کرسی نامہ

ڈاکٹرصفدر
کرسی کے چار پانو ہوتے ہیں، مگر یہ چوپایہ نہیں کہلاتی۔ اس لیے کہ چو پایہ جان دار ہوتا ہے اور کرسی بے جان۔
جب اس پر کوئی شخص اپنے دو پانو کے ساتھ بیٹھ جاتا ہے تو کرسی میں جان پڑجاتی ہے اور یوں چھ پانو والی ہوکر چوپایوں سے زیادہ حیوان ہوجاتی ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یوں بیان کی جاسکتی ہے کہ کرسی چوپائے سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ یہ چوپائے سے زیادہ خطرناک اور بے قابو ہوتی ہے۔ یہ چوپائے سے زیادہ دودھ دیتی ہے، اگر دودھ دینے والی ہو۔ اور چوپائے سے زیادہ خونخوار ہوتی ہے اگر خون پینے والی ہو۔دودھ دینے والی کرسیاں گائے بھینس اور بکری کی طرح عام انسانوںسے مانوس، مہربان اور دسترس میں ہوتی ہیں۔ بر خلاف اس کے خونخوار کرسیاں عام انسانی معاشرے سے پرے، وحشی اورنا مہربان ہوتی ہیں۔۔۔ کرسی پر بیٹھ کر آدمی کی جون بدل جاتی ہے۔ ظاہر ہے ایسا ہونا بھی چاہیے کہ آدمی ، آدمیت کی سطح سے اٹھ کر چھ پایہ ہوجاتا ہے، لہٰذا خواص کا بدل جانانہ غیر فطری ہے نہ غیر متوقع۔ کرسیاں عام جانداروں سے ان معنوں میں مختلف ہوتی ہیں کہ یہ کبھی نچلا بیٹھنا پسند نہیں کرتیں، اس لیے کرسیوں کے معاشرے میں صرف دوہی طبقات ہوتے ہیں۔ اعلیٰ طبقہ اور متوسط طبقہ۔ ادنیٰ طبقہ نہیں ہوتا کہ اس کا تعلق زمین سے ہوتا ہے۔۔۔ درمیانہ طبقے کی کرسیاں تعلیم گا ہوں ہسپتالوں اور دفتروں میں پائی جاتی ہیں۔ تعلیم گا ہوں میں کرسیاں اونگھتی ہیں ، ہسپتالوں میں سوتی ہیں اور دفتروں میں ہوکر بھی نہیں ہوتی ہیں۔ اسی مناسبت سے تعلیم گا ہوں کا ماحول سوتا جاگتا ہوا کرتا ہے۔ یہاں سے جو قوم زندگی کے میدان میں (جس میں کھیل کے میدان بھی شامل ہے) بھیجی جاتی ہے، وہ اونگھتے ہوئے تمام کام انجام دیتی ہے۔ اس طرح کام اور کام کرنے والے دونوں اپنے انجام کو پہنچتے ہیں۔ ہسپتالوں میں جو گہری نیند کی کیفیت طاری ہوتی ہے، اس نے اپنا ناطہ شہر خموشاں سے جوڑ رکھا ہے یہاں سے نکل کر اکثر لوگ وہیں پہنچتے ہیں۔ اسی طرح دفتروں میں سارے کام کاج ہونے نہ ہونے کی کیفیت میں مبتلا ہوتے ہیں۔
اعلیٰ طبقہ کی کرسیاں شہر میں ہوتی ہیں، مگر شہریوں کی دسترس سے دور اور قلعہ بند ہوتی ہیں۔ یہ کرسیاں زیادہ آرام دہ ہوتی ہیں۔ جدید طرز کی ان کرسیوں میں درمیانہ طبقے سے امتیاز کے لیے اسپرنگ لگے ہوتے ہیں۔ یہ کرسیاں ضرورت سے زیادہ آرام دہ ہوتی ہیں، اس لیے ان پر زیادہ دیر آرام ممکن نہیں ہوتا، اچھل کود ہوتی ہے۔ یہ کھیل کچھ وضاحت طلب ہے۔ ضرورت سے زیادہ آرام پاکرکر سیوں پر براجمان لوگ باﺅلے ہوکر کودنے لگتے ہیں۔ کرسیوں کے اسپرنگ بھی اسی قوت سے جوابی کا رروائی کرتے ہیں اور کرسی نشینوں کو اچھال دیتے ہیں۔ اس اچھل کود میں اکثر کرسیاں بد ل جاتی ہیں۔ صحافتی اصطلاح میں اسی کھیل کو ”آیا رام! گیا رام“ کہا جاتا ہے۔
