنیش جی کی تصاویر ہونی چاہیے … انہوں نے باقاعدہ ایک پریس کانفرنس منعقد کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب چاہتے ہیں کہ ہندوستان ایک ترقی یافتہ ملک بنے اور ہر ہندوستانی، ہندوستان کا ہر خاندان ایک امیر خاندان بن جائے۔ اس کے لیے بہت سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔میں مرکزی حکومت سے اپیل کرتا ہوںکہ ہماری کرنسی پر گاندھی جی کی تصویر وہیں رہے لیکن اس کے ساتھ ہندوستانی کرنسی پر لکشمی اورگنیش جی کی تصویریں بھی لگائی جائیں…‘‘
کجریوال کی یہ بے چینی ’’سیاسی بے چینی ‘‘کہلاتی ہے…
کہتے ہیں کہ ہندوستان میں کرنسی نوٹ جب پہلی بار تصویر کے ساتھ جاری کیے گئے تو اس وقت کے مذہبی حلقوں میں بے چینی پیدا ہوئی، اس ضمن میں ایک وفد اس دور کے ایک نامور عالم کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے پوچھا : کرنسی نوٹ پر تصویر کا ہونا صحیح ہے یا غلط؟ محترم عالم دین نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔ میرے بھائیو! میرے فتویٰ دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ مجھے یقین ہے کہ میرا فتویٰ نہیں چلے گا، کرنسی نوٹ چل جائے گا۔
جس طرح پینے والوں کو پینے کا بہانہ چاہیے ، ٹھیک اسی طرح بے چین رہنے کے شوقین حضرات کو بے چین رہنے کا کوئی نہ کوئی بہانہ چاہیے ہوتا ہے …چمن بیگ کے پاس ہر وقت بے چین رہنے کی کوئی نہ کوئی نامعقول سی وجہ ہوتی ہے …ہم نے انہیں ایک دن بے چین دیکھ کر پوچھا :بے چینی کی وجہ کیا ہے ؟کہنے لگے : بینک سے قرض پر کار لی تھی، قسط ادا نہ کرنے کی وجہ سے بینک والے کار واپس لے گئے…‘‘ہم نے افسوس کا اظہار کیا ، ان کی ہمت بندھائی،کچھ ہنسنے ہنسانے کی باتیں کیں، ان کا موڈبن گیا اور وہ خوشی خوشی گھر چلے گئے . لیکن دوسرے ہی دن ہم نے ان کے چہرے پر دوبارہ ہوائیاں اڑتی ہوئی محسوس کیں، بے چینی کی وجہ دریافت کی تو کہنے لگے :میں کل اس لیے بے چین تھا کیوں کہ میری کارکو بینک والے لے گئے تھے اور میں آج یہ سوچ کربے چین ہوں کہ کاش! شادی بھی بینک سے قرض لے کر کی ہوتی۔
کچھ لوگ بے چینی سے نجات چاہتے ہیں تو کچھ بے چین ہوجاتے ہیں یہ سوچ کر کہ وہ چین سے کیوں ہیں ؟کچھ حضرات کی کیفیت تو اس شعر کی سی ہوکر رہ جاتی ہے :
روئے بغیر چارہ نہ رونے کی تاب ہے
کیا چیز اف یہ کیفیت اضطراب ہے
اختر انصاری
اضطراب کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں،ذہنی اور قلبی انتشار کے علاوہ ایسی کئی ایک وجوہ ہیں جن کی بدولت انسان بے چینی محسوس کرتاہے …مولانا منظور احمد آفاقی نے ایک واقعہ قلمبند کیا ہے ، جس کا لب لباب یہ ہے کہ ایک انگریز جوڑا مسلسل بے چینی محسوس کرتا تھا، کسی کام میں دل نہیں لگتا۔ جب بیماری کی شدت بڑھی تو وہ ڈاکٹروں سے رجوع ہوئے، دسیوں ڈاکٹر دیکھ ڈالے، دیوان خانہ ،دواخانہ بن گیالیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق بے چینی بڑھتی گئی…بعض ڈاکٹروں نے تو یہاں تک کہہ ڈالا کہ یہ ہمارا کیس ہی نہیں ہے، بلکہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے، لہٰذا کسی ماہر نفسیات کی خدمات حاصل کی جائیں…ماہر نفسیات کے ہاں یہ جوڑا پہنچا تو اس نے کہا ’’پہلے آپ یہ بتائیں کہ دنیا میں چین سے کون ہے؟ دیکھتے نہیں کہ ساری انسانیت بے چین ہے ، کیاتم لوگ چین پاکر دائرہ ٔ انسانیت سے خارج ہونا چاہتے ہو ؟‘‘ غرض جتنے منہ اتنی باتیں…
