مضامین

کیا ہندوستان میں قاتل ایک دوسرے کی نقل کر رہے ہیں؟

سوتک بسواس

کوئی 30 برس قبل دارالحکومت دلی میں ایک سائنسدان نے گھریلو تکرار کے بعد اپنی اہلیہ کو قتل کیا، اس کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے اور انہیں ایک صندوق میں بند کر دیا۔  اس کے بعد وہ ایک پرہجوم ٹرین میں تقریباً 1500 کلومیٹر کا سفر کرکے ملک کے جنوبی شہر حیدرآباد پہنچا جہاں اس نے ایک دلدلی علاقے کے قریب ایک ہوٹل میں کمرہ لیا۔ اس کے بعد اگلے چند دنوں میں اس نے گرد آلود پانی میں اس کی لاش کے ٹکڑے ٹھکانے لگا دیے۔ ایک دن ایک آوارہ کتا کھانے کی تلاش میں یہاں پہنچ گیا اور صندوق سے ایک انسانی ہاتھ نکال لیا۔ 
دلی کے ایک سینئر پولیس اہلکار دیپیندر پاٹھک یاد کرتے ہیں کہ ’اس شخص نے ثبوت مٹانے کے لیے لاش کے ٹکڑے کر دیے اور اْنھیں ایک دوسرے شہر تک لے گیا۔ ’لاش کے ٹکڑے کرنے‘ میں کوئی نئی بات نہیں تھی مگر ہمیں حیرت اس بات پر تھی کہ جسم کو ٹھکانے لگانے کا خیال اس شخص کو کسی فلم یا کسی کتاب سے آیا۔‘  حالیہ کچھ مہینوں میں ہندوستان میں ایسے ہی خوفناک واقعات نے شہ سرخیوں میں جگہ بنائی ہے جس کی وجہ سے یہ خدشات جنم لے رہے ہیں کہ کیا یکے بعد دیگرے ہونے والے یہ قتل ایک دوسرے سے متاثر تو نہیں ہو رہے؟ ہر کیس میں متاثرہ شخص کو قتل کر کے ٹکڑے کیے گیے اور پھر فریج یا سوٹ کیس میں بند کر دیا گیا۔ اس کے بعد باقیات کو وہاں سے منتقل کرکے کسی بڑے میدان، سنسان سڑکوں یا کسی جنگل میں پھیلا دیا گیا۔ ہندوستان میں جرائم کا مکمل ڈیٹا اس حوالے سے کوئی سراغ فراہم نہیں کرتا۔ سنہ 2021 میں قتل کے 29 ہزار سے زیادہ واقعات ریکارڈ ہوئے جو سنہ 2020 کے مقابلے میں 0.3 فیصد کا معمولی اضافہ ہے۔زیادہ تر کی وجہ ’تنازعات‘ تھے، جن کے بعد ’ذاتی رنجش یا دشمنی‘ اور ’پیسے کی خاطر‘ تھے۔ہم نہیں جانتے کہ ان میں سے کتنے متاثرین کو ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا یا قتل کے لیے کون سے آلے استعمال کیے گئے۔ ثقافتی رویوں کی ماہر لورین کولمین لکھتی ہیں کہ ’نقالی میں کیے گئے قتل، اور قتل کے بعد خودکشی ایک حقیقی معاملہ ہیں۔ میڈیا اس طرح کے رویے پھیلاتا ہے، یعنی نقل کے۔‘  لورین نے اس بارے میں تحقیق کی ہے کہ میڈیا کی جانب سے جرائم کی بے پناہ کوریج کے لوگوں پر کیا اثرات ہوتے ہیں۔ آفتاب پونا والا پر نومبر میں اپنی پارٹنر شردھا والکر کے قتل کا الزام عائد کیا گیا۔ وہ مبینہ طور پر امریکی کرائم ڈرامہ ڈیکسٹر سے متاثر تھا جس میں ایک فارنسک تجزیہ کار رات میں ایک سیریل کلر بن جاتا ہے۔  پولیس کا کہنا ہے کہ پونا والا نے والکر کا گلا گھونٹا، اْس کی لاش کے 36 ٹکڑے کیے، اسے فریج میں بند کیا، اور پھر اپنے گھر کے قریب ایک جنگل میں پھینک دیا۔کرمنل سائیکالوجسٹ انوجا کپور کہتی ہیں کہ ’اس طرح کے واقعات پر سنسنی پھیلانے سے نہ صرف لوگوں میں ہسٹیریا پھیل سکتا ہے بلکہ لوگ اس کی نقل کرنے پر بھی آمادہ ہو سکتے ہیں۔‘  مگر پھر بھی تفتیش کاروں اور ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ یہ ماننے کے لیے کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہندوستان کے ’سوٹ کیس‘ اور ’فریج‘ قتل دراصل ایک دوسرے سے متاثر قتل ہیں۔  دیپیندر پاٹھک کہتے ہیں کہ ’قتل کی نقل کرنا حقیقی بات ہے مگر میرا تجربہ ہے کہ ثبوت مٹانے کے طریقے کسی جرم کے بجائے فلموں اور ناولز سے لیے جاتے ہیں۔‘  سب سے پہلی بات تو یہ کہ قتل کے بعد ثبوت مٹانے کی غرض سے لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا ایک پرانا اور عام جرم ہے۔ ’بری خبروں کی جانب میڈیا کے میلان‘، یعنی قتل کے سنسنی خیز واقعات کی بھرپور کوریج کرنے کے باعث اسی طرح کے دیگر واقعات کی بھی بھرپور کوریج کی جاتی ہے جس سے یہ تاثر جنم لیتا ہے کہ ایسے واقعات پہلے سے زیادہ ہونے لگے ہیں۔  دلی کے آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں فارنسک میڈیسن شعبے کے سربراہ سدھیر کے گپتا کہتے ہیں کہ ’ٹکڑے ٹکڑے کرنا نسبتاً کم سننے میں آتا ہے مگر یہ ہوتے ضرور ہیں۔ بات یہ ہے کہ کئی کیسز تو میڈیا میں رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ میرے سامنے قتل اور ٹکڑے کرنے کے ایسے تین کیسز ہیں جن پر میڈیا میں بالکل بھی رپورٹ نہیں کیا گیا ہے۔‘ 
جب ڈاکٹر گپتا نے تین دہائی قبل ہندوستان میں فارنسک سرجن کے طور پر اپنا کیریئر شروع کیا تھا تو ان کے سامنے ایسے کئی کیسز آتے تھے جن میں متاثرین کو ان کے گھروں سے باہر بلایا جاتا، سنسان جگہوں پر قتل کیا جاتا اور لاشیں جنگلوں میں پھینک دی جاتیں۔  جب ملک میں شہروں کا پھیلاؤ ہونے لگا اور خاندان الگ الگ رہنے لگے تو زیادہ تر قتل کم لوگوں والے گھروں میں ہونے لگے اور کچھ کیسز میں لاشوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اْنھیں پھینک دیا جاتا۔ 
ڈاکٹر گپتا کہتے ہیں کہ ’ٹکڑے ٹکڑے کرنے پر قتل سے پہلے ہونے والے واقعات کا فارنسک تجزیہ اور مقتول کی شناخت ایک چیلنج بن جاتا ہے۔ مگر انسانی ہڈیوں کے تفصیلی تجزیے سے ہمیں صنف، عمر، موت کی تاریخ اور یہاں تک کہ موت کی ممکنہ وجہ تک پتا چل سکتی ہے۔‘ 
بین الاقوامی تحقیقیں اس طرح کے قتل کے واقعات کے بارے میں کچھ اشارے فراہم کر سکتی ہیں۔ فِن لینڈ میں 10 سال کے دوران ہونے والے ایسے 13 واقعات پر کی گئی تحقیق میں پایا گیا کہ کوئی بھی متاثرہ شخص مجرم سے ناواقف نہیں تھا اور تقریباً نصف واقعات میں یہ قتل پارٹنرز نے یا خاندان کے ارکان نے کیے۔  تحقیق میں پایا گیا کہ قتل کے وقت زیادہ تر مجرمان بے روزگار تھے اور کوئی بھی ایسے پیشے سے تعلق نہیں رکھتا تھا جس میں انسانی جسم یا لاشوں کو سنبھالنے کے متعلق معلومات درکار ہوں۔  اس کے علاوہ پولینڈ کی یونیورسٹی آف کراکو کے شعبہ فارنسک میڈیسن کی جانب سے 50 برسوں میں لاشوں کے ٹکڑے کرنے کے 30 دیگر واقعات پر کی گئی ایک اور تحقیق میں پایا گیا کہ ان واقعات کی عام طور پر پہلے سے منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی اور یہ ان مجرمان نے کیے تھے جو ’مقتول سے قریبی تعلق (دوست یا رشتے دار) رکھتے تھے اور اسی جگہ پر ہوا کرتے جہاں قتل کیا گیا، مثلاً قاتل کا گھر۔‘  بوسٹن یونیورسٹی کے اسکول آف میڈیسن کی ایک اور تحقیق میں پایا گیا کہ لاشوں کے ٹکڑے کرنے کے 76 فیصد واقعات مردوں کے ہاتھوں ہوئے۔  ہندوستان میں اس طرح ٹکڑے کر کے قتل کرنے کے رجحانات کے بارے میں کم ہی معلوم ہے۔ اس کے علاوہ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ کتنے قاتل واردات کے بعد خود کو پولیس کے حوالے کر دیتے ہیں اور کتنے ثبوت مٹانے کے لیے لاش کو مسخ کر دیتے ہیں یا ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے ہیں۔ دیپیندر پاٹھک کہتے ہیں: ’مگر جو بات ہم جانتے ہیں وہ یہ کہ اس طرح کے قتل کے واقعات آج کے ہندوستان میں سماجی تعلقات کی ناہمواریوں کو ظاہر کرتے ہیں، جیسے کہ شادی شدہ زندگی میں ناچاقی، شادی کے باوجود دیگر افراد سے جنسی تعلق، شادی کے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ رہنا وغیرہ۔ یہ وہ مواقع ہیں جب چیزیں ہاتھ سے نکل جاتی ہیں۔‘