سوشیل میڈیامذہب

ہمدردی جب ہلاکت کاذریعہ بن جائے!

کرناٹک کے ایک ضلع ٹمکورمیں تبلیغ کے ایک بھائی کی اپنی دکان تھی، جس سے اس کے گھرکاخرچہ ٹھیک ٹھاک چل رہاتھا، ایک دن اس کے پاس ایک نوجوان آیااوراس نے بتایا کہ میںایک غیرمسلم ہوں اور مسلمان ہونا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

ہمدردی اورزودحسی ہیںتوبہت اچھی چیزیں؛ لیکن ان کااستعمال بھی بہت غوروفکرکے بعد کرناچاہئے، اگرغوروفکرکے بغیران کااستعمال کیاجائے توبسااوقات’’آبیل مجھے مار‘‘ کی شکل میں ان کاظہورہوتا ہے، آپ سوچیںگے کہ ہمدردی بھی سوچ وچارکے بعدکریں؟

ارے ہمدردی کرنے والا کبھی گھاٹے میں نہیںرہتا، یہ بات کسی حدتک درست تھی؛ لیکن اب ماحول بدل چکاہے، حالات بدل چکے ہیں، لوگ اتنے احسان شناس نہیںکہ آپ کی ہمدردی کی قدرکریں اورزودحسی کا ساتھ دیں، آج تومعاملہ یہ ہوگیاہے کہ آپ جس کے ساتھ ہمدردی کررہے ہیں، وہی آپ کی لٹیاڈبونے کے لئے تیار؛ بلکہ پیش پیش رہنے والوں کی اگلی صف میں ملے گا، بہرحال! آج کے زمانہ میں ہمدردی اور زودحسی بہت ہی غور و فکر اور تحفظات کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے اوریہی فراست ایمانی کاتقاضہ بھی ہے، آیئے اس کوسمجھنے کے لئے ایک دو واقعات کاسہارالیتے ہیں، جوحقیقی ہیں اورایک دومہینے کے اندر اندر پیش آئے ہوئے ہیں۔

کرناٹک کے ایک ضلع ٹمکورمیں تبلیغ کے ایک بھائی کی اپنی دکان تھی، جس سے اس کے گھرکاخرچہ ٹھیک ٹھاک چل رہاتھا، ایک دن اس کے پاس ایک نوجوان آیااوراس نے بتایا کہ میںایک غیرمسلم ہوں اور مسلمان ہونا چاہتا ہوں، ایک مسلمان کے لئے یہ بڑے فخرکی بات ہے کہ اس کے ہاتھ میں کوئی مسلمان ہوجائے؛ کیونکہ اسے تو ’’خیر من حمر النعم‘‘ (سرخ اونٹوںسے بہتر) قرار دیا گیا ہے، ظاہرہے کہ ایسے شخص کے ساتھ ہرمسلمان ہمدردی سے پیش آئے گا اوراس کے جذبہ کی قدر کرے گا؛ بلکہ اس کے جذبے کی قدردانی میں خودیہ جذبات سے مغلوب ہوجائے گا اور یہ تو ٹھہرا تبلیغی بھائی، اس کا دل تو بلیوں اچھل پڑا ہوگا، خیر! اس نے اس کو کلمہ پڑھا دیا اور دائرۂ ایمان میں داخل کرادیا۔

یہ نومسلم اسی کے ساتھ رہنے سہنے اوراٹھنے بیٹھنے لگا، شاید اس کے ذہن میں بھی مدینہ کی’’مواخاۃ‘‘ کاخاکہ ہو، کھانا پینا سب ساتھ میں ہونے لگااوریہ سلسلہ تقریباً تین مہینے تک چلا، پھر اس نومسلم نے بتایا کہ اس کی ایک بہن شیموگہ میں رہتی ہے اور وہ بھی مسلمان ہوناچاہتی ہے، لہٰذا تم ساتھ میں چلواوراسے بھی اسلام میں داخل کرلو، وہ خوش کہ چلو اللہ تعالیٰ مجھ سے کام لے رہے ہیں اور واقعی خوشی کی بات بھی تھی۔

