طنز و مزاحمضامین

گرمی کی راحتیں

ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

کچھ دن قبل بس سے سفر کر رہا تھا۔ بس سے اترتے وقت شدید گرمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میں نے کنڈکٹر سے دریافت کیا آپ کے ڈپو والے ایر کنڈیشنڈ بسیں کیوں نہیں چلاتے۔ بس کنڈکٹر ذرا دانشور قسم کا تھا، اس نے جواب دیا کہ صاحب اے سی صحت کے لیے برا ہوتا ہے، دل کے امراض آتے ہیں ،انسان کو گرمی ہو یا سردی صبر کی عادت ڈالنی چاہیے۔ گرمی اچھی ہوتی ہے، اس سے جسم سے پسینہ نکلتا ہے اور انسان کی صحت اچھی رہتی ہے۔ کنڈکٹر کے پڑھائے ہوئے سبق کو ذہن نشین کرنے کے بعد میں نے گرمی کی شکایت سے توبہ کی۔ آج کے گرما اور بیس سال پہلے کے گرما کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ماضی میں جب کہ گھر کویلو کے ہوا کرتے تھے گھر میں بس ایک ٹیبل فیان ہوا کرتا تھا تو لوگ گرمی سے بچاﺅ کا اہتمام اس طرح کرتے تھے ،کھڑکیوں کے سامنے خس کی ٹٹیاں لگائی جاتی تھیں تاکہ مئی یعنی تیر کے مہینے کی لو سے بچاﺅ ہوسکے۔ شام ہوتے ہی بان کے پلنگ آنگن میں ڈال کر ان پر پانی کا چھڑکاﺅ کیا جاتا تھا تاکہ ٹھنڈک لگے۔ گھروں میں مٹی کی صراحی ہوتی تھی جس پر سفید دھاگے سے کروشے کے کام کیے ہوئے خوبصورت صراحی کور لگائے جاتے تھے۔ صراحی ہو یا عادل آباد کے رنجن کا ٹھنڈا پانی واقعی دل کو راحت پہنچاتا تھا، اس وقت ٹھنڈی الماری یعنی فریج کا کوئی تصور نہیں تھا، بعد میں دولت مند لوگوں کے گھر جب فریج آیا تو لوگ ان کے گھر برف مانگنے جایا کرتے تھے۔ گاﺅں میں نیم کے درخت ہوا کرتے تھے جن کی ٹھنڈی چھاﺅں میں بچے بوڑھے بیٹھ کر موسم گرما کو گزارا کرتے تھے، گرما کا تحفہ لسی یا چھانچھ ہوتی ہے۔ گھروں میں نمکین چھانچ بنا کر بڑے گلاس میں پیش کی جاتی تھی اور لوگ جی بھر کر لسی پی کر گرمی کی شدت کو دور کیا کرتے تھے۔ وقت گزرا زمانہ بدلا اور موجودہ دور میں جتنا ہم گرمی کو دور کرنے کے لیے گھروں میں فریج اور اے سی کا استعمال بڑھاتے جارہے ہیں اتنا ہی گرما شدید ہوتا جارہا ہے۔ گرمی جہاں عام آدمی کے لیے پریشانی کاسبب اور کبھی جان لیوا ثابت ہوتی ہے وہیں متوسط طبقہ اور اہل طبقہ کے لیے راحت کا سامان فراہم کرتی ہے۔ اب ہر گھر میں چار کمروں میں ایر کنڈیشنڈ عام ہے جس سے تھوڑی دیر میں موسم سرما کی طرح کمرے کو ٹھنڈا کیا جاتا ہے چاہے اے سی کی ہوا ہمارے لیے مضر ہی کیوں نہ ہو اور امراض قلب اور بی پی شوگر کا باعث ہی کیوں نہ ہو ہم اے سی استعمال کرنے لگے ہیں۔ شادیوں میں لڑکی کے والدین کولر دینے کے بجائے اب اے سی دے رہے ہیں کہ ان کی نازک بیٹی کو گرمی نہ لگے اور وہ سکون سے اے سی میں بیٹھ کر اپنے سسرال کا آنکھوں دیکھا حال اپنی ماں کو روز سنا کر ان سے مشورے لیتی رہے کہ کس طرح اسے سسرال میں ڈٹ کر رہنا ہے۔ متوسط طبقے کے لوگ جیسے ہی گرمیاں آتی ہیں سستے کولر لگا لیتے ہیں۔ اب ان میں پانی ڈالنا بھی ایک اہم کام ہے اور حیدرآبادی زبان میں اسے موت پڑنا کہتے ہیں، اب تان ٹوٹتی ہے تو بے چارے چھوٹے بیٹے پر جس کی ذمہ داری ہے کہ وہ باری باری سبھی کولروں میں پانی ڈالے ورنہ گرمی میں گزارا کیسے ہو۔ گرمی کی راحتیں اور بھی ہیں جب جی چاہا آئس کریم منگوالی یا کلفی یا چاکو بار منگوا لیا اور تھوڑی دیر کے لیے منہ کی ٹھنڈک کا سامان کرلیا ،حیدرآباد میں آئیس کریم کھانے کے بڑا میلہ معظم جاہی مارکیٹ میں لگتا ہے جہاں رات دیر گئے تو مختلف خاندان تفریح کی غرض سے آئس کریم کھانے چلے آتے ہیں کیوں کہ وہاں پوڈر کی بنی اصلی آئس کریم نہایت کم دام میں مل جاتی ہے۔ گرمی میں پہلے ہماری والدہ یا بوڑھے بڑے لوگ کیری کا آب شولہ بنایا کرتے تھے جس کا کھٹ مٹ مزا واقعی یادگار ہوتا تھا اور دل کو ٹھنڈک پہنچایا کرتا تھا۔ رات کو سونے سے قبل مٹی کی بنی ہنڈیا میں جوار کا آٹا بھگایا جاتا تھا اور صبح اس کی امبیل بنا کر بھیگے چنوں کے ساتھ پیش کی جاتی تھی۔ ہم اتفاق سے ایسے خطے میں رہتے ہیں جہاں گرمی سردی اور بارش معتدل ہوتی ہے لیکن شکایت کرنے والے انسان کو ہر موسم کی شدت گراں گزرتی ہے اور وہ لوگوں سے پہلی بات یہی کرتا ہے کہ کیا گرمی ہے بھائی ٹمپریچر فلاں فلاں ڈگری تک پہنچ گیا، لیکن ہم یہ غور نہیں کرتے کہ شدید گرمی میں ایک گلاس ٹھنڈا پانی‘ گھر کی بنی لسی اور فریج میں موجود آئس کریم کس قدر مزہ دیتی ہے اور اس شدید گرمی کی راحت میں ملنے والی یہ ٹھنڈک ہمیں خدا کا شکرگزار بناتی ہے کہ اس قدر گرمی میں اس ٹھنڈک کا سامان فراہم کیا ہے۔ گرمی ہمارے لیے اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس موسم میں اناج سکھایا جاتا ہے، لال مرچی لال رنگ اختیار کرتی ہے مختلف قسم کے جراثیم کا خاتمہ ہوتا ہے اور شدید گرمی سے جو پانی بھاپ بن کر اوپر اڑ جاتا ہے وہ بادلوں کی صورت اختیار کرکے مانسون کی شکل میں رحمت والی بارش بن کر ہمارے لیے پھر راحت کا سامان فراہم کرتا ہے۔ گرمی کا سب سے اچھا تحفہ پانی ہوتا ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اپنے گھروں پر پرندوں کے لیے دانہ پانی کا انتظام کیا جائے اور بے زبان مخلوق کو پانی پلایا جائے تو اللہ ہمارے لیے راحت کا سامان فراہم کرے۔ مختلف فلاحی تنظیمیں آبدار خانے بناتی ہیں اور لوگوں کو مفت پانی پینے کا انتظام کرتی ہیں ۔ ہمارے ایک چالاک دوست مرزا کا کہنا ہے کہ اگر آپ کو شدید گرمی میں کچھ وقت اے سی میں گزارنا ہے اور صاف ٹھنڈا پانی مفت میں پینا ہے تو کسی قریبی بنک میں داخل ہوجائیں وہاں کچھ دریافت کرنے کے بہانے اے سی کے مزے لیں اور صاف پانی پی کر نکل آئیں یا کسی اے سی شو روم میں کچھ خریداری کے بہانے داخل ہوجائیں اور ایک گھنٹہ دیکھنے کے بعد یہ شکایت کرتے ہوئے نکل آئیں کہ آپ کے پاس تو نیا اسٹاک ہے ہی نہیں۔ ماہ مضان الگ الگ ایام میں آتا ہے اور پھل اگانے والے کیا سردی کیا گرمی رمضان کی مناسبت سے ہی تربوز اگارہے ہیں ، رمضان ختم تو بازار سے تربوز غائب ۔ موسم گرما میں فروٹ جوس بھی ایک نعمت سے کم نہیں ۔ بہر حال گرمی کی راحتیں بھی ہیں اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم موسم کی شدت پر صبر اور راحتوں پر شکر کرنے والے بنیں۔