ہر نماز اور سونے سے قبل تسبیح سے گناہ معاف ہونے کا مطلب
نبی اکرم ا کا ارشاد ہے کہ دو خصلتیں ایسی ہیں کہ جو مسلمان ان کا اہتمام کرے جنت میں داخل ہوگا اور وہ دونوں بہت معمولی چیز ہے ، مگر ان پر عمل کرنے والے بہت کم ہیں، ایک یہ کہ ’’سبحان اللّٰہ ، الحمد للّٰہ ، اللّٰہ اکبر‘‘ ہر نماز کے بعد دس مرتبہ پڑھ لیا کرے توروزانہ ایک سو پچاس مرتبہ ہوجائے گا

سوال:-نبی اکرم ا کا ارشاد ہے کہ دو خصلتیں ایسی ہیں کہ جو مسلمان ان کا اہتمام کرے جنت میں داخل ہوگا اور وہ دونوں بہت معمولی چیز ہے ، مگر ان پر عمل کرنے والے بہت کم ہیں، ایک یہ کہ ’’سبحان اللّٰہ ، الحمد للّٰہ ، اللّٰہ اکبر‘‘ ہر نماز کے بعد دس مرتبہ پڑھ لیا کرے توروزانہ ایک سو پچاس مرتبہ ہوجائے گا،
اور دس گنا ہوجانے کی وجہ سے ایک ہزار پانچ سو نیکیاں حساب میں شمار کی جائیں گی اور دوسری چیز یہ ہے کہ سوتے وقت ’’ اللّٰہ اکبر‘‘ چونتیس مرتبہ ’’ الحمد للّٰہ ‘‘ تینتیس مرتبہ ’’سبحان اللّٰہ ‘‘ تینتیس مرتبہ پڑھ لیا کرے ، تو سو کلمے ہوگئے، جس کا ثواب دس گنا بڑھ کر ایک ہزار نیکیاں ہوجائیں گی،
اتنے گناہ تو انشاء اللہ روزانہ کے ہوں گے بھی نہیں،اور اس تسبیح کے علاوہ جتنے نیک کام کئے ہوں گے ان کا ثواب علیحدہ نفل میں رہا، مولانا! اس حدیث کے مطالعہ کے بعد میرے ذہن میں مختلف خیالات پیدا ہوئے ہیں ، اس لئے گزارش ہے کہ کیا واقعی یہ حدیث صحیح ہے؟ (محمد التمش، جہانگیرآباد)
جواب:- یہ حدیث حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص ص سے منقول ہے، اور صحیح ومعتبر ہے، امام ابوداؤد ؒ نے اسے اپنی سنن میں نقل کیا ہے، ( دیکھئے: سنن أبي داؤد ، کتاب الادب ، حدیث نمبر : ۵۰۶۵)حدیث میں ان دونوں باتوں کے اہتمام اور پابندی کی ترغیب دی گئی ہے،
اور اسے جنت میں داخل ہونے کا سبب کہا گیا ہے، لیکن ظاہر ہے کہ اس عمل کو وہی شخص پورا کرسکتا ہے جو پنچ وقتہ نماز کا پورا اہتمام کرتا ہو اور اس کی خاص توجہ ذکر اور دعاء کی طرف ہو، ورنہ عام لوگ جو فرائض و واجبات سے غافل ہیں، اس کا اہتمام نہیں کر سکتے ،
اس لئے اس کو مبالغہ نہ سمجھنا چاہئے اور ہم لوگوں کی گناہ کی خوگر زندگی کے اعتبار سے یہ بہت آسان بھی نہیں ، اس کے علاوہ آیات و روایات کو سامنے رکھ کر اہل علم کی رائے ہے کہ یہاں معاف ہونے والے گناہ سے وہ گناہ مراد ہیں جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہو، اور وہ صغائر ہوں ، کبیرہ گناہ اور حقوق الناس سے متعلق گناہ ان حسنات کی وجہ سے معاف نہیں ہو سکتے ،
الا یہ کہ جس انسان کے ساتھ حق تلفی ہوئی ہو، وہ خود معاف کردے، یا اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے کبائر کو بھی معاف فرمادے کہ وہ غفور و رحیم اور عفو و کریم ہے، اور اس کی بارگاہِ عفو میں کوئی کمی نہیں ، ایسی حدیثوں کے بارے میں غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے، بلکہ ان کو صحیح پس منظر میں دیکھنا چاہئے۔