ایک دن وہ دونوں بذریعہ ٹرین شیموگہ کے لئے نکلے، کچھ اسٹیشن گزرنے کے بعد وہ نومسلم کسی کام کا کہہ کر ٹرین سے اترا؛ لیکن پھر وہ واپس نہیں آیا، وہاں سے وہ غائب ہوگیا، نگاہ ڈھونڈتی رہی؛ لیکن وہ کہیں نظر نہیں آیا؛ بلکہ اس کی جگہ پولیس آئی اور اسے اٹھاکر لے گئی اوراس پر Non bailable مقدمہ دائر کردیا، اب گھروالے پریشان، بیوی پریشان، ہمدرد پریشان، محلہ والے پریشان، کیوںکہ وہ اس وقت کہاں ہے؟ صحیح طور پر معلوم بھی نہیں، جس پولیس اسٹیشن کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ وہاں ہے، لوگ وہاں جاتے ہیں؛ لیکن ناکام ونامراد واپس آتے ہیں۔

ایک دوسرا واقعہ، جس نے سوشل میڈیا میں بھی کافی ہلچل مچائی، وہ بھی اسی سے ملتاجلتاہے، ایک مولوی نماشخص نے فیس بک پرخاتون کی آئی ڈی بنائی اورخصوصیت کے ساتھ مولویوں کو فرینڈ رکویسٹ بھیجی، سبھوں نے ہاتھوں ہاتھ قبول کیا، وقتاً فوقتاً وہ بہت زبردست دینی پوسٹ اپنے وال پر ڈالتا رہا، جس پر خوب داد ملی، وہ خود نومسلم کی بھیس میں بھی ظاہر ہوا یا اپنی دوسری آئی ڈی، جو ایک لڑکی ہی کے نام پر تھی، اس کو غیرمسلم بنا کر پیش کیا، ہمدردیاں بھی بٹورتا رہا اور پیسے بھی اینٹھتا رہا، لوگوں نے کافی کچھ تعاون کیا، پھر ایک دن وہ دائرہ ٔاسلام سے بھی باہر ہوگیا وغیرہ وغیرہ۔ بعد میں پول کھلا کہ یہ توڈھول کے اندر پول ہے اور یہ کوئی خاتون اور نومسلم نہیں؛ بلکہ ایک مولوی نما نوجوان ہے؛ لیکن تب تک چڑیاںچگ چکی تھیں کھیت۔

ان دونوں واقعات کو دیکھیں، دونوں کا تعلق ہمدردی اور زود حسی سے ہے، یقیناً مسلمان ہمدرد ہوتے ہیں اور ان کواس کا حکم بھی دیا گیا ہے، وہ سیدھا سادھا ہوتا ہے؛ لیکن اس کے باوجود اسے فراست ایمانی سے نوازا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے: اتقوافراسۃ المؤمن (طبرانی، حدیث نمبر: ۷۴۹۷، التاریخ الکبیرللبخاری: ۷؍۳۵۴) ’’مومن کی فراست سے بچو‘‘ یعنی وہ فراست کا استعمال کرتا ہے، جس کی وجہ سے وہ دھوکہ نہیں کھاتا، وہ چوکنا رہتا ہے، حدیث میں کہا گیا ہے: لایلدغ المؤمن من جحر مرتین (صحیح الجامع للالبانی، حدیث نمبر: ۷۷۷۹) ’’مومن ایک سوراخ سے دوبارنہیں ڈسا جاتا‘‘، یعنی وہ چوکنا رہتا ہے اورجس جاسے ایک باروہ دھوکہ کھاچکاہو، دوبارہ اس جاسے دھوکہ نہیں کھاتا۔

یہ دومثالیںہیں بس، ورنہ اس طرح کے کام ہوتے رہتے ہیں اور آج کل کچھ زیادہ ہورہے ہیں اورہم ہیں کہ مارے ہمدردی کے بچھے چلے جاتے ہیں، ہمدردی کرنے سے کوئی ممانعت نہیں ہے، کیجئے اور ضرور کیجئے؛ لیکن کرنے سے پہلے سوچ سمجھ لیجئے، کہیں یہ ہمدردی آپ کو ہلاکت میں تو نہیں ڈال دے گی؟
٭٭٭

a3w
a3w