اعلیٰ طبقہ کی کرسیاں اور متوسط طبقے کی کرسیوں میں کچھ امتیازی نشانات بھی ہیں۔ متوسط طبقے کی کرسی سے جب کوئی جڑتا ہے تو ہمیشہ کے لیے جڑکر رہ جاتا ہے۔ وہ کرسی چھوڑنا چاہے بھی تو کرسی اس کو نہیں چھوڑتی۔ بالکل ویسے جیسے دریا میں بہنے والی کمبل کو افیمچی نے چھوڑ دیا تھا مگر کمبل نے اس کو نہیں چھوڑا تھا۔ اس کے بر خلاف اعلیٰ طبقے کی کرسیاں ، کرسی نشینوں کو ، کک آﺅٹ، کرتی رہتی ہیں۔ لہٰذا اخبار بینوں کے لیے دیکھنا دلچسپی کا باعث ہوتا ہے کہ نئے دن کے ساتھ کس کرسی نے کس چھ پائے کو دوپائے میں بدل دیا ہے اور اب اس کرسی پر کون اچھل کود کررہا ہے۔
اعلیٰ طبقے کی کرسیاں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک وہ جو انکم ٹیکس ادا کرتی ہیں۔ دوسری وہ جو انکم ٹیکس وصول کرتی ہیں۔ آج کے ترقی یا فتہ دور میں بھید بھاﺅ کو پسند نہیں کیا جاتا۔ لہٰذا ان کر سیوں نے بھی اپنے بھید بھاﺅ ختم کر لیے ہیں۔ اس لیے عام انسانوں (جو صرف ٹیکس دیتے ہیں) کے لیے یہ سمجھنا ممکن نہیں رہا کہ انکم ٹیکس دینے والی اور انکم ٹیکس وصول کرنے والی کرسیوں میں کیا فرق ہے۔ دراصل ان کا فرق کچھ یوں مٹ گیا ہے کہ جو انکم ٹیکس دیتے ہیں وہی وصول کرنے والے بھی ہیں۔ یعنی اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے۔
ہمارا معاشرہ انسانوں کا معاشرہ نہیں ، کرسیوں کا معاشرہ ہے۔ انسانوں کا معاشرہ کرسیوں کے پیچھے چھپ کر غائب ہوگیا ہے۔ بلند ایوانوں کی اچھل کود، تعلیم گاہوں کی بے ہوشی ، ہسپتالوں کی خاموشی اور دفتروں کی بے حسی دو پانو والے انسانوں کی سخت کوشی پر اس طرح چھائی ہوئی ہیں جیسے درخت پر اکاس بیل۔ نتیجہ یہ ہے کہ ”آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا“
اسی لئے غالب نے کہا تھا (اور اگر نہیں کہا تھا تو اب ہم کہہ رہے ہیں)
پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد ٭ ڈرتا ہوں کرسیوں سے کہ کرسی گزیدہ ہوں
کتنا اچھا تھا وہ دور جب آدمی دو پانو پر قائم تھا اور کرسیاں ناموجود تھیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ آدمی کو آدمی کی جون میں واپس لانے کے لیے نئے بلند ایوانوں ، تعلم گاہوں، ہسپتالوں اور دفتروں سے کرسیاں ہٹا دی جائیں؟ ہمارے سماج کو انسانوں کا سماج بنانے کے لیے یہ ضروری ہے اور اس کے لیے ایک تحریک ضروری ہے۔ ”کر سی ہٹاﺅ تحریک۔“
ہر تحریک کے لئے دو چیزیں ضروری ہیں۔ موٹر اور منھ کی ٹر، ان دونوں چیزوں پر پہلے ہی سے کرسیاں قابض ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ پہلے کسی کرسی پر قبضہ کیا جائے۔ پھرکرسی کی مدد سے تمام کرسیوں پر یلغار کی جائے اور تمام کرسیوں کا خاتمہ کردیا جائے۔
دوستو! اس عظیم انقلاب کے لیے مجھے ایک بلند ایوانی کرسی کی ضرورت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ لوگ ضرور میری مدد کریں گے۔