کسی نے انہیں مشورہ دیاکہ آپ حکیم اجمل خان کے پاس چلے جائیں…یہ مشہورہ انگریز جوڑے کو عجیب سا لگا، لیکن مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق انہوں نے حکیم صاحب کے مطب کارخ کیا۔ حکیم اجمل خاں صاحب نے اپنے مریضوں کا خندہ پیشانی سے استقبال کیا… مطب کے سامنے فٹ پاتھ پر مکئی کے بْھٹے بھونے جارہے تھے انہوں نے وہ بْھٹے منگوائے اور مریضوں کے سامنے رکھ دیے، پھر ان کے ساتھ بڑی بے تکلفی سے باتیں شروع کر دیں، جیسے برسہا برس کے یارانے ہوں… کبھی حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتے، کبھی کسی سنجیدہ موضوع پر روشنی ڈالتے اور کبھی کوئی لطیفہ سنا کر انہیں ہنساتے۔ وہ بْھٹے بھی کھاتے رہے اور حکیم صاحب کی باتوں سے بھی لطف انداز ہوتے رہے، وہ لوگ کچھ دیر بیٹھے پھر اٹھ کر چل دیے… گھر پہنچ کر انہیں احساس ہوا کہ وہ تو علاج کی غرض سے گئے تھے۔ یہ کیسا حکیم ہے جس نے نہ تو خود ان کی بیماری کے بارے میں پوچھا اور نہ انہیں ہی موقع دیا کہ کچھ کہہ سکیں۔ طے پایا کہ کل دوبارہ ان کے پاس جائیں گے… دوسرے دن بھی یہی سب کچھ ہوا ،گھر پہنچ کر وہ انگریز جوڑا پھر پچھتایا کہ وہ آج بھی اپنی بیماری بھول گئے ۔ سوچا کہ کل آخری باران کے پاس جائیں گے ، ان کی باتوں میں عجیب سا جادو ہے لیکن ہم ان کے منہ کھولنے سے پہلے ہی اپنی بیماری کا ذکر کردیں گے۔ اگر تیسرے دن بھی اس حکیم نے وہی پہلا سلوک روا رکھاتو پھر کبھی نہیں جائیں گے…
تیسرے دن جب مریض مطب میں پہنچے تو حکیم صاحب نے حسب معمول انھیں بٹھاناچاہا لیکن وہ نہ بیٹھے بلکہ انہوں نے کھڑے کھڑے رونی صورت بنا کر اپنی بیماری کے بارے میں بیان کرنا شروع کردیا۔ حکیم صاحب نہایت تحمل سے ان کی رام کہانی سنتے رہے، وہ اپنا دکھڑا سنا چکے تو حکیم صاحب نے کہنا شروع کیا ’’دوستو! کیا آپ کی بیماری ابھی باقی ہے؟ میں تو آپ کا علاج کرچکا ہوں‘‘۔ انگریز جوڑے نے تعجب سے پوچھا ’’وہ کیسے؟‘‘ حکیم صاحب نے ان کی حیرت میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا ’’میں نے پہلے دن ہی آپ کے چہرے دیکھ کر بیماری کی تشخیص کرلی تھی اور علاج بھی اسی دن سے شروع کردیا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اپنے آپ کو پہلے سے بہتر محسوس کر رہے ہوں گے…‘‘ حکیم صاحب کی باتیں سن کر دونوں میاں بیوی دنگ رہ گئے کیونکہ وہ محسوس کر رہے تھے کہ بیماری میں کافی حدتک افافہ ہوچکا ہے… لیکن حکیم صاحبہ نے ان سے مرض کے بارے میں کچھ پوچھا تھا اور نہی انہوں نے حکیم صاحب کو مرض کے بارے میں کچھ بتایا تھا …حکیم اجمل خان صاحب کی باتوں نے انہیں لاجواب کردیا،ان سے کچھ کہا نہیں جارہا تھا… ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم والا معاملہ تھا۔ آخر انہوں نے ہکلا تے ہوئے پوچھا: ’’ہماری بیماری کیا تھی اور آپ نے علاج کیا کیا ہے؟‘‘
حکیم صاحب نے انہیں بیٹھنے کو کہا، معمول کے مطابق مکئی کے بھْٹے منگوائے۔ ان کے سامنے رکھے اور فرمایا ’’پہلے دن میں نے آپ کے چہرے دیکھ کر اندازہ لگا لیا تھا کہ آپ لوگ مکھن کا استعمال زیادہ کرتے ہیں، اس بنا پر آپ کے جسم میں چکنائی کی مقدار معمول سے بڑھ گئی تھی، جس سے آپ کو بے چینی محسوس ہوتی تھی۔ اس کا علاج میں نے اس طرح کیا ہے کہ آپ کو دو دن مکئی کے بھٹے کھلائے ہیں۔ لیجیے اس ’’دوائی‘‘ کی ایک خوراک آج بھی نوش جان کیجئے، یہ اناج خشک ہوتا ہے۔ اس نے آپ کے جسم میں پہنچ کر فالتو اور زائد چکنائی کو چوس لیا ہے۔ اب آپ مکمل صحت یاب ہوچکے ہیں… جائیے اور آئندہ احتیاط کیجئے‘‘۔
ماضی کے حکیم اجمل خاں صاحب جیسے لوگوںکی نظر مرض پر ہوتی تھی مریض کی جیب پر نہیں … وہ بے چین ہوجاتے تھے کسی مریض کو دیکھ کر اور اس وقت تک انہیں چین نصیب نہیں ہوتا تھا جب تک کہ مریض صحت یاب نہ ہوجائے اور آج بیشتر طبیبوں کی بے چینی کی وجہ کچھ اور ہے …
ہم کو نہ مل سکا تو فقط اک سکون دل
اے زندگی وگرنہ زمانے میں کیا نہ تھا
آزاد انصاری
۰۰۰٭٭٭۰۰۰