123وقف جائیدادیں، مرکز کے کنٹرول میں جانے نہیں دوں گا: صدرنشین دہلی وقف بورڈ
مرکزی وزارت ِ امکنہ و شہری امور نے فیصلہ کیا ہے کہ دہلی وقف بورڈ سے 123 جائیدادیں اپنے کنٹرول میں لے لی جائیں۔ ان میں مساجد‘ درگاہیں اور قبرستان شامل ہیں۔
نئی دہلی: مرکزی وزارت ِ امکنہ و شہری امور نے فیصلہ کیا ہے کہ دہلی وقف بورڈ سے 123 جائیدادیں اپنے کنٹرول میں لے لی جائیں۔ ان میں مساجد‘ درگاہیں اور قبرستان شامل ہیں۔
اس پر صدرنشین بورڈ و عام آدمی پارٹی رکن اسمبلی امانت اللہ خان کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ امانت اللہ خان نے زور دے کر کہا کہ وہ مرکزی حکومت کو وقف جائیدادوں کو اپنے کنٹرول میں لینے نہیں دیں گے۔ ڈپٹی لینڈ اینڈ ڈیولپمنٹ آفیسر نے 8 فروری کو بورڈ کو مکتوب لکھتے ہوئے 123 وقف جائیدادوں کے ٹیک اوور کی اطلاع دی تھی۔
مرکزی وزارت کے لینڈ اینڈ ڈیولپمنٹ آفس (ایل اینڈ ڈی او) کا کہنا ہے کہ ڈی نوٹیفائیڈ وقف جائیدادوں پر بنی 2 رکنی کمیٹی نے جس کے سربراہ ریٹائرڈ جسٹس ایس پی گرگ تھے‘ اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ دہلی وقف بورڈ کی طرف سے نہ تو کوئی نمائندگی ہوئی اور نہ ہی کوئی اعتراض درج کرایا گیا۔
حکومت ِ ہند نے دہلی ہائی کورٹ کے کہنے پر یہ کمیٹی قائم کی تھی۔ ایل اینڈ ڈی او کا کہنا ہے کہ دہلی وقف بورڈ کو کمیٹی نے پورا موقع دیا لیکن اس نے نہ تو کمیٹی میں حاضری دی اور نہ ہی 123جائیدادوں کے تعلق سے اپنا کوئی اعتراض درج کرایا۔
ان حقائق کے مدنظر اب دہلی وقف بورڈ کا ان جائیدادوں پر کوئی حق نہیں رہا لہٰذا اسے ان جائیدادوں کے تمام معاملات سے بے دخل کردینے کا فیصلہ ہوا۔ اب تمام 123 جائیدادوں کا فزیکل انسپکشن ایل اینڈ ڈی او کی طرف سے ہوگا۔ امانت اللہ خان کے بموجب ایل اینڈ ڈی او نے 123 جائیدادوں پر نوٹسیں چسپاں کردیں جس سے مسلم فرقہ میں بڑی بے چینی‘ خوف اور ناراضگی پھیل گئی ہے۔
انہو ں نے کہا کہ ہم عدالت میں اپنی آواز اٹھاچکے ہیں۔ ہائی کورٹ میں ہماری رِٹ درخواست نمبر 1961/2022 زیرالتوا ہے۔ انہوں نے ہندی میں ٹویٹ کیا کہ بعض لوگ جھوٹ پھیلارہے ہیں۔ ثبوت آپ سب کے سامنے ہے۔ ہم کسی کو بھی وقف بورڈ کی جائیدادوں پر قبضہ کرنے نہیں دیں گے۔
صدرنشین دہلی وقف بورڈ نے جمعہ کے دن ڈپٹی لینڈ اینڈ ڈیولپمنٹ آفیسر وزارتِ امکنہ و شہری امور کو لکھا کہ دہلی وقف بورڈ 2 رکنی کمیٹی کی تشکیل کے خلاف جنوری 2022 میں ہائی کورٹ میں درخواست داخل کرچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 123جائیدادیں مسلم فرقہ کے زیراستعمال ہیں۔
ان جائیدادوں کے روزمرہ انتظامات متولیوں یا دہلی وقف بورڈ کی مقررہ انتظامی کمیٹیوں کی طرف سے کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وقف ایکٹ کے بموجب تمام وقف جائیدادیں متعلقہ وقف بورڈ کی ہوتی ہیں۔ موجودہ کیس میں یہ بورڈ‘ وقف بورڈ ہے۔ بعض جائیدادیں دہلی وقف بورڈ کو اس کے پیشرو سنی مجلس اوقاف نے دی تھیں جو انگریزدور کا ادارہ تھا۔